سر سید، حالی اور حسرت موہانی نااہل قرار پائے (1)


ایک ہے ملک خداداد لیکن خداداد ہونے کے باوجود خستہ حال ہے۔ حکمران اس ملک کے حد درجہ نااہل اور خائن رہے ہیں۔ باشندگان ملک عجب بے تمیز واقع ہوئے ہیں۔ سامنے والا سیدھا راستہ چھوڑ کر ہمیشہ ٹیڑھا اور لمبا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن دعائیں بہت مانگتے ہیں کہ کسی طرح ان کے حالات سدھر جائیں اور وہ امن چین کی زندگی بسر کر سکیں۔

باشندگان ملک خداداد کی دعائیں قبول ہوئیں اور منصف اعلیٰ کو قوم کی زبوں حالی پر رحم آیا تو اس نے سووموٹو اختیار کے تحت فرمان جاری کیا کہ عدالت نے باصفا اور متقی حضرات پر مشتمل ایک کمیشن برائے احتساب عقاید، صداقت و امانت مقرر کیا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند تمام افراد کو اس کمیشن کے روبرو پیش ہو کر اپنے صادق اور امین ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہو گا۔ انتخابات کے انعقاد پر چونکہ بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے اور بعد از انتخاب اس کی جانچ پڑتال میں بہت وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ کام الیکشن سے پہلے مکمل کیا جائے تاکہ مصدقہ صادق اور امین ہی امیدوار بن سکیں۔

یہ اعلان سنتے ہی سیاست کے بازار کی تمام گلیاں ویران اور سنجیاں ہو گئیں۔ الیکشن لڑنے کے جس بھی خواہش مند نے جب اپنے آپ کو تولا توخود کو بہت ہلکا پایا۔ برسر عام بے عزت ہونے سے یہی بہتر خیال کیا کہ اس راہ دشوار پر سفر کا ارادہ فی الوقت موقوف کر دیا جائے۔

کچھ کارکنان قضا و قدر کو ملک خداداد کے بازار سیاست کی یہ مندی دیکھ کر رحم آیا اور اس دنیا سے گئے ہوئے کچھ لوگوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ان شرائط پر پورا اترتے ہوئے اس قوم کی ڈولتی نیا کے کھیون ہار ثابت ہوں۔ رات ٹی وی سکرینوں پر یہ بریکنگ نیوز چلنےلگی کہ کل احتساب کمیشن کے سامنے ایسے افراد پیش ہوں گے جو یقیناً ان اسلامی شرائط پر پورا اترتے ہیں۔

چنانچہ ان متقی اور پارسا افراد کی زیارت کرنے ہم بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گورے چٹے بزرگ تشریف لا رہے ہیں، سفید موسلادھار ریش مبارک سے چہرہ بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ سر پر پرانی وضع کی ترکی ٹوپی اور شیروانی میں ملبوس ہیں۔ نام پوچھا گیا تو سید احمد خان بتایا۔ بورڈ نے استفسار کیا کہ آپ کو کس بنا پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ اس کےجواب میں انھوں نے اپنی قومی اسلامی خدمات گنوانا شروع کیں۔ وہ اس قدر زیادہ تھیں کہ بورڈ کی قوت سماعت جواب دے گئی اور بورڈ نے کہا بس اتنا کافی ہے۔ پھر بورڈ نے پوچھا کہ کسی کو ان صاحب پر کوئی اعتراض ہے؟ ایک مذہبی جماعت کے چھدری داڑھی والے رکن کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ شخص نہ صادق ہے اور نہ امین۔ بورڈ نے پوچھا کہ یہ آپ کس بنا پر کہہ رہے ہیں؟ معترض نے کہا کہ اس شخص کا صادق نہ ہونا تو ابھی ثابت ہو گیا ہے کہ اس نے اپنا نام بھی پورا نہیں بتایا۔ اس کا نام سر سید احمد خان ہے اور یہ خان بہادر بھی تھا۔ می لارڈ یہ شخص انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور مسلمانوں میں فتنہ فساد پھیلانے کے لیے انگریزوں نے اس کی سرپرستی کی تھی۔ اس نے اہل ایمان کو جہاد سے برگشتہ کرکے نصاریٰ کی حکومت کی اطاعت کا درس دیا۔ دینی مدارس کے مقابلے پر انگریزی تعلیم کے ادارے کھولے جہاں ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو کفرو الحاد کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کے نتیجے میں وہ دین سے برگشتہ ہو جاتے تھے۔ اس شخص کے عقائد میں بھی بے پناہ فساد تھا۔ یہ نیچری تھا اور معجزات کا انکار کرتا تھا۔ اس نے تفسیر قرآن بھی لکھی تھی جو علمائے حق کے نزدیک سراسر گمراہی اور ضلالت پر مبنی تھی۔

می لارڈ! اس شخص نے ایک اور بہت گھٹیا اور خلاف شریعت کام کیا تھا۔ اس نے جو جدید تعلیم کا مدرسہ قائم کیا تھا اس کے لیے چندہ مانگنے طوائفوں کے پاس بھی چلا گیا تھا اور ان کی حرام کی کمائی کو اس مدرسہ کی تعمیر میں استعمال کیا تھا۔ اب خود ہی سوچیے جس مدرسے کی تعمیر میں طوائفوں کی کمائی بھی شامل ہووہاں سے کوئی خیر کس طرح برآمد ہو سکتا ہے۔ یہ بات سن کر کمیشن کے تمام ارکان کانوں کو ہاتھ لگانے لگے اور استغفار کا ورد شروع کر دیا۔

وہاں موجود مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے نامنظور نامنظور کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ کمیشن نے سر سید کی تفسیر کا جائزہ لینے کے بعد اور طوائفوں سے چندہ لینے کی بنا پر فیصلہ کیا کہ یہ شخص نہ صرف صادق اور امین نہیں بلکہ بدعقیدہ اور گمراہ بھی ہے۔ اس لیے اس کے کاغذات نامزدگی نامنظور کیے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).