صادق اور امین


پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد آئین کی شقیں باسٹھ تریسٹھ زیر بحث ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ شقیں غیر عملی ہیں اور ان کی اطلاق کے بعد شاید کوئی بھی عوامی نمائندگی کے اہل نہ رہے۔ متضاد رائے رکھنے والوں کے خیال میں ایسا شخص جو صادق اور امین نہ ہو، کرپٹ ہو، اخلاقی جرائم میں ملوث ہو اسے کوئی حق نہیں کہ وہ عوام کی نمائندگی کرے۔ ایک تیسری رائے بھی ہے جس کی جڑیں مذہب میں ہیں لیکن چونکہ مذہب میرا میدان نہیں لہٰذا میں اس پر کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ جہاں تک پہلی دو آراء کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اس بحث کا تناظر درست کرنے کی ضرورت ہے۔

جمہوریت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور صدیوں کے اس سفر کے دوران جمہوری معاشروں نے کچھ اصول وضع کر لئے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت کو پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں جمہوری معاشروں کے مسلمہ اصولوں کو اپنا کر صدیوں پرانی جمہوریت کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان مسلمہ اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ کسی فرد یا ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شخص کے حق نمائندگی کو تلف کر دے۔ حق نمائندگی بنیادی شہری حق ہے اور کون عوام کی نمائندگی کرنے کا اہل ہے اور کون نہیں، یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف عوام کو ہے۔ جب پاکستان میں قانون سازی کی گئی کہ صرف ڈگری ہولڈرز ہی پارلیمان کے ممبر بن سکتے ہیں تو میں تب بھی یہی رائے رکھتا تھا کہ یہ قانون جمہوری اصولوں سے متصادم ہے جن کے مطابق ہر شہری کو حق ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے۔

تو کیا کرپشن میں ملوث لوگوں کو پارلیمان جانے دیا جائے؟ کرپشن اور دیگر جرائم کی سزاؤں کے قوانین موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی جرم کا مرتکب پایا جائے تو جمہوریت اس کی سزا پر عمل درآمد سے نہیں روکتی لیکن کسی سزا یافتہ شخص کو بھی حق نمائندگی سے محروم کرنا جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ قانون جرم کی سزا دے لیکن اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔

باسٹھ تریسٹھ کے حامی اکثر مغربی جمہوریتوں کی مثال دیتے ہیں۔ ان کی یہ امثال شاید ان کی کم علمی کی وجہ سے ہیں۔ مغربی جمہوریت میں ایسی مثالیں ڈھونڈنا مشکل کام ہے۔ امریکہ میں ایوان نمائیندگان میں شمولیت کی اہلیت میں عمر اور رہائش کی شرائط کے علاوہ صرف یہ شرط شامل ہے کہ امیدوار ریاست سے بغاوت کے جرم کا مرتکب نہ رہا ہو۔ برطانیہ میں بھی ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت کسی جرم میں سزایافتہ فرد کو پارلیمان ممبر بننے سے نااہل قرار دیا جاسکے۔ اسی طرح بیسوں اور مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ کینیڈا ایک استثنیٰ ہے جہاں ایسا شخص جو جیل میں ہو الیکشن نہیں لڑ سکتا لیکن سزا پوری کرنے کے بعد اسے انتخابات میں شامل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس قانون کی بنیاد اخلاقیات سے زیادہ عملیت پر ہے۔

ایسے احباب جو بحث میں انتہاؤں کو چھونے کی عادت رکھتے ہیں وہ ضرور یہ سوال اٹھائیں گے کہ کیا اب دہشتگردوں کو بھی انتخاب لڑنے دیا جائے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ جو عناصر ریاست سے متحارب ہوں انہیں حق نمائیندگی نہیں دیا جاتا جیسا کہ امریکہ کی مثال میں درج کیا۔

اس نکتے تک پہنچ کر کئی دوست مجھے ایسے دلائل دینے لگتے ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام اس قابل ہی نہیں کہ کسی کی اہلیت کا فیصلہ کر سکیں۔ اس سوچ کے عوامل میں جائے بغیر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میں پاکستانی عوام میں ایک سیاسی ورکر کے طور پر کام کر چکا ہوں اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی عوام کا مجموعی سیاسی شعور دنیا کی کسی اور قوم سے کم نہیں اور یہ حقیقت میں کئی مثالوں سے ثابت کر سکتا ہوں لیکن فی الوقت موضوع تحریر کچھ اور ہے لہٰذا اپنے لوگوں کو کمتر سمجھنا ترک کیجئے اور جمہوریت کے مسلمہ اصول کے تحت انہیں اپنے نمائندگان چننے کا غیر مشروط حق دیجئے کہ آگے کا راستہ صرف یہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).