عدالتی فیصلہ، ردعمل اور سوالات


جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ روز جمعہ کو پانامہ لیکس کے کیس پر عدالتی فیصلہ سامنے آیا۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اس فیصلہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔ مخالفین نے مٹھائیاں بانٹیں، ڈھول بجائے، اور بھنگڑے ڈال کر خوشی کا اظہار کیا۔ بعض نے نوافل اداکیے۔ بالخصوص پی ٹی آئی کے کارکن زیادہ پرجوش نظر آئے۔ فیصلے سے لے کر اب تک خوشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عدالت عظمی کا یہ فیصلہ جہاں مخالفین کے لئے خوشیوں کا باعث بنا وہیں حامیوں کی لئے مایوسی کی وجہ بنا۔

واضح کرتا چلوں عدالت نے نواز شریف کی نا اہلی کے ساتھ ساتھ نواز شریف، اسحق ڈار، مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز کے کیسز نیب کو ریفر کردیئے۔ عدالت عظمی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے اور پاکستانی عوام اللہ کی عدالت کے بعد اس عدالت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی بنا پر عدالتی فیصلے کو نا ماننے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہم من و عن عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ میڈیا کانفرنسز میں مسلم لیگ نواز کی طرف سے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، تاہم مسلم لیگ ن سمیت نواز شریف کو بھی یہ فیصلہ تسلیم کرنا پڑا۔ اسی طرح عوام کا بھی ردعمل بھی مختلف رہا۔ کسی نے تحفظات کا اظہار کیا، کسی نے تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ماہر قانون و قانون دانوں کا رد عمل بھی ایک جیسا نہیں اکثر قانون دانوں نے فیصلے پر سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا۔ بعض قانون دانوں نے تکنیکی بنیادوں پر تنقید کی بعض نے تائید کی اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔

سوشل میڈیا کی بات کی جائے تو جہالت کو غلبہ حاصل رہا کافی گرما گرمی نظر آئی۔ جاہل لوگوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خوب گالم گلوچ سے کام لیا، انتہا پسندی سر فہرست رہی جو کہ ہماری حقیقی روایت اور ساکھ کے منافی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے تحمل سے کام لیا کریں گالم گلوچ سے خود کو اور اپنی برائی کو عیاں نہ کیا کریں۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کا پارلیمانی اجلاس ہوا۔ جس کے اختتام پر نواز شریف نے شہباز شریف کو بقیہ مدت کے لئے اور شاہد خاقان عباسی کو انٹرم ٹائم کے لئے وزیر اعظم نامزد کیا جس پر پوری پارٹی نے اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ شاہد خاقان عباسی کو پارلیمان نے بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب بھی کر لیا ہے۔ تاہم مخالفین و ماہرین کی طرف سے تنقید سامنے آئی ماہرین کا کہنا ہے کہ نا اہل شخص کی طرف سے وزیراعظم نامزد کیا جانا مضحکہ خیز ہے۔

یہ تھی مختصر سٹوری، اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ قارئین عدالت عظمی نے نواز شریف کو پانامہ کے معاملات پر نہیں بلکہ اثاثے چھپانے یعنی اقامہ کے معاملات پر نا اہل کیا۔ یعنی آئین کے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نا اہل قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ مدعی کی طرف سے کیس کرپشن کا دائر کیا گیا یا نا اہلی کا؟ اس پر مختلف قانون دان بھی تحفظات کا شکار ہیں، جو عدلیہ کی ساکھ کے لئے ٹھیک نہیں۔ آزاد عدلیہ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے، اور آزاد عدلیہ سے انصاف پر مبنی فیصلے کی توقع کرنی چاہیے البتہ اگر بدقسمتی سے فیصلہ اس کے برعکس نظر آئے تو اس سے آزاد عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ آخر عدالت نے کرپشن پر نا اہل کیوں نہیں کیا؟ کیا کرپشن ثابت نہیں ہوئی؟ ان کے جوابات عدالت ہی دے سکتی ہے جو فیصلے کے بعد سے زیر گردش ہیں۔ بڑی بات! جسٹس کھوسہ کا ایک عدالتی ریمارک سامنے آیا تھا جسے بعد میں حذف کر دیا گیا۔ ’اگر 62، 63 کا اطلاق کیا جائے تو سراج الحق کے علاوہ کوئی پارلیمنٹ میں صادق و امین نہیں بچے گا‘۔ البتہ نواز شریف 62آرٹیکل کے تحت ناہل ہوا۔ کیا 62، 63کی آڑ میں باقی اسمبلی ممبران کو تاحیات نا اہل قرار دیا جائے گا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ بالخصوص یہ سوال جسٹس کھوسہ کے لئے۔

ماہرین کے مطابق بھٹو کے فیصلے کی طرح یہ فیصلہ بھی سوالات کا شکار ہے اور کبھی بھی اس فیصلے کو تاریخ میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ کوئی بھی پارٹی نہیں چاہے گی کہ 62، 63کے تحت ان کے رہنما تاحیات نا اہل قرار پائیں۔ کیا عمران خان، آصف زرداری، پرویز مشرف، شیخ رشید، خورشید شاہ، جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ اسے نظیر کے طور پر پیش کریں گے؟ کیا اس کا اطلاق اپنے اوپر چاہیں گے؟ ہر گز نہیں، کیوں کہ یہ خود بھی اس کی زد میں آکر نا اہل ہو جائیں گے۔ اسی لئے ماہرین کا کہنا ہے کہ خوشیاں منانے سے پہلے فیصلے کو نوعیت کو سمجھنا ضروری ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے (کاش ایسا ہو جائے) اور اب پاکستان کرپشن سے پاک ہوجائے گایہ ان کی خواہش ضرور ہے حقیقت میں تو ابھی بہت سے کام ہونا باقی ہیں۔ نواز شریف کے بہت سے کیسز ماضی میں زیر التواء تھے جس طرح اب مشرف کا بغاوت کا مقدمہ زیر التواء ہے۔ ماضی میں بھی ایسے کئی زیر التواء کیسز عدلیہ کے کردار پر سوال اٹھاتے رہے اور اب بھی بھی ایسا ہی ہے۔ بلا امتیاز اور حقیقی احتساب نہ جانے کب شروع ہوگا؟ کب تک ٹارگٹڈ احتساب جاری رہے گا؟ آخر کرپشن کو جڑ سے کیوں نہیں اکھاڑا جاتا؟ بلاتفریق سب کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخرکیوں؟ کیا کچھ طاقتیں ہمارے اوپر حاوی ہیں؟ کیا مفادات کے لئے کچھ کا احتساب اور کچھ کو بری ذمہ کردیا جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے کیسے ہے وجوہات کیا ہیں؟ کیوں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت نہیں کر پاتا؟ اگر کرپشن اس کی وجہ ہے تو ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہم سے کرپٹ لیڈر ہی منتخب ہوتا ہے؟ غلطی عوام کی ہے یا سازشی قوتیں طاقتور اور با اثر ہیں؟ آخر اسٹیبلشمنٹ کہتے کسے ہیں؟ اس کا کیا کردار ہے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے کوئی جوابات نہیں، عوام چاہتے ہوئے بھی ان کے جوابات حاصل نہی کر پاتی کیوں افراتفری کے اس کھیل میں عوامی توجہ و خیالات کو فوری ٹریپ کیا جاتا ہے۔

اب وقت بدل رہا ہے سازشی بھی وقت کی رفتار سے چلنا سیکھ رہے ہیں اور ہم عوام ہیں کہ سیاست و اندرونی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھی بدلنا ہوگا اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے بدلنا ہوگا۔ ہم کیسے بے وقوف ہیں کہ صرف ایک دو شخص کے احتساب پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں اور باقی کرپٹ عناصر کو سلگتا ہوا چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہی سلگتی چنگاری ہمیں بار بار اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آئیے ایک عہد کریں کے سب کرپٹ و بد اخلاق لوگوں کا احتساب کریں، آواز اٹھائیں ایسی نہ ختم ہونے والے آواز جو پارلیمنٹ کے ایوانوں سے ہوتی ہوئی فوج کے ہیڈکوارٹرز سے گزر کر سیدھا انصاف کے کٹہروں میں جا گونجے۔ واضح کرتا چلوں کہ کسی ادارے و پارٹی میں اچھے و برے لوگ دونوں ہوتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ چند برے لوگ ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں ہمیں ان کا احتساب کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک آواز ہونا ہوگا۔ کیا سب کے احتساب کا مطالبہ درست نہیں؟ اگر ہے تو چلو یکجا ہوجاؤ اور آواز و صدا بلند کرو ہر فورم پر، کہ ہمیں سب کا احتساب چاہیے۔ میڈیا جس پر بہت سے الزامات ہیں، اس کے پاس بھی موقع ہے کہ احتساب کے اس موسم میں ’سب کے احتساب‘ کا مطالبہ اٹھا کر ملک و قوم کے وفادار ثابت ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).