عمران خان اور عائشہ گلالئی کی ادھوری کہانی


ہمارے ملک کی سیاست ڈراموں سے بھری پڑی ہے۔ کبھی ایان علی کا ڈرامہ چلتا ہے، کبھی وینا ملک سرخیوں میں ہوتی ہے، کبھی کشمالہ طارق، ماروی میمن، قندیل بلوچ، حناربانی اور کبھی کسی کی کہانی چلتی ہے جو میڈیا کو ایندھن فراہم کرتا ہے ایسی ہی ایک کہانی عائشہ گلالئی اور عمران خان کی کہانی ہے جس نے ملکی سیاست میں تھرتھلی مچا دی ہے۔ عائشہ گلالئی نے عمران خان پر الزامات لگاکر کہانی کی ابتداءکرکے ملکی سیاست میں دھماکہ کردیا ہے مگر ان دونوں کی کی کہانی ابھی تک کلیئر نہیں ہے۔ کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ کا ساتھی ہے۔ مگر سوشل میڈیا پر ایک طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے جس میں عائشہ گلالئی کی بہن ماریہ طور پیکی کو بھی گھیسٹا گیا ہے۔ کہ عائشہ نے پریس کانفرنس میں غیرت مند پختون قبیلے کی بات کی تھی تو یہ کیسی غیرت ہے کہ ایک بہن غیر اسلامی لباس میں گیم کھیلتی ہے اور دوسری کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے میسجز آتے ہیں اور وہ چار سال تک اُس پر خاموش رہتی ہے حالانکہ اس کے والد اور فیملی کو بھی پتہ ہوتا ہے۔ مگر غیرت نہیں جاگتی۔ اور جب کچھ مسائل ہوجاتے ہیں تو وہ الزامات کی بوچھاڑ شروع کردیتی ہے۔ جس میں پتہ نہیں جھوٹ بولا جارہا ہے یا سچ یہ حقیقت ابھی سامنے آنی ہے۔ مگر گزشتہ رات عائشہ گلالئی کے تین الگ الگ پروگراموں میں شرکت کرکے معاملہ اپنے خلاف کر لیا ہے

کیونکہ کل رات اس نے 3 شو کیے، کاشف عباسی، ایکسپریس اور چینل 24۔ ہر پروگرام میں الگ سکرپٹ، الگ منتطق اور الگ پوائنٹ آف ویو تھا۔ اور وہ کسی بھی پروگرام میں ثبوت پیش یا ثابت نہ کر سکی۔

کاشف عباسی کے آف دی ریکارڈ میں ٹکٹ کا اقرار کیا، مبشر لقمان کے سامنے مکر گئی۔ وہاں پر بات کی مجھے کہیں سے آفرز نہیں ہیں پھر مبشر کے شو میں کہا کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی سے آفرز ہیں جبکہ کاشف عباسی کے سامنے ن لیگ سے رابطوں کا دعویٰ مسترد کیا۔ مبشر لقمان کے سامنے برملا کہا مجھے امیر مقام کا فون آیا۔ ابھی تک ایک جھوٹ کے پیچھے بہت سے جھوٹ بولے جاچکے ہیں۔ اور ہر کسی کے حوالے سے ایک ہی بات میں اس کو مقدمہ کروں گی۔ عارف نظامی کو جس نے پچاس کروڑ لینے کی بات کی، کامران شاہد کو جس نے من گھڑت باتیں کیں، عمران خان کو جس نے اسے ہراساں کیا، پارٹی لیڈران کو، ن لیگ کے سیاسی رہنماؤں کو جنہوں نے یہ خبریں پھیلائیں کہ وہ ن لیگ جوائن کر رہی ہیں جبکہ اس کے پاس اس میسیج کا ریکارڈ نہیں جس پر ساری کہانی مبنی ہے۔ وہ پی ٹی اے اور بلیک بیری کا کام ہے۔ دوسری جانب عائشہ کے والد شمس وزیر کی ویڈیو بھی وائرل ہوچکی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین کا نام لو۔ بڑے بزرگوں نے سچ کہا ہے ” ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے 100 جھوٹ بولنے پڑھتے ہہیں۔ اب تک عمران خان اس پوری کہانی پر خاموش ہے جبکہ عائشہ گلالئی خود کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔

یہ ساری کہانی تب شروع ہوتی ہے جب عائشہ ایک وفد کے ساتھ عمران خان سے ملنے جاتی ہے وہاں پرویز خٹک کے خلاف شکایت لگائی، تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں کرپشن کی بات کی، اور مراد سعید کو زیادہ توجہ دینے پر بھی بات کی، عمران خان نے جو باتیں کیں وہ ابھی مصدقہ معلومات نہیں۔ جبکہ میری اطاعات کے مطابق جو کامران شاہد نے کہا اس میں سچائی ہے۔ گلالئی کو کامیابی نہیں ملی تو اگلے دن پریس کانفرنس کرکے تحریکِ انصاف کی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے، خواتین کے لئے پارٹی کو غیر محفوظ قرار دیا، میڈیا کے لئے جو کام کی خبر تھی وہ، جنسی طور پر ہراساں کرنے کے وہ الزامات تھے جو بقول عائشہ کے دو نمبر پٹھان عمران نیازی نے اسے اپنے بلیک بیری سے2013 میں بھیجے اور یہ سلسلہ بہت عرصے تک جاری رہا۔ مگر گزشتہ سال سے کوئی میسیج نہیں آیا۔ اس خبر کو میڈیا نے بھی اچھالا اور سیاسی مخالفین نے بہت زیادہ اہمیت دی۔

مجھے خود ایک دوست کے توسط سے پتہ چلا تھا کہ عائشہ این اے ون کی سیٹ کے لئے پر تول رہی ہے اور ہمارے علاقے میں یعنی بانڈہ داؤد شاہ (کرک) میں ماریہ طور پیکئی کے نام پر ہسپتال قائم کرنا چاہتی ہے جس کے لئے دو دفعہ دبئی کا وزٹ بھی کیا جا چکا ہے۔ اور کافی فنڈ ریزنگ کی جاچکی ہے اس لئے عائشہ گلالئی کی مدد کرنی چاہیے جس کے لئے میں نے خود عائشہ گلالئی کو ایک پلیٹ فارم دیا جس میں وہ مہمان خصوصی بنی، کیونکہ وہ کہہ رہی تھی کہ میں نے لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنی ہے اوراین اے ون سے الیکشن لڑنا ہے۔ یعنی اس کے ذہن میں بہت پہلے سے این اے ون سے الیکشن لڑنے کا بھوت سوار تھا مگر مسئلہ تب شروع ہوا جب شوکت علی پارٹی میں آگئے جس نے صرف ایک ہی شرط رکھی کہ کوئی پیسے نہیں چاہیے ملازمتیں بھی نہیں چاہیے صرف این اے ون کی سیٹ، جس پر عمران خان جیت چکے ہیں اور بے نظیر بھٹو اس سیٹ پر ہار گئی تھی۔

یہیں سے گلالئی کو پرویز خٹک کھٹکنے لگا۔ کیونکہ پشاور میں سب سے زیادہ بجٹ اس علاقے کا ہوتا ہے۔ اور اس پر بلور بردران کی اجارہ داری ہے۔ جبکہ گلالئی نے اپنی زندگی میں کونسلر کی سیٹ بھی نہیں جیتی، وہ خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی، پارٹی میں اسے ایک مقام دیا گیا مگر اُس نے اپنے مقاصد اور لالچ کے لئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب مسلم لیگ کی حکومت نواز شریف کی کرسی سے اتارے جانے کا بدلہ لینے کے لئے کسی بھی طریقے سے عمران خان کو نا اہل قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ اور یوں عمران خان کو نا اہل کرنے کی سازش کا حصہ بن گئی۔ او ر اپنے سیاسی کیرئیر کو داؤ پر لگادیا۔ جس کے لئے اس نے اتنی بڑی محنت نہیں کی۔ اگر یہ سب سازش تھی۔ یا پیسوں کے حصول کے لئے ایک کوشش تھی تو یہ عائشہ گلالئی نے پختون قوم کے ساتھ زیادتی کی اور خواتین جو سیاست میں آکر ملک وقوم کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔ اُن کے ساتھ زیادتی کی جس پر اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگر عمران خان نے واقعی میں پارٹی کے اندر خواتین کو ہراساں کیا ہے تو عمران خان نے اپنے قوم کے ساتھ اور نوجوانوں کے ساتھ سنگین جرم کیا ہے جس کی اُسے سزا ملنی چاہیے۔

اب اس ادھوری کہانی کا انجام کیا ہوگا اس کے لئے بہت سے مراحل باقی ہیں مگر مجھے لگتا ہے، کہ کہانی بس ختم ہوگئی ہے۔ اس کا اختتام ہوچکا ہے۔ عائشہ گلالئی اپنا مقصد پورا کرچکی ہے، سازشی عناصر نے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ پورا ہوچکا ہے۔ میڈیا بھی اپنا کام نکال چکا ہے۔ اب عائشہ گلالئی عدالتوں کے چکر کاٹے گی، عمران خان بھی عدالت کے در پر دستک دیں گے اور پھر ایک دن خبر آئے گی کہ عائشہ گلالئی ملک چھوڑ کر خاندان سمیت جاچکی ہے جہاں وہ اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرے گی اوریوں پھر ایک نئی ادھوری کہانی میدان میں آئے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).