ملک صرف ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ہی قائم ہے


جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ہم یہ بات خوب جانتے ہیں کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں ہیں۔ جو حق بات ہو وہ کہہ دیتے ہیں۔ مار پیٹ کا معاملہ بھی ہو تو اس سے کبھی گھبراتے نہیں ہیں۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی وہ اپنی روایت نبھاتے دکھائی دیے۔

انہوں نے بتایا کہ طرز حکومت خواہ کوئی ہو، عوام اس سے بیگانے ہوتے ہیں۔ تو کیا فرق پڑتا ہے کہ ڈیموکریسی ہو، ڈکٹیٹر شپ ہو، کمیونزم یا سوشلزم ہو، یا بادشاہت ہو۔ عوام کو تو بس روزگار، خوشحالی اور سیکیورٹی چاہیے۔ ایشیا کے سب ملکوں میں ڈکٹیٹروں کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے۔ پاکستان کو بھی ڈکٹیٹروں نے ٹھیک کیا مگر جب وہ گئے تو سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا۔

جنرل صاحب یہ بات مانتے ہیں کہ پاکستان توڑنے کا قصوروار بھٹو تھا۔ ہاں کچھ الزام یحیی خان پر بھی آتا ہے۔ لیکن ایوب خان کے دس سال کی حکومت میں ملک نے ترقی کے ریکارڈ قائم کیے۔ وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ضیا نے ملک کو مذہبی انتہاپسندی کی طرف دھکیلا لیکن افغان جنگ کرنا بالکل درست تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آئین کو نظرانداز کرنا درست فیصلہ ہوتا ہے۔ جو کوئی پاکستان کو نہیں مانے گا اور ملک کی بقا کے خلاف ہو گا، اس کو مار ڈالنا چاہیے۔

جنرل صاحب کی اس دلیری نے ہمیں اپنے خیالات پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ ہم اپنی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو واقعی یہی دیکھتے ہیں کہ سویلین لیڈروں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ سویلین روز اول سے ہی ایسے برے تھے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی زندگی میں تو ملک کے محب وطن لیڈر ایوب خان طوعاً و کرہاً سب برداشت کرتے رہے مگر پھر معاملات ان کی برداشت سے باہر ہو گئے۔ سویلین بیوروکریٹس نے ملک پر قبضہ کیا تو مجبور ہو کر عوام کی فلاح کی خاطر ایوب خان کو قوم کو ان سے نجات دلانی پڑی۔ پھر انہوں نے کرپٹ اور بدنیت سیاستدانوں سے قوم کو نجات دلانی شروع کی۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ وہ سارے سیاستدان جن کا نام پاکستان بنانے والوں کے طور پر لیا جاتا ہے، ایوب خان کی تحقیقات کے نتیجے میں کرپٹ نکلے اور ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں سے صرف وہی وطن دوست تھے جو جذبہ حب الوطنی کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر جنرل ایوب خان کے ساتھ مل گئے۔

ایوب خان نے ملک کو ترقی دینی شروع کی ہی تھی کہ بھٹو نامی ایک سویلین وزیرخارجہ نے بھارت پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ 1965 کی جنگ ہوئی اور پاکستانی معیشت کو بھٹو کی اس حرکت کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس وقت تک جنرل ایوب صاحب کی صحت بھی خراب ہو چکی تھی اس لئے مجبوراً جنرل یحیی کو وطن کی خدمت کے لئے آ گے آنا پڑا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان نامی ایک شریر سیاستدان مقبول ہو چکا تھا اور وہ ملک کو ترقی سے روک رہا تھا۔ بھٹو نے اسے حکم دیا کہ تم اپنا الگ ملک بنا لو۔ اس نے بنا لیا۔ یحیی خان بیچارگی سے ان دونوں سویلین لیڈروں کی یہ بدمعاشیاں دیکھتا رہا اور غم بھلانے کو اس نے خود کو شراب و شباب میں مست کر لیا۔ بھٹو نے اسی دوران اندرا گاندھی سے مل کر نوے ہزار پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کو بھارت کا قیدی بنوا دیا۔ اس پر تنگ آ کر یحیی خان نے ڈکٹیٹر شپ سے استعفی دے دیا اور بھٹو کو حکومت سونپ دی۔

بھٹو نے شر پھیلانے کے لئے ملک بھر کے سیاستدانوں کو اکٹھا کیا اور ایک ایسا ناقص متفقہ دستور بنا دیا جو مسلسل ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتا رہا ہے۔ دو مرتبہ ڈکٹیٹروں کو اسے توڑ کر ملک کو بچانا پڑا ہے۔ حالانکہ ڈکٹیٹر اسے درست کرنے کے لئے مناسب ترامیم کرتے رہے ہیں لیکن جس عمارت کی بنیاد میں ہی کجی ہو وہ کیسے درست ہو سکتی ہے؟

بہرحال بھٹو نے مختلف اسلامی ممالک کے سربراہان سے مل کر جو فساد شروع کیا ہوا تھا، اس سے تنگ آ کر جنرل ضیا الحق نے ملک کو بچانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد جنرل ضیا کو ملک بچانے کی خاطر سوویت یونین جیسی سپر پاور سے ٹکر بھی لینی پڑی جو بھاری قربانی مانگتی تھی۔ یہ قربانی ملک میں انتہاپسندی کا فروغ، ہیروئن کی پاکستان میں فروخت اور دہشت گردی کا کلچر تھی جس کے بعد کسی شہری کی زندگی محفوظ نہ رہی۔ لیکن ملک بچانے کی خاطر جنرل ضیا نے رتی برابر پروا نہ کرتے ہوئے قربانی کر دی۔ وہ سوویت یونین سے جنگ میں مصروف تھے کہ عیار بھارتی حکمرانوں نے سیاچین پر قبضہ کر لیا۔ اب کوئی جلد باز سویلین وزیراعظم ہوتا تو ادھر فوری کارروائی کر کے بھارت کو نکالنے کی کوشش کرتا مگر جنرل ضیا ایک مدبر تھے۔ وہ بھارتیوں کی حماقت پر خوب ہنسے اور کہنے لگے کہ ادھر سیاچین میں تو گھاس بھی پیدا نہیں ہوتا، وہ کھائیں گے کیا؟

شریر امریکیوں کے دباؤ پر جنرل ضیا کو اقتدار پھر ایک سویلین کو سونپنا پڑا۔ محمد خان جونیجو نامی یہ شخص بھی ایک روایتی سیاستدان ثابت ہوا۔ کہنے لگا کہ عوام کی خدمت کرے گا اور دستور پر چلے گا۔ اس نے امن قائم کرنے کے نام پر جنیوا جا کر اس افغان فتح کو نہایت سستے داموں بیچ دیا جو جنرل ضیا نے نہایت بھاری قیمت چکا کر حاصل کی تھی۔ مجبوراً جنرل ضیا کو ایک مرتبہ پھر وطن کو بچانا پڑ گیا۔ لیکن اب تک جنرل ضیا نہایت رقیق القلب ہو چکے تھے اس لئے اس مرتبہ انہوں نے وطن بچانے کی خاطر منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر نہیں ٹانگا۔ امریکی پاکستان کی یہ ترقی دیکھ دیکھ کر شدید پریشان تھے۔ انہوں نے جنرل ضیا الحق کو آموں کے ذریعے شہید کر دیا۔

اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نامی دو سیاستدانوں نے ملک کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور جمہوریت کا مذموم کھیل کھیلنے لگے۔ نواز شریف اتنا خطرناک شخص تھا کہ اس نے جنرل مشرف کو بتائے بغیر ہی جولائی 1999 میں کارگل پر حملہ کر دیا۔ ملک شدید خطرات سے دوچار ہو گیا۔ ایٹمی جنگ چھڑنے کا اندیشہ بھی موجود تھا۔ ملک کو نازک صورتحال سے دوچار ہوتا دیکھ کر جنرل مشرف نے بھارت کو فتح کرنے کا حکم جاری کر دیا لیکن نواز شریف نے یہ دیکھ کر کہ جنرل مشرف ہیرو بن جائیں گے، سیدھا امریکہ کا رخ کیا اور بل کلنٹن کی منت سماجت کر کے جنگ بندی کروا دی۔

اس پر جنرل مشرف نے وطن بچانے کی خاطر نواز شریف کو جیل بھیج دیا۔ اب معاملہ یہ تھا کہ ملک میں کوئی حکمران نہیں تھا اور یہ نہایت خطرناک بات تھی۔ اس لئے جنرل مشرف کو مجبوراً خود کو چیف ایگزیکٹو آف پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ مقرر کرنا پڑ گیا۔ لیکن جنرل مشرف معاف کر دینے کی خامی رکھتے تھے۔ انہوں نے سیاستدانوں کو معاف کر دیا اور انہیں منہ مانگی قیمت دے کر 2002 کے الیکشن کے ذریعے حکومت بنانے کا موقع دیا۔ چند سیاستدانوں کے باب میں تو ان کی رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ جنرل مشرف نے ان کو نیب سے چھڑا کر وزیر تک بنا ڈالا۔

اس دوران جنرل مشرف نے ملک کے استحکام کی خاطر ایک جانب لال مسجد میں طاقت کا استعمال کر کے نتیجے میں ہونے والے خودکش دھماکوں کے ذریعے عوام کو دلیر بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور دوسری جانب بلوچ باغی سردار نواب اکبر بگٹی کو مار کر بلوچستان میں مسلسل داد شجاعت دینے کا موقعہ فراہم کرنے والا سلسلہ شروع کروا دیا۔ ان کی جگہ کوئی کرپٹ سیاستدان حکمران ہوتا تو ان دو معاملات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتا اور پاکستان کو مشکلات کا شکار کر دیتا۔

جنرل مشرف کی یہ بہترین حکمت عملی اپنی جگہ لیکن سیاستدان نہایت بدطینت اور کرپٹ تھے۔ دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو نامی ایک سیاستدان جنرل مشرف کے منع کرنے کے باوجود بلاوجہ پاکستان آ گئیں اور ایک خودکش دھماکے میں ماری گئیں۔ عوام تو احمق اور جذباتی ہوتے ہیں، ایسے نہ ہوتے تو سیاستدانوں کو کیوں ووٹ دیتے؟ انہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دے دیے۔ آصف زرداری نے عوام سے مل کر سازش کی اور جنرل مشرف کو صدارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یوں ملک ایک مرتبہ پھر سنگین خطرات میں گھر گیا۔

اب ہمیں یہ مت بتائیں کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت اور جرمنی وغیرہ جیسے ممالک نے کسی ڈکٹیٹر کے بغیر ترقی کی ہے۔ کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ امریکہ کا پہلا سربراہ جنرل جارج واشنگٹن تھا؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ برطانیہ کے بادشاہ اور شہزادے فوج کے افسران ہوتے ہیں؟ کیا جدید فرانس کا بانی تاریخ کا مشہور جرنیل نپولین بونا پارٹ نہیں تھا؟ کیا برطانوی راج سے آزادی کا اعلان کرنے والا بھارت کا پہلا سربراہ آزاد ہند فوج کا جنرل سبھاش چندر بوس نہیں تھا؟ کیا جدید جرمنی کا بانی سمجھا جانے والا ایڈولف ہٹلر فوج میں ایک کارپورل نہیں تھا؟

جنرل مشرف کو ان سیاستدانوں نے خوب دق کر کے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن وہ اب بھی وطن کی خاطر ملک کا ڈکٹیٹر بننے کو تیار ہیں۔ کوئی ہے جو ان کے ساتھ کھڑا ہو؟ قوموں کو ایسے نابغے روز روز نہیں ملتے ہیں۔ دستور کا کیا ہے، جتنے چاہے بنا لو۔


اسی بارے میں
ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا، سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا: جنرل مشرف 
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar