عمران خان، جنسی ہراسانی کا قانون اور قومی اسمبلی کی ذمہ داری


پاکستان میں جنسی ہراسانی اتنی ہی عام ہے جتنا مٹی گھٹا، کوڑا کرکٹ یا مکھی مچھر۔ تھوڑا سی بھی اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو ٪95 عورتیں اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ انہیں زندگی میں ایک سے زیادہ مرتبہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سی خواتین کو ہر روز ہی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گھورنا اور تاڑنا، آواز کسنا، ٹچ کرنا، ذو معنی باتیں کر کے قریب بیٹھی ہوئی عورتوں کو نشانہ بنانا، گندے میسج یا نامناسب ایمیل بھیجنا، جنسی کمنٹ کرنا، ہاتھوں سے ٹچ کرنا اور پاس سے گزرتے ہوئے گھسٹنے کی کوشش کرنا اور پتا نہیں کیا کیا ہے جو ایک لڑکی یا عورت کو جنسی طور پر ہراساں اور مضطرب کر سکتا ہے۔ اس کی عزت نفس کو پاش پاش کر سکتا ہے۔ اس کی نیندیں حرام کر سکتا ہے۔ خود اعتمادی کو تباہ کر دیتا ہے۔

یہ سارا کچھ ہر وقت ہمارے ارد گرد ہوتا ہے۔ اور ہم نہ صرف اس کے خلاف کچھ نہیں کرتے بلکہ سر عام ایسا کرنے والے کی جرات کو سلام بھی کرتے ہیں۔ اس کی کہانیاں سن کر مزے لیتے ہیں اور ٹھٹھہ بھی مارتے ہیں۔

جنسی ہراسانی کے لیے عمر، لباس، مذہب یا جگہ کی کوئی قید نہیں۔ گھر، گلی، سڑک، پارک، دفتر، سکول، کالج، یونیورسٹی، کھیت، فیکٹری، دکان، بس، ویگن یا جہاز ہر جگہ ہی خواتین جنسی ہراسانی کا نشانہ بنتی ہیں۔ جنسی ہراسانی پاکستان میں زندگی گزارنے والی ہر عورت کے لیے معمول کی بات ہے۔ آپ پڑھی لکھی ہوں یا ان پڑھ، بہت بڑی لیڈر ہوں یا ایک کمزور سی گھریلو ملازمہ، جنسی ہراسانی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ بے نظیر اور ان کے ساتھ چلنے والی خواتین کو بھی جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اس کا خوف بھی رہتا تھا۔ اس کے ردعمل میں مردوں کو تھپڑ بھی پڑے۔ ایسے واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ ایما ڈنکن کی کتاب breaking the curfew صرف ایک مثال ہے۔

جنسی ہراسانی خواتین کے خلاف ڈھایا جانے والا سب سے عام ظلم ہے۔ جنسی ہراسانی ساری دنیا میں ہے، کوئی بھی ملک یا معاشرہ اس سے پاک نہیں ہے۔ لیکن پاکستان جیسے پدرسری معاشرے جن میں خواتین کو خاص طور پر کمزور بنایا جاتا ہے، وہاں جنسی ہراسانی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کے خلاف شکایت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ شکایت کرنے والی خواتین کو عام طور سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی عورت کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ شکایت کرنے والی خاتون کی نوکری شکایت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی چھوٹ چکی ہوتی ہے۔

پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ خواتین خود جنسی ہراسانی کی دعوت دیتی ہیں۔ ان کی مراد خواتین کا نامناسب لباس ہوتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ پیرس اور لاہور میں عورتوں کے لباس کا موازنہ کریں اور بتائیں کہ کون سا زیادہ ”سیکسی“ ہے تو بڑے شوق سے بتاتے ہیں کہ پیرس کا۔ پھر پوچھو کہ سڑکوں پر عورتوں کے خلاف جنسی ہراسانی کہاں زیادہ ہوتی ہے تو پھر لاہور کا نام بغیر کسی شک و شبہ کے لیتے ہیں۔ بہت سے شریف لوگ تو ان دو سوالوں کے جوابات سے سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ اسی سوچ کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی سوچ بدل بھی جاتی ہے۔

پاکستان میں عورتوں کے خلاف ہونے والی جنسی ہراسانی پر پاکستانی سول سوسائیٹی نے دس سال تک مسلسل جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد ”کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خلاف اتحاد“ (Alliance against sexual harassment at workplace) کے فورم سے کی گئی۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید اس اتحاد کی روح رواں تھیں۔ وہ خود UNDP کی ملازمت کے دوران جنسی ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ انہوں نے اپنا مقدمہ UN کے ہیڈکوارٹر نیویارک تک لڑا اور کامیاب ہوئیں۔ یہ UNDP کا جنسی ہراسانی کا مشہور کیس ہے اور ڈاکٹر فوزیہ نے اسے اپنی مشہور کتاب Working with Sharks میں بہت ہی خوبصورتی سے لکھ دیا ہے۔

سول سوسائیٹی کی اس جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان میں 2010 میں ایک زبردست قانون پاس ہوا۔ اس قانون کا نام (Protection of women from (sexual) Harassment) ہے۔ اسی طرح PPC کی شق 509A۔ میں تبدیلی کی گئی۔ اس قانون کے نتیجے میں پاکستان میں جنسی ہراسانی ایک قابل دست اندازی پولیس جرم ہے اور شکایت کی صورت میں پولیس 509A کے تحت مقدمہ درج کرتی ہے۔

اس قانون کے تحت پاکستان میں کام کرنے والے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے کے اندر جنسی ہراسانی کی شکایت کو وصول کرنے، سننے اور ان پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی لیے تین رکنی کمیٹی بنائیں۔ اس کمیٹی کے ممبران کے نام اور فون نمبر دفتر، فیکٹری یا کسی بھی کام کرنے کے احاطے میں نمایاں جگہ پر آویزاں ہونے لازمی ہیں۔ جنسی ہراسانی پر کوڈ آف کنڈکٹ بھی نمایاں جگہ پر آویزاں ہونا قانوناً لازمی ہے۔

اس قانون کے تحت قومی اسمبلی پر بھی قانوناً لازم ہے کہ وہ اپنے ادارے میں جنسی ہراسانی کا سدباب کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائے اور کوڈ آف کنڈکٹ کو نمایاں جگہ پر آویزاں کرے۔ اور اپنے تمام لوگوں کی اس سلسلے میں تربیت کروائے۔ قومی اسمبلی نے اگر یہ بندوبست نہیں کیا ہوا تو یہ جرم ہے۔ اسے فوراً یہ کام مکمل کر لینا چاہیے جو اس قانون کے تحت لازم ہے جسے قومی اسمبلی نے خود ہی پاس کیا ہے۔

عمران خان کے خلاف اگر ایک خاتون ممبر اسمبلی کی جانب سے شکایت آئی ہے تو قومی اسمبلی کی Anti Sexual Harassment Committee کو فوراً حرکت میں آنا چاہیے اور معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ دونوں پارٹیوں کو سننا، ثبوت دیکھنا اور پرکھنا اور اس کی روشنی میں کیس کا فیصلہ کرنا اس کمیٹی کا فرض ہے۔ کمیٹی کا فیصلہ پسند نہ آنے پر کوئی بھی پارٹی کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے۔

قومی اسمبلی کی جنسی ہراسانی کے خلاف ایک مستقل کمیٹی ہونی چاہیے۔ تاکہ وہ متعلقہ کیسز میں انصاف کا فریضہ نبھائے اور خواتین عزت اور اعتماد کے ساتھ اپنے کام سرانجام دے سکیں۔

ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے تمام قانون ساز ادارے جنسی ہراسانی پر بنائے گئے قانون کا اطلاق فوراً کریں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik