کیا جنسی ہراسانی پر خاموشی کا مطلب رضامندی ہے؟


خاموشی کو ہمارے اخلاق و آداب میں بہت بلند درجہ حاصل ہے۔ بزرگوں کی بات کو خاموشی سے سنو۔ شوہر اگر کوئی تنبیہہ یا سخت بات کرے تو خاموش رہو۔ خاموشی احترام کا حصہ بھی ہے اور عقلمندی کا خاصا بھی سمجھی جاتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خاموشی نیم رضامندی ہے۔ مگر کیا کسی کے برے فعل اور ہراساں کیے جانے کے جواب میں خاموش رہنے کا بھی یہی مطلب ہے کہ آپ اس فعل سے متفق ہیں؟
ایسا نہیں ہے۔

ہراسانی یا ہراسمنٹ کی بہت سی قسمیں ہیں اور یہ بہت سے مقامات پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اب تلاش معاش میں جب خواتین کو دفاتر کا رخ کرنا پڑتا ہے تو اپنی ذاتی تعمیر، بڑھوتری اور خودمختاری جیسے مثبت تجربوں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ہراسمنٹ جیسے بدصورت رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ اداروں میں تو قوانین موجود ہیں مگر بیشتر نجی اداروں میں ایسے کوئی قوانین یا شنوائی کا طریقہ موجود نہیں۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ طریقہ موجود ہو یا نہ ہو، بیشتر صورتوں میں ہراسانی کے بعد خواتین خاموش رہتی ہیں اور کسی سے بات بھی نہیں کرتیں۔

میری ایک دوست سے بات ہوئی جو کہ ایک بہت نامور سرکاری ادارے میں بہت اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ وہ کہنے لگیں کی بعض اوقات ہراسانی کا یہ واقعہ ایسےوقوع پذیر ہوتا ہے کہ ہم خود بھی فوراً سے واضح نہیں ہو پاتیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بعض اوقات بہت سے گرے ایریاز رہ جاتے ہیں۔ مثلاً کہ ایک صاحب جو آپ سے عمر میں بھی زیادہ ہیں اور مرتبے میں بھی بہتر ہیں، وہ بات کرتے کرتے ایک دم آپ کے شانے پر ہاتھ رکھ دیں گے۔ اب آپ ان کی عمر کے احترام اور اس بے ساختہ حرکت کو سمجھنے کے عمل سے ہی گزرتی رہ جائیں گی اور نہ تو آپ کو ردعمل کا وقت ملے گا اور نہ ہی یہ سمجھ آئے گی کہ یہ ایک معصوم دوستانہ بے تکلفی تھی یا پھر درپردہ ایک مکروہ حرکت اور وہ صاحب بات مکمل کر کے شانے سے ہاتھ ہٹا کر آگے بڑھ جائیں گے۔ اس حرکت کے غلط ہونے کا نہ تو کوئی ثبوت ہو گا اور نہ ہی کسی کو سمجھانے کا طریقہ۔ مگر یہ ایک شدید ناخوشگوار تجربہ ہو گا۔

کچھ اور خواتین کی رائے یہ تھی کہ ہراسمنٹ کے واقعات بڑے ہوں یا چھوٹے اگر اس ضمن میں اپنی ساتھی خواتین سے ہی بات کی جائے تو وہ عموماً اس خاتون کو ہی ٹوک دیتی ہیں کہ قصور تمہارا ہی ہے، تمہارا دوپٹہ سر پر نہیں تھا، یا تمہارا میک اپ بہت بھڑکیلا تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ یہ حرکت بھی نہ ہوتی۔ اور اگر مان بھی جائیں تو ہمدردی کے چند بولوں کے بعد موضوع سخن کچھ اس طور بدل جاتا ہے کہ یہ ہے اور کچھ دنوں کے بعد سرگوشیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ یہ ہے نا وہ خاتون جسے فلاں صاحب نے یوں کہا تھا۔ تو اس قسم کے رویوں کے بعد اس رویے کی شکار خاتون کی طرف سے جو خاموشی اختیار کی جاتی ہے وہ رضامندی کی وجہ سے ہرگز نہیں ہوتی۔

یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ تم تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہو جاتی ہو۔ اگر اتنی ہی نازک مزاج تھیں تو گھر سے ہی نہ نکلتیں۔ مگر ہراسمنٹ سے بچاؤ گھر سے نہ نکلنے کی صورت تک میں بھی ممکن نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب ٹیلیفون پر سی ایل آئی نہیں ہوتی تھی تو لوگ نسوانی آواز سن کر ویسے ہی اپنے نفس کے تاریک پہلو کی تسکین کے لئے دو چار بے ہودہ جمل بول کر فون بند کر دیتے تھے اور خواتین بس ششدر ہی رہ جاتی تھیں۔

ہراسمنٹ کی صورت میں بیشتر خواتین کا یہی ردعمل ہوتا ہے، ایک شاک کی کیفیت اور ششدر رہ جانا اور بسا اوقات شرمندہ ہو جانا کہ یہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے۔ ایسے میں بولنے کی جب ہمت آتی ہے تو کچھ لوگوں کے بقول بولنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کے فوراً بعد میں نے بہت سی صورتوں میں میں نے خواتین کو اپنے ہی رویے یا لباس کا جائزہ لیتے دیکھا کہ کہیں وہ ہی تو دعوت کا باعث نہیں تھیں؟ بات یہ ہے کہ خواتین کا لباس چاہے جو بھی ہو، ان کی مرضی کے خلاف ایک نامناسب حرکت کا ہو جانا ان کی خود کی نہیں بلکہ غلط حرکت کرنے والے شخص کی ہی غلطی ہے۔

اس بارے میں قوانین موجود ہوں بھی تو ہمارے معاشرے میں قانون تک رسائی ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ ہم بطور معاشرہ اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ بات سمجھیں کہ نشانہ بننے والا قصور وار نہیں ہوتا بلکہ بری حرکت کرنے والا قصوروار ہوتا ہے اور نشانہ بننے والے شخص کو نشانہ بنا کر ہم بھی اسی ظلم کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ باتیں میں کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں بلکہ معاشرتی رویے کے بارے میں لکھ رہی ہوں۔ سیاسی اتار چڑھاؤ سے قطع نظر ہمیں اپنی سوچ اور اقدار کو درست سمت میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں خود پر شک کے ڈر سے چپ ہو جانے کی بجائے ایک مظلوم شخص آواز اٹھا سکے اور اسے خاموش نہ رہنا پڑے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim