نا اہلیت کے بعد میاں صاحب کے شب و روز


”میاں صاحب، آپ کا آیندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟ “ میرے اس سوال کا انھوں نے انتہائی رسان سے جواب دیا۔
”قوم کی خدمت کریں گے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جی ٹی روڈ سے لاہور جا رہا ہوں۔ “
”جی ٹی روڈ سے کیوں؟ موٹر وے سے کیوں نہیں؟ “
”ایک تو یہ کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے موٹر وے کا ٹول ٹیکس زیادہ ہے، اور پھر اب موٹر وے کا وہ حال نہیں، جو کبھی تھا۔ “

ملکہ کوہسار مری میں، میں خود نہیں آیا تھا، بلکہ میاں نواز شریف صاحب نے فرمایش کی تھی کہ میں فوراً آ کے ان سے ملوں؛ وہ عدالتی فیصلے کے بعد تنہائی سی محسوس کر رہے تھے، اور ہم دم درینہ کی تلاش تھی، جس کے دل میں انھی کی طرح ملک و قوم کا درد ہو۔ ایسے میں جب سب مڈیا ہاوسز، ہر صحافی ان کے خلاف لکھ رہا ہے، انھوں نے مجھ کو پکارا۔ حق ہے کہ آپ ایمان داری سے اپنا کام کرتے رہیں، بے لوث ہو کے لکھیں، تو ایک نہ ایک دن صلہ ملتا ہے؛ لوگ آپ کی حق گوئی سے شناسا ہو جاتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف بقلم خود جھونپڑی کے دروازے تک مجھے لینے آئے تھے۔ ململ کے کرتے میں ملبوس، جس میں جا بجا پیوند لگے تھے، ٹخنوں سے اوپر پاجامہ؛ وہ گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی کے بغیر میری بے لاگ تحریروں کی تعریف کرنے لگے۔

”اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ کی جادوئی تحریریں خود بولتی ہیں، کہ آپ کا قلم کوئی خرید نہیں پایا۔ “

میں حیران رہ گیا کہ نواز شریف صاحب ”ہم سب“ پر چھپی تحریریں بھی پڑھتے ہیں۔ استفسار پر انھوں نے کہا کہ ”ہم سب“ پر وہ سب کو نہیں پڑھتے، صرف میری تحریریں ہی انھیں متاثر کرتی ہیں، کیوں کہ ان سے سچائی ٹپکتی ہے۔ جس دن میرا کالم نہ چھپے وہ ”ہم سب“ پر جھانک کے بھی نہیں دیکھتے، بس عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ خیر یہ تو یونھی عاجزی کا بیان آ گیا؛ آپ سے کچھ اور باتیں کرنی ہیں۔

میں جب وہاں پہنچا تو ظہرانے کا وقت قریب تھا؛ جھونپڑی کی حالت کچھ اتنی اچھی نہ تھی، ایک میز جس کے پائے کے نیچے اینٹیں رکھ کے سہارا دیا گیا تھا، دو تین کرسیاں جن کی بنائی ادھڑی ادھڑی سی تھی۔ دو موڑھے ایک جھلنگا سی چارپائی جس کے بارے میں بتایا گیا، کہ کوئی مہمان آ جائے تو اس کے استراحت کے لیے رکھی ہے، ورنہ فقیر (نواز شریف) تو فرشی بچھونے پر آرام کرتا ہے۔ ایک طرف مصلہ بچھا تھا، جس کا ایک کونا مڑا ہوا تھا جیسے ابھی کوئی عبادت کرتے کرتے اٹھا ہو۔ وہاں اور تو کوئی تھا نہیں، تو میاں‌ صاحب ہی عبادت کرتے ہوں گے۔ انھوں نے کہا، پہلے میں کچھ تناول کر لوں، تا کہ ایک ہی بار سکون سے بیٹھ کر دل کی باتیں کی جائیں۔ میں پہاڑی علاقے کا سفر کرتے زیادہ نہیں کھا پی سکتا، بچپن میں مری جاتے جب فورڈ ویگن چھرا پانی رکتی تھی، تو وہاں‌ دکانوں میں تھال پر سجے ابلے ہوئے انڈوں پر بیسن لگا دیکھ کر جی بہت للچاتا تھا، دو چار انڈے اور پاؤ بھر پکوڑوں کی قسم نہیں کھائی جا سکتی؛ اتنا تو ہضم ہو ہی جاتا ہے۔ آج کی یہ ملاقات خفیہ تھی، اس لیے ایکسپریس وے سے چھپتا چھپاتا ان تک پہنچا تھا؛ سو چھرا پانی دوسری طرف رہ گیا تھا۔ ایک تو بتایا کہ سفر میں بھوک کم لگتی ہے اور دوسرا نیند زیادہ آتی ہے۔ آپ نے میاں صاحب کے پر تعیش دستر خوان کے بہت سے فسانے سنے ہوں گی، میں نے بھی یہ قصے سن رکھے تھے؛ سب زیب داستان ہے۔ میز پر رکھے اکلوتے ڈونگے میں جس کا ڈھکن بھی نہیں تھا، مسور کی دال اور پلاسٹک کی چنگیر میں چار چپاتیاں تھیں۔ ایسا سادہ کھانا؟ میرے چہرے پر حیرانی کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر میاں صاحب نے میرا دل بڑھانے کو کہا۔

”اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دال کو دیسی گھی میں تڑکا لگا ہے۔ “

ابھی وہ اور ہمت بندھاتے کہ ملکہ کوہسار کی حسین وادیوں میں ظہر کی اذان گونجنے لگی۔ میاں‌ نواز شریف نے وہیں کونے سے لوٹا اٹھایا اور بنفس نفیس وضو فرما کے مصلے پر کھڑے ہو گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، مسور کی دال حلق سے اتاری۔ ایسے میں یہ سوچتا رہا کہ ظالم زمانے کو کیا ہو گیا ہے، ایک فقیر منش کے بارے میں کیوں اتنی غلط سلط باتیں مشہور کر رکھی ہیں۔

خضوع و خشوع سے نماز ادا کرنے کے بعد، وہ میرے پاس آ کے بیٹھ گئے، اور سمجھانے کے سے انداز میں کہا، ”اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آپ نے چاروں روٹیاں کھا لی ہیں، ایک آدھ تو چھوڑ دیتے!“

میں ان سے کہنے ہی والا تھا، کہ چپاتیاں بہت باریک تھیں، جیسے ”جسم“ فلم میں بپاشا باسو کا لباس، کہ سب جھلکتا ہے؛ انھوں نے میری آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگا لیا، اور کچھ کہنے سے روک دیا۔ ایک عبادت گزار اللہ کا نیک بندہ بھلا لغو بات کیوں کر سنتا!

”دال سبزی میں بڑی برکت ہے، گوشت، نہاری، پائے اور اس طرح کی روغنی غذائیں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دل کے عارضے کا باعث بنتی ہیں۔ مت کھایا کریں۔ “

یہ بات سن کر میں سکتے میں آ گیا، خدا کو جان دینی ہے جھوٹ کیوں بولا جائے، ایک بار میرا شک اس پر گیا، کہ کہیں بھارتی پردھان منتری مودی سے یاری کے سبب انھوں نے گوشت خوری چھوڑ دی ہو، لیکن فورا عدالت کا نا اہلیت والا فیصلہ میری فکر کو راست سمت پر لے آیا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں، کہ جو شخص اعزازی عہدہ رکھتے ہوئے تنخواہ نہ لیتا ہو، ایک نہ ایک دن اس کو خانہ نشیں ہونا پڑتا ہے، اس بے سر و سامانی میں دال ہی بھاتی ہے۔ میں نے مناسب موقع پاتے ہوئے یہ سوال کیا۔

”میاں صاحب، کیا واقعی آپ نے تنخواہ نہیں لی تھی، یا ٹیلے ویژن چینل کے ملازمین کی طرح آپ کی تنخواہ تین تین مہینے لیٹ آتی ہے؟ “
منہ بسور کے بولے، ”ان صحافیوں کی کیا بات کرتے ہیں؛ ان میں اور ڈراما بازوں میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کیا فرق رہ گیا ہے؟ اسی لیے تو آپ کو بلایا ہے۔ “

میں نے انھیں بتایا کہ ہم ڈراما بازوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے، ایک تو یہ کہ پروڈکشن ہاوس والے کئی مہینے بقایا جات ادا نہیں کرتے، ٹیلے ویژن چینل کام کی فیس دے دیں تو ٹیکس کی مد میں کٹوتی کر لیتے ہیں، لیکن ہمارے نام سے مبینہ طور پر جمع کرائے گئے ٹیکس کی رسید تک نہیں دیتے۔ اور دوسرا یہ کہ ڈاکٹروں نے ہماری فیلڈ کا بیڑا غرق کر دیا ہے؛ ہر ڈاکٹر یہاں اینکر بننے آتا ہے، اینکری میں ناکام رہے تو اداکاری کرنے لگتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، لیکن اوپر سے بھرم (نخرے) دکھاتا ہے۔

انھوں نے پیغام دیا کہ سب فنکاروں کو بتا دیں، اگلی بار وہ وزیر اعظم بن کے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے شو بز انڈسٹری کی بہتری کے لیے کام کریں گے؛ کوئی ایسی پالیسی ضرور دیں گے، جس سے پروڈیوسر ہی کا نہیں آرٹسٹ کا بھی بھلا ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا، کہ اگلی بار الیکشن جیت کر وہ مجھے وزیر ثقافت و فنون لطیفہ بنانا چاہتے ہیں، لیکن میں نے یہ کہتے صاف انکار کر دیا، کہ مجھے کوئی درباری عہدہ لے کر اپنا قد کاٹھ کم نہیں کرنا۔ میرا قلم آزاد ہے، اس کو آزاد رہنے دیں۔

میاں نواز شریف نے اس کے علاوہ بہت سی باتیں کیں؛ ان میں سے اکثر آف دی رِکارڈ ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں یہ صحافتی اصول ہے، کہ آف دی رِکارڈ بات شایع نہیں کی جاتی۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا، کہ وہ نا اہل ہونے کے بعد لاہور کے بجائے مری اس لیے چلے آئے، کہ لاہور میں حبس اور گرمی بہت زیادہ ہے، یہاں مری میں موسم خوش گوار ہے، ایر کنڈیشنر کی ضرورت نہیں پڑتی۔

”میں نے تو شہباز سے کہ دیا ہے، اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میں جب تک چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بن جاتا، وہ جاتی عمرہ والے کوارٹروں کی بجلی کا بل دیا کرے گا، کیوں کہ اگلے مہینے سے وزیر اعظم کے عہدے کی تنخواہ بھی نہیں آنی۔ “

زمانے کی بے ثباتی کی کیا کہیے، ایک شخص جو کل تخت پر ممتکن تھا، اس کے ارد گرد خوشامدی درباریوں کا جھمگٹا لگا رہتا تھا، آج مری کی ان بے رحم، بے وفا اور سنگ لاخ پہاڑیوں میں کوئی ایسا نہیں، جو ان کی خبر گیری کرے۔ اس لیے انھوں نے مری سے لاہور کوچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کہتے ہیں وہیں جاتی عمرہ والے کوارٹر کے کسی کمرے میں، اللہ سے لو لگاؤں گا۔ جیسا کہ شروع میں بیان کیا، کہ انھوں نے مجھے پیغام بھیج بلایا تھا، کہ تنہائی انھیں کاٹنے کو دوڑتی ہے، کوئی ایسا جی ہو، جو ان کے دل کی بات سمجھتا ہو، اعتماد کرتا ہو، اسے کسی دنیاوی لالچ کی پروا نہ ہو، تو چلے آو۔ وہاں پہنچ کر ان کا یہ حال دیکھا، تو میری آنکھیں بھر آئیں، لیکن ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا، مبادا انھیں تکلیف نہ ہو۔ اگر آپ سمجھ رہے ہوں کہ یہ سب باتیں لکھنے کے لیے میں نے ان سے یا کسی سے کوئی زرد لفافہ پکڑا ہے، تو آپ کی سوچ غلیظ ہے۔ ایک ایسا شخص جو خود کسمپرسی کے عالم میں بیٹھا ہو، چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی دعا مانگتا ہو، مسور کی دال پر گزارا کرتا ہو، فرشی بچھونا ہو، اس کی میز کے پائے کو اینٹوں کا سہارا ہو، اور اپنا زیادہ وقت مصلے پر بسر کرتا ہو، وہ کسی دوسرے کو نری دعائیں دینے کے اور کیا دے سکتا ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran