سید سبط حسن کیسے مدیر تھے؟


“لیل و نہار” کی محفلِ ادارت کے دولہا سید سبط حسن تھے۔ فیض احمد فیض نام کے چیف ایڈیٹر تھے۔ ورنہ پوری ادارتی منصوبہ سازی اور عملی پروگرام سید صاحب نے بنایا تھا۔ ان کی پہلی ٹیم میں پانچ نائب مدیر شامل تھے۔ نصیر انور، ڈراما نویس، ریاض شاہد، ناول ’ہزار داستان‘ اور فلم ’زرقا‘ کے خالق۔ حسن عابدی، شاعر، صحافی۔ علی صاحب، ان کا پورا نام یاد نہیں۔ پچیس برس بعد ’نوائے وقت‘ کراچی کے شعبۂ حسابات میں ان سے ملاقات ہوئی اور راقم السطور۔

میں اس ٹیم میں شامل ہونے والا آخری نوجوان تھا۔ پچھلے سال یعنی 1956ء میں سید عابد علی عابد کی نیابت میں پندرہ روزہ علمی و ادبی مجلہ ’صادق‘ ایڈٹ کرنے کی وجہ سے شہرت کا چسکا مجھے بھی لگ گیا تھا۔ پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں کو تو رکھیے ایک طرف، اثر لکھنوی، وحشت کلکتوی، ساغر نظامی، بلراج کومل، جیلانی بانو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی تک سے خط و کتابت کے سلسلے قائم ہو گئے تھے۔ پھر اس زمانے میں میں ’حلقۂ اربابِ ذوق‘ کا جائنٹ سیکرٹری بھی تھا اور دو ماہی پروگرام میں اپنا افسانہ ضرور مقرر کرا لیتا تھا۔ سید سبط حسن جب انڈیا سے ہجرت کر کے لاہور آئے تو ہر اتوار کی شام کو وہ حلقۂ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاسوں میں وائی ایم سی اے میں بھی نظر آنے لگے۔ بیک بنچر تھے۔ اگلی صفوں میں نہیں بیٹھتے تھے۔ اجلاس میں جو مضمون یا افسانہ یا غزل پڑھی جاتی، اسے غور سے سنتے، اور جب کبھی ضروری خیال کرتے، بحث میں بھی حصہ لیتے۔ ان کا اندازِ گفتگو بہت دھیما اور میٹھا ہوتا۔

فروری 1957ء میں، میں نے ’حلقہ ارباب ذوق‘ میں ایک افسانہ ’اور۔۔۔اور۔۔۔اور‘ پیش کیا، اربابِ ذوق نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سبط صاحب چپ رہے۔ تنقید نہ تحسین۔ ’لیل و نہار‘ کا پہلا شمارہ آئندہ اتوار کو شائع ہونے کی اطلاعیں روزنامہ ’امروز‘، ’پاکستان ٹائمز‘ کے علاوہ لاہور کی دیواروں پر چسپاں دورنگی پوسٹروں سے بھی آ رہی تھیں۔ یہ افسانہ اتوار کو پڑھا گیا، اور منگل کو ڈاک سے ’لیل و نہار‘ کے خوبصورت لیٹر ہیڈ پر سید سبط حسن کا ایک خط موصول ہوا، جس میں افسانے کی بے حد تعریف تھی اور زورِ قلم اور زیادہ ہونے کی ہمت افزا دعا بھی تھی اور یہ جملہ بھی ’میری استدعا ہے کہ مذکورہ افسانہ براہ کرم‘ لیل و نہار کے لیے عطا فرمائیے،۔۔۔

یہ ہوتا ہے سچا مدیر جو ادیب کے دل میں جا گھستا ہے! میرا افسانہ ’اور۔۔۔اور۔۔۔اور‘ ’لیل و نہار‘ کے تیسرے شمارے میں چھپا۔ ابھی یہ شمارہ چھپا نہیں تھا کہ سید صاحب کا ایک اور خط ڈاک سے موصول ہوا۔ لکھا تھا ’میاں صاحب (افتخار الدین)، فیض صاحب اور میری بھی درخواست ہے کہ آپ ’لیل و نہار‘ میں شامل ہوں۔ مجھ سے فوراً ملاقات کیجیے۔ ’

لیل و نہار‘ کا پہلا دفتر ان دنوں نکلسن روڈ کی ایک عمارت کی بالائی منزل پر تھا۔ میں سید صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی خدمت میں پہنچا۔ وہ چھت پر کرسی اور تپائی جمائے، فروری کی دھوپ کے مزے اور اپنی ننھی منی چلم کے کش لیتے جاتے تھے، فرمایا ’یہ ہم نے ٹائم اور نیوز ویک کا سا اُردو میں ایک بڑا رسالہ نکالنے کی جوکھم مہم چلائی ہے۔ اس مہم میں ہمارا ہاتھ بٹائیے۔ میں نے عرض کیا ’میں نے منٹو صاحب سے عہد کر رکھا ہے کہ زندگی بھر کسی کی ملازمت نہیں کروں گا اور منٹو کی طرح آزاد منش رہوں گا، خواہ کیسی بھی فاقہ کشی کرنی پڑے۔ آپ کو شاید معلوم ہو، میں نے 1954ء ہی میں حکومت کی گزئیٹڈ افسری چھوڑ دی تھی، سید صاحب میری بچکانہ بات پر مسکرائے ’لیکن صاحب یہ ملازمت تھوڑی ہے۔ یہ تو پیشکش ہے، ایک درخواست ہے ایک ادبی تحریک میں شامل ہونے کی‘

میں نے کہا ’ٹھیک ہے۔ آپ مجھے تقررنامہ نہیں دیں گے۔ پیشکش نامہ دیں گے جسے میں منظور کروں گا۔ لیکن ایک مصیبت یہ ہے کہ میں لکھنے پڑھنے کا کام دوسروں کی موجودگی میں نہیں کر سکتا۔ الگ کمرہ ہونا چاہیے۔ ’منظور ہے صاحب، یہ بھی منظور ہے‘ لیجیے صاحب، کام شروع ہو گیا۔ طریقِ کار یہ تھا کہ ہر بدھ کی دوپہر کو تازہ شمارہ پریس کے حوالے ہو جاتا تھا۔ بدھ کی شام ارکانِ ادارت کو چھٹی دی جاتی تھی، لیکن ساتھ ہی ہوم ورک بھی دیا جاتا کہ اچھی طرح سوچ کر آئیں کہ آئندہ شمارے کے لیے وہ اپنی جانب سے کس موضوع پر مضمون ایڈیٹر کے سپرد کریں گے۔ جمعرات کی صبح نئے شمارے کی تدوین، انتخاب مضامین اور پروگرام کے لیے وقف ہوتی تھی۔ دو تین گھنٹے خوب بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ میٹنگ کے بعد نئے شمارے کے لیے ’بزن‘ کا حکم صادر ہو جاتا تھا۔ حسن عابدی سینئر نائب مدیر تھے۔ سید صاحب کے معتمد اور ہم خیال رفیق کار تھے۔ آنے والی ڈاک پہلے ان کو ملتی تھی۔ آئندہ مضامین پہلے وہی پڑھتے تھے۔ ناقابلِ اشاعت مضامین کو وہ الگ رکھ لیتے۔ اہلِ عملہ اپنے لکھے ہوئے مضامین عابدی صاحب کو دیتے تھے وہ اندراج وغیرہ کر کے سید صاحب کو اصلاح کے لیے دیتے تھے۔ علاوہ ازیں تین صفحے کی تصنیف ان کے ذمے تھی، دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ دنیائے اسلام میں کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ہفتہ گزشتہ میں کیا گزری۔ ریاض شاہد فیچر رائٹر تھے۔ ہر ہفتے باتصویر سوشل فیچر لکھتے تھے۔ صنعتی نمائش کی رپورٹنگ، کسی سیاسی یا ادبی اجلاس کا آنکھوں دیکھا حال، دودھ میں پانی کی ملاوٹ کیونکر کی جاتی ہے۔ کسی معروف شخصیت سے انٹرویو۔ نصیر انور فلمی صفحہ، بچوں کا صفحہ اور خواتین کا صفحہ ایڈٹ کرتے تھے۔ موصولہ ادبی مضامین، افسانوں، خاکوں، ڈراموں وغیرہ پر اپنی رائے دیتے تھے۔ علوی صاحب شعبۂ ادارت کے تمام امور و معاملات کے نگران تھے۔ لکھتے کم تھے، انتظام زیادہ کرتے تھے۔ قاسم محمود کے ذمے کتابی نوعیت کے مضامین تھے، یعنی جن کا مواد کتابوں سے اخذ کرنا ہوتا تھا۔ اس ہفتے کی عظیم شخصیت، موصولہ کتابوں پر تبصرہ وغیرہ ۔

سید سبط حسن ہر چھوٹے بڑے مضمون کی اصلاح سرخ ہولڈر سے کرتے تھے۔ تمام کاموں پر سب سے زیادہ ترجیح مضمون کی اصلاح و نظر ثانی، انٹرو لکھنے، سرخی جمانے کو دیتے تھے۔ دو بڑے کام، ادیبوں اور شاعروں سے جھنجھلائی ہوئی ملاقاتیں، دفتر کے تینوں کمروں میں ’تباہی ہے صاحب تباہی‘ کا شور مچاتے ہوئے، پائپ منہ سے لگائے ہوئے، کھدر کا کرتا اور پاجامہ پکا استری شدہ ، زیب تن کیے ہوئے، ایک فاضل اور قابل کپتان کی طرح اپنی ٹیم کو سنجیدگی سے اپنے اپنے کام پر لگائے ہوئے، متحرک و فعال رہتے۔

’لیل و نہار‘ کچھ بھی نہیں تھا، سبط حسن کی شخصیت کا مظہر تھا۔ ان سے بڑا اور سچا ایڈیٹر مجھے بعد میں کہیں نہ مل سکا۔

(بالکل درست۔ اردو کو دوبارہ لیل و نہار جیسا پرچہ نصیب ہو سکا اور نہ ہی سبط حسن ایسا مدیر۔۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).