آصف زرداری یا نواز شریف۔۔۔ کون بڑا بدعنوان؟


چالیس برس پہلے اردو صحافت ذوالفقار علی بھٹو کی کردار کشی سے عبارت تھی۔ ملک آج کی طرح تب بھی دو دھڑوں میں منقسم تھا۔ ایک دھڑا بھٹو صاحب کو مجسم خیر سمجھتا تھا اور دوسرے دھڑے کا خیال تھا کہ پاکستان میں ہر خرابی ذوالفقار علی بھٹو کی تین لفظی ترکیب میں پوشیدہ ہے۔ ووٹ کے ڈبے سے بھٹو صاحب کی پرچیاں زیادہ تعداد میں برآمد ہوئی تھیں لیکن ہم نے ووٹوں کی گنتی ماننے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ماں باپ نے مرزا ابراہیم کی انتخابی شکست میں جھرلو کی ترکیب سنی تھی۔ ہم نے دھاندلی کا نعرہ سنا۔ یہ جھگڑا بڑھ گیا۔ ایک روز فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو صاحب کو آمر اور ان کی حکومت کو فسطائیت کا نام دینے والوں نے فوجی آمریت کو خوش آمدید کہا۔ کوئی ذوالفقار علی بھٹو کا شجرہ نسب شائع کرتا تھا اور گھاسی رام کی ہفت پشت گنواتا تھا، کوئی سانگھڑ کے حروں کی داستان سناتا تھا۔ مظلوموں کا مبینہ قاتل جام صادق علی 1990 میں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا تو کسی کو حروں پر ظلم یاد نہیں آیا۔ سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جام صادق علی، ذوالفقار مرزا اور بابر اعوان اچانک برے نہیں ہوئے۔ یہ تو بھیتر کی خرابی تھی اور ہم کوتاہ نظری میں چشم پوشی کرتے تھے۔ شہلا رضا ہمارا سرمایہ ہیں۔ ان سے کچھ پوچھنا اور سیکھنا چاہیے۔

ٹیلی ویژن پر ظلم کی داستانیں سنائی دیتی تھیں۔ اخبارات کے اداریے اور ہفت روزہ جریدوں کے صفحات گواہ ہیں۔ ایک کم عمر بچی آکسفرڈ سے تعلیم پا کر آئی تھی۔ وہ اپنے باپ کے لئے انصاف مانگتی تھی۔ ہماری ذہانت کے ترکش میں ایک تیر کا اضافہ ہو گیا۔ ٹیپ کا مصرع یہ تھا کہ بھٹو صاحب جو تھے، سو تھے۔ ان کی بیوی اور بیٹی سیاست کو کا کیا علم ہے؟ 1965 میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف گھڑی گئی توارث کی دلیل کو نئے سرے سے چمکایا گیا۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ جمہوریت کو وراثت سے پاک کرنے کا خیال سب سے پہلے 2008ء میں پیدا ہوا۔ یہ رائے درست نہیں۔ بلاول بھٹو، مونس الہٰی اور حمزہ شریف کے خلاف وراثتی  سیاست مہم چلانے والے تو 1977 میں شاید یونٹ کمانڈ کے درجے کو بھی نہیں پہنچے تھے۔

صدر فورڈ کے ساتھ سرکاری ضیافت میں بیگم بھٹو کے رقص کی تصاویر تو بہت عرصے سے گردش میں تھیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بے نظیر کی کردار کشی شروع ہوئی۔ عوام میں بھٹو صاحب پر ظلم کا شدید ردعمل تھا۔ بھٹو صاحب پر ذاتی حملوں کی شدت کم کر دی گئی۔ توپوں کا رخ بے نظیر بھٹو کی طرف موڑ دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے لئے خود سوزی کرنے والے جانثاروں پر ”پیسے لے کر جلنے والے عیسائی لوگ“ جیسے پھبتیاں ارزاں ہوئیں۔ یہ لکھنے والے اپریل 1977 میں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ منہ مانگے پیسے دینے  پر تیار ہیں، کوئی پیسوں کے لئے جان دے کر دکھائے۔ پیپلز پارٹی میں باہمی رخنوں کی خبریں بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی تھیں۔ بھٹو صاحب جیل کی کوٹھری سے تاریخ کی چکا چوند روشنی کے اس منطقے میں داخل ہو گئے تھے جہاں لوگوں کو غرض نہیں تھی کہ بعد از وفات بھٹو صاحب کے جسد خاکی میں ختنے کے آثار ملے یا نہیں۔

بھٹو صاحب کی بیوی اور بیٹی کو سستی شہرت کے لئے بیان بازی کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ اگرچہ ان کے بیانات پاکستانی اخبارات میں شائع نہیں ہوتے تھے۔ تین ضخیم وائیٹ پیپر اقبال حسن اصفہانی نے مرتب کئے۔ ایک صفحہ مالی بدعنوانی کا نہیں لکھ سکے۔ بھٹو صاحب پر مالی بدعنوانی کا الزام لگانا آسان نہیں تھا۔ اس الزام کو کون مانتا۔ لوگوں نے تو قتل کا الزام ماننے سے انکار کردیا۔ صدمے کی شدت میں یہ کہانیاں بڑے وثوق سے سنی گئیں کہ بھٹو صاحب خفیہ طریقے سے بیرون ملک بھیج دیے گئے تھے۔ بھٹو صاحب کو رات کی تاریکی میں فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے رتو ڈیرو پہنچا جا چکا تھا۔ جن لوگوں نے یہ کہانیاں تخلیق کیں، وہ معمولی تاکید اور اسمائے صفت کے فرق کے ساتھ یہی لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ معدودے چند نے اپنے تجزیے کی غلطی کو مشروط طور پر  تسلیم کیا۔ انسانی ذہن عجیب و غریب طریقے سے کام کرتا ہے۔ جیتے رہنے کے بہانے تراش لیتا ہے۔

لاہور میں سرکاری اقامت گاہوں کے ایک حصے کو کلب روڈ کہا جاتا ہے۔ یہاں ادارہ ثقافت اسلامیہ کا دفتر تھا۔ اس دفتر میں بیٹھ کر بے نظیر بھٹو کی جعلی تصاویر تیار کی جاتی تھیں۔ یہ سب چہرے ابھی تک آکسیجن ضائع کر رہے ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ عمر کے کسی بھی صحافی سے پوچھ لیجئے۔ جولائی 1987ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے آصف زرداری سے شادی کی تو گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ آصف زرداری کو سنیما کی ٹکٹیں بلک کرنے والا نیم مجرم شخص قرار دیا گیا۔ کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ 60ء کی دہائی کے اوائل میں آصف زرداری کس سنیما کا دروازہ توڑ کر “منزلیں دور نہیں” فلم کا چائلڈ اسٹار بنا تھا۔ تقسیم سے پہلے حسرت موہانی اور کل ہندوستان سطح کے دوسرے زعما سندھ کا دورہ کرتے ہوئے حاکم علی زرداری کے ہاں کیوں ٹھہرتے تھے؟ نیپ کی تاریخ میں حاکم علی زرداری کا کیا مقام تھا؟ آصف علی زرداری پر مالی بدعنوانی اور اخلاقی باختگی کے الزامات لگانا آسان تھا۔ یہ الزامات 2008ء سے 2013 تک بھی سامنے آتے۔ (تب ان سے کچھ حاصل وصول نہیں تھا)۔

پوچھنا چاہیے کہ کس تاجر کی ٹانگ پر بم باندھ کر کس بینک سے پیسے نکلوائے گئے تھے۔ یہ خبر دینے والے  صحافی کامران خان نے محترمہ بے نظیر کے سامنے کیا اعتراف کیا تھا؟ قصہ یہ تھا کہ آصف علی زرداری بدعنوان ہے تو بے نظیر بدعنوانی میں شریک ہیں یا چشم پوشی کرتی ہیں۔ ہر دو صورتوں میں مجرم ٹھہرتی تھیں۔ آصف علی زرداری 90 سے 93 اور پھر 96 سے 2004 تک قید رہے۔ مجید نظامی نے انہیں مرد حر قرار دیا تھا۔ پرویز مشرف ببانگ دہل اعلان کرتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے لئے پاکستان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں۔ 2007 میں معلوم ہو گیا کہ جگہ موجود ہے اور پیپلز پارٹی کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائے بغیر ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدر تک پہنچ گئی۔ بات یہ ہے کہ کردار کشی کے موسم بدلتے رہتے ہیں۔ اس ملک میں جمہوری سوچ رکھنے والے تو پیدا ہونے سے بھی پہلے بدعنوان قرار پا جاتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو شہادت پا گئیں تو ان کے خلاف کردار کشی کے مضامین بھی ناپید ہو گئے۔ اب کوئی نہیں لکھتا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری الگ الگ ممالک میں قیام پذیر کیوں تھے۔ آج کا کلمہ حق یہ ہے کہ ملک کا بدعنوان ترین شخص آصف علی زرداری ہے ۔ پاکستان کے نکمے ترین نوجوان کا نام بلاول بھٹو ہے۔ اب ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی کردار کشی سے کچھ فائدہ نہیں۔ اب یہ چاند ماری آصف علی زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو پر کی جاتی ہے۔

کیوں نہ بیٹھ کر فیصلہ کر لیا جائے کہ آصف زرداری یا نواز شریف  میں کون بڑا بدعنوان ہے؟ بے نظیر بھٹو کی دیانت داری کیسے ثابت ہوئی؟ نواز شریف کون سی قربانی دے تو اس کا نامہ اعمال صاف ہو سکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).