میاں نواز شریف کا لاہور لانگ مارچ


خادم ڈاکٹر شاہد مسعود اور ”ڈاکٹر“ عامر لیاقت کے علاوہ ڈاکٹر معید پیرزادہ کے میعار کے آس پاس کا تجزیہ بھی کرسکتا ہے، مگر اس کینہ چاہت ہے، نہ وقت اور نہ ہی اب میلان کہ آدرش اتنے ٹوٹ چکے کہ اب باقی کوئی مان نہیں۔ اب تو دل کا رجحان وہ ہے جو چرچل صاحب طنز ملے غصے میں کہہ گئے تھے: کچھ نہ کہو، کچھ نہ کرو، کسی بات کے لیے کھڑے نہ ہو، تاکہ تم کچھ بھی نہ ثابت ہو سکو۔ وطن عزیز میں شاید یہی چلن درست رہے گا۔

وہ اپنے تقریباً بزرگ صحافی، سہیل وڑائچ صاحب کی نومبر 2007 میں جیو نیوز پر کہی ہوئی اک بات یاد آتی ہے جب دوبئی میں آجکل ناچتے ڈکٹیٹر (خیر، وہ اس وقت بھی ناچ اور نچوا ہی رہے تھے) کے ایمرجنسی پلس لگانے پر لاہور کے شہریوں کے بارے میں کہا تھا: عجیب سی خاموشی اور لاتعلقی ہے۔

تو یارو، عجیب سے خاموشی اور لاتعلقی ہی بہتر ہے۔

بس دو چار گزارشات ہیں، جو بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز کے کارکنان کی نذر کرنا ہے، تو پیش کرتا ہوں:

1۔ اس لانگ مارچ کو آپ لاہور سے آگے مونٹریال بھی لے جائیں تو اس کے نتیجے میں میاں صاحب بحال نہیں ہوں گے۔ ریاست، تحریری قانون پر چلتی ہے۔ یہ لانگ مارچ ان کی سیاسی طاقت کا اک مظاہرہ تو ہو سکتا ہے، اس کا کوئی سیاسی حصول ممکن نہیں۔ اصل جنگ، جس کے نتیجے کا شاید ابھی سے ادراک بھی ہے، عدالت کے فرش پر لڑی جانی ہے۔ دیکھیے!

2۔ میں آپ کی طرح، مسلم لیگ نواز کار کارکن نہیں، مگر میرا گھاؤ شاید آپ سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ میں نے پانچ مرتبہ لائن میں کھڑے ہوکر پانچ مرتبہ ووٹ دیا ہے۔ ان پانچ ووٹوں میں، چار کئیر ٹیکر وزرائے اعظم کے ساتھ ساتھ نو منتخب وزرائے اعظم دیکھے۔ پاکستان میں جمہوری و سیاسی تسلسل چلتا تو میں آج پانچویں وزیر اعظم کے حق یا خلاف ووٹ ڈال رہا ہوتا۔ میرے گھاؤ نے مجھ میں لاتعلقی پیدا کی ہے، آپ کا گھاؤ آپ کو سیاسی سرگرمی پر اکسائے گا۔ بس یہ کہ یہ سرگرمی صحت مند رکھیئے گا، اور وقت آنے پر اس کا اظہار بذریعہ ووٹ بھی کر دیجیے گا۔

3۔ لانگ مارچ اہم ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ اس کے بعد مسلم لیگ نواز کیا کرے گی؟ الیکشنز کوئی دس، بارہ ماہ دور ہیں شاید، تب تک کے حالات کیا ہوں گے، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا، مگر کسی قسم کے سیاسی شور کا حصہ نہ بنیے گا، بلکہ اپنی جماعت پر بھی اک دباؤ، کسی بھی ذریعہ سے مسلسل رکھیے گا کہ مخالفین کی شور و شورش پیدا کرنے کی خواہش کا شکار بالکل نہ ہوں، کیونکہ ریاست تحریری قانون پر چلتی ہے، تو لہذا، اس قانون کے تحت جب اگلے الیکشنز کی باری آئے تو اپنی وابستگی اس وقت جوش سے دکھائیے گا، ابھی ہوش کا وقت ہے۔

4۔ میاں نواز شریف صاحب کو اللہ، اک لمبی عمر دے، مگر وہ تاقیامت نہیں جینے والے۔ کوئی نہیں جینے والا۔ اپنی جماعت پر اک سیاسی گروہ سے، منظم سیاسی جماعت کی جانب بڑھنے کا دباؤ بڑھائیے۔ جماعتی تنظیم سے، مسلم لیگ نواز، میاں نواز شریف صاحب کو بھلے ہزار بار الیکٹ کرے، مگر موجودہ بحران میں اک بہترین اور شاندار موقع بھی ہے۔ اس موقع کا بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھائیں۔

5۔ انگریزی زبان کے اک بہترین لکھاری، ضیغم خان کے بقول ”جھینگر سے ٹڈے بن جانے والے، پاکستانی مڈل کلاس کے نوجوانوں کے اک جتھے“ کی زبان، کی۔ بورڈز اور تحاریر میں بھلے جو مرضی ہے چھلکتا اور جھلکتا رہے، ان کو اسی زبان میں جواب نہ دیجیے گا۔ اسی زبان میں جواب دینے سے شورش اور شور بڑھے گا، جو اوپر کی گئی درخواست نمبر 3 کے مطابق، مخالفین کی خواہش کا شکار ہونے والی بات ہوگی۔

اوپر والی تمام گزارشات، پیپلز، اوہ معذرت، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان سے بھی ہیں۔ مگر خادم، پڑھی لکھی پاکستانی مڈل کلاس کے اذہان اور ان کی استعداد کا پرانا شاہد اور ناقد ہے۔ ان کا جواب کیا ہوگا، وہ ابھی سے معلوم ہے۔

میں اب ووٹ نہیں ڈالونگا۔ میں تب تک ووٹ نہیں ڈالونگا جب تک اک وزیراعظم اس پاکستانی آملیٹ میں پانچ سال کی آئینی مدت پوری نہیں کرے گا۔ گو کہ میرے اک ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، مگر آدرش ٹوٹنے سے جو فرق پڑتا ہے، وہ اس کو گھاؤ کھانے والے ہی جانتے ہیں۔ اس سے تو بچا جا سکتا ہے، تو بچا جانا چاہئیے۔

کیفی اعظمی مرحوم سے معذرت کے ساتھ:

کر چکے فدا ہم آدرش و جمہوری لگن
اب الیکشن تمھارے حوالے ساتھیو!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).