ڈاکٹر رتھ فاؤ؛ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں


(تیس اپریل 2011ء کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو حبیب جالب امن ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اس موقع پر پڑھا جانے والا ایک مضمون)

یہ 9 ستمبر 1929ء کی بات ہے جب جرمنی کے شہر لیپزگ میں ایک بچی نے جنم لیا، جس کا نام رتھ کیتھرین مارتھا فاؤ رکھا گیا۔ لیپزگ طباعت و اشاعت کتب کا ایک بڑا مرکز تھا اور رتھ کیتھرین مارتھا فاؤ کے والد والتھر فاؤ بھی طباعت کے پیشے سے منسلک تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پورا یورپ اور امریکا شدید معاشی مشکلات کا شکار تھا۔ 1933ء میں جرمنی میں نازی پارٹی کے عروج کا آغاز ہوا اور جلد ہی ہٹلر نہ صرف نازی پارٹی بلکہ پورے جرمنی کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ رتھ فاؤ کی دسویں سال گرہ سے عین ایک ہفتے قبل جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کردیا اور پوری دنیا دوسری عالم گیر جنگ کی لپیٹ میں آگئی۔ رتھ فاؤ کے ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ ایک دیہی علاقے میں منتقل ہوگئے، جہاں جنگ کے اثرات نسبتاً کم تھے۔ اب معاشی پریشانیوں سے بچنے کے لیے رتھ فاؤ کے ماں باپ ہی نہیں اس کی بڑی بہنوں کو بھی کارخانوں میں کام کرنا پڑ رہا تھا۔ جنگ کی نحوست کے باعث ایک ہنستا بستا گھرانہ شدید معاشی حالات سے نبرد آزما تھا۔

مئی 1945ء میں جنگ ختم ہوئی تو یہ خاندان دوبارہ لیپزگ آگیا۔ اب رتھ فاؤ کی عمر بھی 16 برس کے لگ بھگ ہوچکی تھی۔ جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا اور دونوں حصوں کے درمیان آہنی پردہ حائل ہوگیا تھا۔ رتھ فاؤ کا شہر مشرقی جرمنی کے حصے میں آیا تھا۔ مگر اس کے والدین نے جلد ہی مغربی جرمنی کی سمت فرار اختیار کیا اور یہ گھرانا ایک مرتبہ پھر معاشی مشکلات سے نکل کر نئی زندگی کے لیے جدوجہد کرنے لگا۔ اب یہ گھرانا کولون میں آباد ہوا۔ رتھ فاؤ نے تمام مشکلات کے باوجود تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیا تھا۔ چناں چہ جب اچھے دن آئے تو اس نے منیز یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن میں داخلہ لے لیا۔ چند برس میں وہ ڈاکٹر بن گئیں مگر اسی دوران مذہب اور رفاہی کاموں سے اس کا لگاؤ بڑھتا چلا گیا اور اس نے شادی نہ کرنے اور تمام زندگی رفاحی کاموں میں بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ پیرس میں Daughters of the Heart of Mary سے وابستہ ہوگئی۔ اب ایک نئی دنیا اس کی منتظر تھی۔ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری نے رتھ فاؤ کو ہندستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جہاں اسے نادار مریضوں کی خدمت انجام دینی تھی۔ اسے ہندستان کا ویزا بھی مل گیا۔ وہ اپنے والدین کو اپنے فیصلے سے مطلع کرنے کے لیے جرمنی واپس پہنچی تو اس کے والد شدید علیل تھے۔

رتھ فاؤ کو جرمنی میں رکنا پڑا۔ والد کا انتقال ہوگیا۔ اب معلوم ہوا کہ رتھ فاؤ کا ویزا ختم ہوگیا۔ اس کے پاس ایک آپشن موجود تھا کہ وہ پہلے کراچی چلی جائے اور وہاں سے بھارت کے ویزے کے لیے کوشش کرے۔ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری 1955ء میں کراچی میں جذام اور کوڑھ کے مریضوں کے علاج کے لیے ایک چھوٹی سی کلینک قائم کرچکی تھی۔ یہ کلینک سسٹر برنیس وارگس کی نگرانی میں قائم ہوئی تھی اور اس کا نام میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر تھا۔ رتھ فاؤ نے کراچی پہنچ کر سسٹر برینس وارگس کی کلینک سے وابستگی اختیار کی۔ اس کلینک میں داخل مریضوں کی حالت زار نے انھیں ایسا متاثر کیا کہ انھوں نے بھارت نہ جانے اور پاکستان میں مستقل قیام کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری نے بھی رتھ فاؤ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، رتھ فاؤ پاکستان کی ہیں اور پاکستان رتھ فاؤ کا۔ رتھ فاؤ نے، سسٹر برینس وارگس اور ایک پاکستانی ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی کے ساتھ مل کر سٹی اسٹیشن کے پیچھے پہلی میری ایڈیلیڈ ڈسپنسری کا آغاز کیا۔

جذام اور کوڑھ کے مریض، جن کے گھر والے بھی ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، رتھ فاؤ کی توجہ اور محبت کا مرکز بن گئے۔ رتھ فاؤ اور ان کے ساتھیوں نے جذام اور کوڑھ کے مریضوں کے گھر والوں کو باور کرایا کہ یہ مرض دائمی نہیں ہے اور اس کے مریضوں کا مقدر موت نہیں ہے۔ انھوں نے پوری توجہ اور تن دہی سے ان مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا اور یہ مریض صحت یاب ہونا اور معاشرے کے کام یاب فرد بننا شروع ہوئے تو ان مریضوں کے اہل خانہ ہی نہیں معاشرے نے بھی رتھ فاؤ اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کو سراہنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ ان کلینکس کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور ان کا دائرہ بھی سوات تک پھیل گیا۔ جہاں کے والی میاں گل عبدالحق جہاں زیب نے رتھ فاؤ کو خوش آمدید کہتے ہوئے سوات میں ایک جدید کلینک قائم کرنے میں مدد دی۔

میاں گل عبدالحق جہاں زیب، صدر ایوب خان کے سمدھی بھی تھے، یوں رتھ فاؤ کی شہرت ایوان حکومت تک بھی پہنچی اور رتھ فاؤ کے کام کو حکومتی سرپرستی بھی میسر آگئی۔ رتھ فاؤ اور ان کے ساتھیوں نے صرف کلینکس ہی قائم نہیں کیے بلکہ جذام اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لیے تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔ رتھ فاؤ کا ذکر ادھورا رہے گا اگر ہم زرینہ فضل بھائی کا ذکر نہ کریں۔ زرینہ فضل بھائی کراچی کی ایک معروف سماجی کارکن تھیں، جنھوں نے ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں رتھ فاؤ کا ہاتھ تھاما تھا اور مارچ 1999ء میں اپنی وفات تک ان کی ساتھی بنی رہی تھیں۔ انیتا غلام علی بھی ایک طویل عرصہ سے ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ہم قدم رہیں۔ سسٹر وارنر برگنس دسمبر 2005ء میں اپنی وفات تک، رتھ فاؤ کے لیے سایہ بنی رہیں۔ ہم رتھ فاؤ کے ساتھ ساتھ ان عظیم خواتین کو بھی سلام کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے انسانیت کا وقار قائم ہے۔ جن کو دیکھ کر، جن سے مل کر زندگی سے محبت ہوجاتی ہے۔ سرور بارہ بنکوی نے انھی لوگوں کے بارے میں کہا تھا:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).