لالہ موسیٰ کے حامد کو شہادت پر مبارکباد!


بچہ خوش قسمت تھا۔ سیاسی جلوس کے پاؤں کے نیچے رزق خاک ہوا۔ کیپٹن صفدر، مریم نواز، سعد رفیق سے لے کر رانا ثناء اللہ تک کے اوپر اور نیچے کے جبڑوں نے ایک دوسرے سے مخالف خفیف حرکت کی اور جبڑوں کے مابین گوشت کے لوتھڑے کی مدد سے کچھ ایسے صوتی اثرات نکالے جنہوں نے آواز کی لہروں کی مدد سے سفر کرتے ہوئے قوم کے کانوں تک شہادت کی بشارت پہنچائی!
اسی جی ٹی روڈ سمیت سارے پاکستان میں روزانہ کتنے بچے تشدد، حادثات وغیرہ کے نتیجے میں مرتے ہیں لیکن ایسا اعزاز کم ہی کسی کے حصے میں آتا ہے کہ ملک کے صف اول کے رہنما اس کو شہید قرار دیں۔ بچے کے ساتھ ہمدردی اپنی جگہ لیکن شہادت کا اعزاز بھی کیا کم ہے! اس اعزاز میں صرف بچہ نہیں بلکہ اس کے والدین اور لالہ موسیٰ شہر بھی شامل ہیں۔

شہید بھی کیا اصطلاح ہے۔ براہ راست متاثر ہونے والے والدین کو بھی آنسو روکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پھر شہید بھی ایسا کہ کاروانِ جمہوریت کا پہلا شہید قرار پائے۔ بچہ شہید ہو گیا۔ گھر والوں کو شہادت کے اعزاز کی نوید کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی کر دی جائے گی۔ مزید اب رہنما کیا کریں؟ اگر اس کے باوجود بچے کے لواحقین شور مچاتے ہیں تو کسی مقامی عالم کو بھجوایا جا سکتا ہے جو ان کو بتائے کہ شہید کون ہوتا ہے؟ شہید کا درجہ کیا ہے؟ شہید کی شہادت پر رونے سے کیسے شہید کو تکلیف پہنچتی ہے۔ احسن عمل یہ ہے کہ مبارکباد دی جائے اور وصول کی جائے۔ اس سے شہید کی روح بہت خوش ہوتی ہے۔

عام آدمی اور بالخصوص غریب آدمی ویسے بھی خدا کے قریب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی و مذہبی اشرافیہ یا ان کے اہل خانہ کو شہادت کا اعزاز کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ مقدر کے ستارے غریب کے ماتھے کو ہی منور کرتے ہیں۔ غریب کی شہادت قبولیت کے درجہ کو پہنچے تو اس کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے اہل خانہ صبر کی مثال بن جاتے ہیں۔ ایمان کی اعلیٰ سطح پر براجمان اہل خانہ میں سے کچھ حضرات تو باقاعدہ خوش ہوتے ہیں کہ اس شہید کی وجہ سے باقی اہل خانہ بھی بخشے جائیں گے۔

اگر یہی بچہ شہید نہ کہلاتا تو۔

حامد نے بین لگی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ بین پر کڑھائی تھی اور شاید یہ قمیض اس نے پہلی دفعہ گزشتہ عید پر پہنی ہو۔ جماعت ششم کا طالبعلم تھا۔ لالہ موسیٰ میں تین دن سے نواز شریف کے جلوس کا انتظار کر رہا تھا۔ سکول بند تھا اس لیے حامد بہت زیادہ خوش تھا۔ جی ٹی روڈ کے درمیان میں ڈیوائیڈر پر کھڑا تھا۔ اور سب کھڑے تھے۔ حامد نے اب تک کی زندگی میں یہی دیکھا تھا کہ سڑک پر اس کی قوم جان ہتھیلی پر لیے پھرتی ہے۔ اس لیے ڈی وائیڈر پر کھڑا ہو کر گاڑیوں کو نزدیک سے دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس میں مہم جوئی میں ایک انعام کی امید تھی کہ شاید نواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جائے۔ حامد سے ایک گاڑی ٹکرائی۔ اس سے پہلے کہ حامد سنبھلتا دوسری گاڑی کے ٹائروں کے نیچے آ کر شدید زخمی ہو گیا۔ پروٹوکول کی یہ گاڑیاں رکی نہیں۔ میڈیا کی ایک گاڑی نے بریک لگا کر جلوس کو روکا اور بچے کو ایک رکشے پر ہسپتال روانہ کیا گیا۔ جلوس میں 11 جدید ایمبولینسز تھیں لیکن وہ کسی بہت اعلیٰ مقصد کے لیے شریک سفر تھیں۔

بچے کے گاڑی کے نیچے آنے تک آپ اس کو حادثے کا رنگ دے سکتے ہیں۔ ایک ایسا حادثہ جس میں معاشرتی غفلت و جاہلیت نمایاں ہے لیکن کسی نے بچے کو ارادتاً قتل نہیں کیا۔ معاملہ یہ ہے کہ اس حادثے کے بعد جو کچھ ہے وہ قتل ہے۔ ہم دلی کا قتل ہے۔ انسانیت کا قتل ہے۔ شعور کا قتل ہے۔ محبت کا قتل ہے۔ زندگی کا قتل ہے۔ پروٹوکول کی گاڑیاں کیوں نہیں رکیں، بچے کو ایمبولینس میں کیوں نہیں ڈالا گیا۔ جب یہ خبر جلوس کے قائدین تک پہنچی تو جلوس کو کیوں نہیں روکا گیا؟ ہمارے ہاں گھٹیا ”پاپولر سیاست“ تو نظر آتی ہے لیکن ایک مثبت پاپولر سیاست بھی ہوتی ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ نواز شریف نے بچے کے حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے مثبت پاپولر سیاست کیوں نہ کی۔ حادثے کو رویے قتل بنا دیتے ہیں۔ مجھے بالکل نہیں معلوم کہ نواز شریف کے حلق سے گوجرانوالہ کا ناشتہ کیسے اترا ہو گا؟ آج صبح ٹی وی پر ان کو پیش کی گئی ڈشز دکھائی جا رہیں تھیں۔ مجھے نہ جانے کیوں شوربے کا رنگ لہو رنگ نظر آتا تھا ہو سکتا ہے نواز شریف اور ان کے رفقاء کو نہ نظر آتا ہو۔

حامد کے قاتلوں کا ایک اور گروہ دیکھیے۔ سوشل میڈیا پر جا بجا نظر آ رہا ہے۔ ”بچے کی گاڑی کے نیچے آنے والی ویڈیو منظر عام پر۔ دیکھنے کے لیے کلک کریں“۔ ”لالہ موسیٰ میں بچہ کیسے گاڑی کے نیچے کچل دیا گیا اس کے جسم کا کیا حشر ہوا۔ دیکھنے کے لیے کلک ابھی کلک کریں“۔ اب یہاں سوشل میڈیا پر دو طرح کے گروہ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو ایسی ویڈیوز کی پوسٹ بنا بنا کر شئیر کر رہے ہیں اور گوگل ایڈز سے بچے کی لاش بیچ کر چند ٹکے کما رہے ہیں۔ دوسرا گروہ ان ویڈیوز کو دیکھ رہا ہے۔ آپ ایسی ویڈیوز کی پوسٹ کے نیچے لاکھوں ہزاروں کا ہندسہ دیکھتے ہیں جو ان ویڈیوز کو دیکھ چکے ہیں۔ بخدا ایک خبر پہنچی کہ معصوم بچہ شہید ہو گیا۔ اب وہ کون شقی القلب تماشائی ہیں جو بچے کو گاڑی کے نیچے کچلتا دیکھنا چاہتے ہیں یا شئیر کر کے دکھانا چاہتے ہیں۔ آپ سماج کی ہم دلی کو اس پیمانے سے ذرا ماپیے اور اندازہ کیجئے کہ اگر ایسے شقی القلب معاشرتی حصے کو اس بنیاد پر جیل یا کسی چار دیواری میں قید کیا جائے کہ یہ صحت مند معاشرے کا حصہ بننے کے قابل نہیں ہیں تو۔ چار دیواری کے اندر کتنے ہوں گے اور باہر کیا رہ جائے گا۔

اس حادثے کو قتل کا درجہ دینے والے رویوں میں سیاسی جماعتوں کے رویے پیش پیش ہیں۔ ن لیگ کی سیاسی مخالف جماعتوں میں بچے کی موت پر جو غم و غصہ ہے کیا وہ حقیقی طور پر بچے کی المناک موت کے گرد گھومتا ہے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے؟ اس کا فیصلہ ان جماعتوں کے اس حادثے سے پہلے کے شب و روز بتاتے ہیں۔ جس ملک میں بچوں کی ٹکڑوں میں بٹی لاشیں نالیوں اور کوڑے کرکٹ پر مل رہی ہوں۔ جہاں جنسی تشدد معمول ہو۔ تیزاب پھینکنے سے زندہ جلا دینے والی خبریں غیر اہم اور معمول سمجھ کر اخباروں کے اندر کی صفحوں پر شائع ہوں تو ایسے ملک میں انسانی حقوق پر حقیقی سیاست کرنے کے مواقع کثیر ہوتے ہیں۔ ان مواقعوں کو عام دنوں میں استعمال کیوں نہیں کیا جاتا۔ نیت کا فتور کتنا ظاہر ہے۔

حامد کے حادثے پر کیا پی ٹی آئی کیا ن لیگ کے حمایتی، سب کو غمزدہ ہونا چاہیے تھا۔ کاش نہ کوئی اس حادثے سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتا اور نہ کوئی اس کو جمہوریت کا شہید قرار دے کر بچے کے لواحقین کے غم و غصہ پر پانی پھینکنے کی کوشش کرتا۔ سیاسی جماعتوں کے اندھے پیروکاروں کی مہمات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہوں کہ حامد کا کوئی نہیں ہے۔

حادثے ہوتے ہیں۔ ہماری غفلت سے۔ کم علمی سے۔ جہالت سے لیکن ان حادثوں کو۔ باقاعدہ قتل کا روپ ہمارے رویے دیتے ہیں!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik