جمہور کا مقدمہ اور بونے دانشور


ایزراپاونڈ Ezra Pound امریکن دانشورتھے، انہوں نے مسولینی کے حق میں ایک کتاب لکھی تو امریکہ واپسی پر اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیاگیا، انہیں غدر کے جرم کی سزا نہیں دی گئی تو محض اس لیے کہ عدالت کے سامنے اس کا دماغی خلل ثابت ہو گیا تھا۔

ٹیگور بھی ایک دانشور تھے، جلیانوالہ باغ سانحہ کے بعد انہوں نے نایٹ ہڈ کا خطاب سرکار انگلیشیہ کو واپس کر دیا تھا۔ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ ”امار سونار بنگلہ“ ٹیگور کا ہی لکھا ہوا ہے، کیونکہ بے شک ٹیگور اس کے مستحق ہیں کہ قیامت تک اس دریائے پدما کے کنارے ان کا نام زندہ اور کام یاد رکھا جائے جس کا ذکر ٹیگور کی گیتانجلی میں صراحتاً اور اشارتاً کسی محبوب سے بھی زیادہ ملتا ہے۔

دانش کی شمع کو اپنا خون جگر پلانے والے دانشور ایسے ہوتے ہیں۔ انسانوں کو طاقتور مافیاز، غیرقانونی تسلط، غیر مشروع حاکمیت اور عوامی بالادستی کے مقابلے میں کچھ زورآور خواص کی اطاعت گزاری کا درس دینے والے دانشور صرف ہمارے جیسے بیمار معاشروں میں ہی کچرا دان کے جراثیم کی طرح نشوونما کرسکتے ہیں۔

غضب خدا کا، ایک آدمی کسی ملک کے اخبارات میں لکھتا ہے، ٹی وی چینل پر آکر بیٹھتا ہے اور اس کی اپنی بے بصیرتی اور بے وقوفی کی یہ حد ہے کہ وہ ابھی تک جمہور کی سپرمیسی اور سویلینز کی بالادستی کے بارے میں شدید ابہام کا شکار ہے۔

وہ پوری دنیاکی تاریخ کو پی لینے کا دعوے دار ہے مگر پھر بھی وہ ایک ایسے تجربے سے بارہویں مرتبہ ایک شاندار نتیجے کا آرزومند ہے جواس سے پہلے گیارہ مرتبہ ناکام ہوچکا ہے۔

وہ ”سٹیٹس کو“ کانام دن میں 99 مرتبہ لیتا ہے مگر اسے نہیں پتا کہ ڈیڑھ درجن مرتبہ بہ یک بینی دوگوش پھانسی گھاٹ، گھروں اور قتل گاہوں کو سدھارے گئے لوگ ”سٹیٹس کو“ ہیں یا انہیں سدھارنے والے؟

وہ زورآور لوگوں کی پانچ قانون گوؤں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کو ”طاقتور کا احتساب“ سمجھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کو ملک کی تقدیر کا بدل جانا کہتے ہیں اور کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے ثابت شدہ جرائم میں دندناتے پھرنے والوں کو کمزور بھی سمجھتے ہیں اور ملک کی مستقبل کے بارے میں عوام اور ان کی سیاسی قیادت سے زیادہ فکرمند بھی۔

وہ اعلانیہ امپائر کی انگلی کے سایہ ذوالجلال سے وجد میں آکر رقص رومی کرنے والے کو ملک کا ” حقیقی انقلابی لیڈر“ باور کراتے ہیں اور عوام کی قاطع اکثریت کا مینڈیٹ رکھنے والے کا ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔

یہاں روز ایسے دانشوروں کا لکھا کہا بھگتنا پڑتا ہے، بخدا اپنے اجتماعی بونے پن پر ترس آتا ہے۔ ہمیں کسی سارتر اور روسو کی یہاں توقع نہیں ہے مگر مہذب معاشروں کا ایک میٹرک پاس اوسط درجے کا شوقیانہ اخباربین بھی اس کلاس کی سوچ سے کچھ بڑا سوچتا ہوگا جنہیں یہاں دانشور کہاجاتا ہے، سچ ہے کہ ایک دہشت گرد جو براہ راست دہشت پھیلاتا اور لوگوں سے اپنے بیانیے پر کسی لیل وحجت کے بغیر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے اس دانشگرد سے کہیں کم نقصان دہ ہے جو اپنے حلیے، گمراہ کن اصطلاحات اور کچے تصورات سے پرمبنی اس دانش کو فروغ دیتا ہے جس کے نتیجے میں سواد اعظم کو اس کی کوتاہ نظری کا یقین دلاکر انہیں حق حاکمیت اور حق اقتدار کو عہد طفولیت میں یتیم ہونے والے بچے کی طرح کسی کی سپردگی میں دے کر خود اس کے زیر کفالت زندگی بسر کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).