انقلاب کا کھوکھلا نعرہ


منظر بڑا عجیب تھا، اگر عالم ارواح سے اس جہان فانی میں ذرا سی بھی جھانکنے کی سہولت ملی ہوگی تو وہ منظر دیکھ کر فیض صاحب کو یقیناً سگریٹ کی شدید طلب محسوس ہوئی ہوگی۔
خوبصورت ایئر کنڈیشنڈ اور معطر Hall میں خوش رنگ، خوش لباس صاحب حیثیت اور ارباب بست و کشاد کے حضور ملک کی ایک مشہور مغنیہ نظم سرا تھی۔

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل پہ لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اوراہل حاکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سب لوگ ایسے ہمہ تن گوش تھے کہ انتظامی امور افسران اور اُن کے ماتحت خدمت گار بھی اپنے حکام بالا کی محویت کو دیکھ کر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ نظم ختم ہوئی تو ہال جذباتی تالیوں سے ایسے گونج اٹھا کہ شاید فیض صاحب کے اپنے سنانے پر بھی اتنی داد کبھی نہیں ملی ہوگی۔

یہ منظر میرے لئے عجیب کیوں تھا؟ شاید کچھ لوگوں کو اب تک بھی اس کا ادراک نہ ہوا ہو۔ تو بتائے دیتا ہوں۔ یہ نظم فیض نے جس طبقے کے خلاف لکھی تھی، وہی اپنے خرچے پر سن رہے تھے اور دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ شاید اب بھی یہ بات کچھ لوگوں کو عجیب نہیں لگی ہو کیونکہ اتنے برسوں میں اُس طبقے نے فیض سے لے کر جالب تک ہر شاعر کو جذبے، جنون اور انقلاب کے اسٹیج سے اتار کر ”فیم “ کے تخت پہ بٹھادیا ہے۔ وہ شاعری جو لہو گرمانے کے لئے تھی، اُس سے محفلیں سجانے کا ایسا کام لیا گیا، کہ رفتہ رفتہ اُس کے لفظوں کا زہر کسی تماشا دکھانے والے سانپ کی طرح اُس کے ڈنک سے نکل گیا۔

ایسا نہیں، تو پھر کیا ہوا، وہ شاعری جس کی پاداش میں اُس کے شاعر جیلوں کے چکر کاٹتے رہے، آج سرکار کے ایوانوں میں قابل قبول کیوں ہوگئی ہے؟ کیا آمر، جابر اور غاصب ختم ہوگئے ہیں؟ کیا تاج اچھال دیے گئے، تخت گرا دیے گئے؟ اور وہ، کہ جس کا وعدہ تھا، کیا وہ دن آگیا؟ اور کیا یہی وہ لوگ تھے، جنہوں نے اس دن کو دیکھنا تھا؟

چلیں، فیض، جالب، گل خان نصیر، شیخ ایاز اور غنی خان کو رہنے دیں۔ ہوسکتا ہے، وہ اپنی شاعری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے کردار کی وجہ سے جیل گئے ہوں۔ لیکن اقبال کے ساتھ کیا ہوا؟ کاخ امراء کے درودیوار کو گرانے والا اقبال ان ہی امرا ء کی دیواروں کی زینت کیسے بن گیا؟ دہقانوں کو ورغلا کر کھیتوں کے کھیت جلانے والا اقبال، جاگیرداروں کی پشت پر ایک فریم بناکر کیوں لٹکا دیا گیا ہے، سلطانی جمہور کا خواب دیکھنے والا اقبال، آمروں اور غاصبوں کی تقاریب میں عزت پاکر شاعر مشرق کے بلند ترین عہدے پر کیوں بٹھادیا گیا؟ یہ ”فیم “کا شوکیس نہیں تو اور کیا ہے؟ جس نے اُسے اُن بے بس دہقانوں، بے کس مزدوروں اور سلطانی جمہور کا خواب دیکھنے والوں سے اتنا بلند کردیا، کہ وہ اُس کے شاہینوں کو صرف جہازوں میں اوراُس کے مومنوں کو دربانوں کے جلو میں بس دور سے دیکھ سکتے ہیں۔

کیا یہی کچھ بلھے شاہ کے ساتھ نہیں ہوا؟ کل کا واجب القتل، کفر بکنے والا بلھے شاہ، آج کا بیسٹ سیلر کیوں ہے۔ کل اُس کا منہ نوچنے والے مذہبی ٹھیکیدار اُس کے ساتھ مرگئے کیا؟ آج اس ملک کا ہر گلوکار ’’کی جانا میں کون ‘‘ کا ورد کر رہا ہے۔ اس ملک کے ہر چینل پر ’’نچ کے یار‘‘ منایا جارہا ہے۔ مذہبی ٹھیکیدار تو آج اپنے عروج پر ہیں، پہلے سے بھی زیادہ منافرت، شمشیر بدست، غیر مسلم تو کیا، فرقہ بدروں کے بھی سر کاٹ رہا ہے۔ پھر بلھے شاہ کی شاعری قابل گردن زدنی کیوں نہیں؟ بلھے شاہ کے گانے والے کسی گلوکار کو خراش تک کیوں نہیں آتی؟

یقیناً اورنگزیب عالمگیر بھی عالم ارواح میں بیٹھ کر کف افسوس مل رہا ہوگا۔ کاش وہ بھی اپنے دور کے بلھے شاہ ’’سرمد ‘‘ کی شاعری کو سرکاری قرار دے کر اُسے اپنے دور کے کلاکاروں کے ذریعے مارکیٹ کرتا، اپنے دربار میں اُس کے گانے گووا کر، اُس کے مریدوں سے زیادہ سر دھنتا، تو شاید اُسے بھی ’’سرمد‘‘ کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنے پڑتے۔ کیونکہ سرمد بھی اُس کے لئے ایک چیلنج کے بجائے شہرت بن کر بے ضرر ہوجاتا۔ مگر اُس وقت کے جبہ و دستار والوں میں شاید کوئی ایسا جوگی موجود نہیں تھا، جو اتنے بڑے اژدہے کو شہرت کی چھوٹی سی سرکاری پٹاری میں بند کردیتا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی سے لے کر حضرت داتا گنج بخش تک اور سچل سرمست سے لے کر رحمن بابا تک ہر ایک صوفی، جو کل کے بادشاہوں کے لئے چیلنج تھا، آج کے حکمرانوں کے لئے جائے عقیدت کیوں بناہوا ہے؟ ظالموں، زرداروں اور دنیا داروں کے خلاف مظلوموں، بے کسوں اور ناداروں کی سرپرستی کرنے والے وہ صوفی آج فیم کا بت بنادیئے گئے ہیں۔ جن سے وہ زندگی بھر منہ پھیرتے رہے، جن کے خلاف بولتے رہے، آج وہی اُن کے مریدوں کو پھلانگ کر اُن کے مزاروں پر ایسے حاضری دیتے ہیں، جیسے یہ جاہ و حشم ان ہی صوفیوں کی بدولت اُنہیں ملی ہے۔ سب فیم کا چکر ہے۔ فیم ، جو جوش، جذبے، سمجھ اور تاثیر کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔

لیکن المیہ یہ ہے کہ اس فیم کے ذریعے افکار کو ناکارہ کرنے کا فارمولا آج خود اُنہی کے گلے پڑگیا ہے۔ اُنہوں نے جتنا زور لگا کے انقلاب کے لفظ کو بے معنی کردیا، اب اُسے دوبارہ پرتاثیر کرنے کے لئے شاید اُن کواُس سے بھی زیادہ زور لگانا پڑے گا۔ کیونکہ یہ نعرہ ایئر کنڈیشنڈ ہالز میں اپنی ساری گرمی کھوچکا ہے۔ اب صرف مصالحت اور مصلحت کے الفاظ زندہ ہیں۔ ورنہ انقلاب لانے کے لئے پارلیمنٹ کے ماتھے پر لکھا ہوا کلمہ طیبہ ہی کافی ہے، جس کی ابتدا ’’لا ‘‘ یعنی نہیں سے ہوتی ہے۔ مگر انکار کے ”نو“ کو ”یس سر“ ، ”یس سر“کی مفاد پرستانہ گردان نے کہیں گم کردیا ہے۔

وہ جتنا چلا کے ’’انقلاب ‘‘ بول رہے ہیں، اُتنا ہی بے معنی لگ رہا ہے۔ جب زہر ہی نکال دیا بھیا، تو ڈنک کہاں سے کام کرے گا؟ اب طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں، طاقت کا سرچشمہ صرف ’’طاقت‘‘ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک سب فیم کے خوبصورت شیلفوں میں بند کردیئے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).