چینی راہداری، اختلافات اور مولانا فضل الرحمان
چینی راہداری کے مسئلے پر یکایک غلغلہ بلند ہوا ہے۔ پرویز خٹک نے صدائے مجذوبانہ بلند کی ہے کہ وہ پختونخواہ سے اقتصادی راہداری کو گزرنے نہیں دیں گے، اور اگر ان کو ستایا گیا تو وہ سارے صوبے میں اراضی کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دیں گے۔ لگتا ہے کہ اب وہ ہزارے میں دھرنا دینے پر غور کر رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد کے دھرنے سے تحریک انصاف نے کچھ نہیں سیکھا ہے، جس کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی میں ووٹرز نے تحریک انصاف سے ’شدید متاثر‘ہونے کا تاثر دیتے ہوئے اس پر بھرپور عدم اعتماد کر دیا تھا۔ اب اگر پورے صوبے میں زمین کی خرید و فروخت پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی لگ گئی، تو وہاں کا ووٹر اس بہترین پالیسی سے کتنا متاثر ہو گا؟
ایسے میں تحریک انصاف کے اسد قیصر صاحب کی تعریف کی جانی چاہیے جو کہ اس صورت حال میں مولانا فضل الرحمان صاحب کے پاس جا پہنچے اور اس مسئلے پر ان کی مدد مانگی۔ خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمان ایک توانا آواز تو رکھتے ہی ہیں، لیکن چاروں صوبوں میں تقریباً سب سیاسی پارٹیاں ان کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہیں، سوائے تحریک انصاف کے۔ تحریک انصاف جس طرح ڈھائی تین سال سے مولانا فضل الرحمان صاحب کے خلاف ایک نہایت نامناسب مہم چلائے ہوئے تھی، اس کو دیکھتے ہوئے اسد قیصر صاحب کے اس جرات مندانہ قدم کی تعریف کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔
ادھر سردار اختر مینگل کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں دلچسپ صورتحال پیش آئی۔ سلیم صافی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ گوادر بلوچوں کا ہے لیکن کمیٹی کا سربراہ مشاہد حسین کو پنجاب سے بنایا گیا جن کا کردار بھی احسن اقبال سے کم نہیں ہے۔ اس پر احسن اقبال نے سلیم صافی کی تقریر میں مداخلت کرتے ہوے کہا ، کہ میرا کردار کیا ہے؟ صافی صاحب نے جواب دیا کہ کہ آپ کا کردار تو یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے یہ تیسری اے پی سی ہو رہی ہے اور آج آپ کی وجہ سے سارے صوبے اپ کے خلاف آپ کے گھر آ کر آپ کو گریبان سے پکڑے ہوئے ہیں۔ احسن اقبال صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کہا کہ سلیم صافی مجھے جس پیرائے پر کھڑا کر گئے ہیں، اس سے مجھے لگتا تھا کہ ہیلمٹ پہن کر تقریر کرنا پڑے گی۔
آل پارٹیز کانفرنس میں یہ نوٹ کیا گیا کہ مغربی اقتصادی راہداری کا منصوبہ اٹھائیس مئی کے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے سے مطابقت نہیں رکھتا ہے اور یہ ضروری ہے کہ اٹھائیس مئی کے اعلامیے پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔ وضاحت طلب کی گئی کہ اس تجارتی راہداری کے مغربی روٹ پر صنعتی اور تجارتی زون کہاں کہاں اور کب کب تعمیر کیے جائیں گے۔ اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی کہ صنعتوں کے لیے گیس، فائبر آپٹیکس اور ریلوے لائن وغیرہ کا نقشوں میں کوئی ذکر نہیں ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ایک تجارتی راہداری نہیں بلکہ محض ایک سڑک ہے۔
مولانا فضل الرحمان صاحب اور میاں نواز شریف صاحب کی میڈیا سے گفتگو بھی سامنے آئی ہے۔ مولانا نے سوال کیا کہ کاریڈور منصوبے میں ڈیرہ اسماعیل خان تک چھ رویہ موٹر وے بننی تھی اور اس سے آگے چار رویہ کی بات ہو رہی تھی۔ اب سنا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان تک بھی چار رویہ سڑک بنے گی۔ اس پر میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہو گی تو چار رویہ، لیکن دیکھنے میں چھے رویہ نظر آئے گی۔ بعد میں سنجیدگی سے فرمایا کہ اسے چھے رویہ کرنے کی کمٹمنٹ ہے، لیکن ابھی چار رویہ بننے دیں۔ وجہ فنڈز کی کمی بیان کی گئی۔
لگ یہی رہا ہے کہ ابہامات کی وجہ سے یہ منصوبہ اسی طرح اختلافات کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح کالاباغ ڈیم ہو چکا ہے۔ صورت حال اتنی نازک لگ رہی ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر کبھی نہ بولنے والا چین بھی بولنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ ’آپس میں رابطے کو بہتر بنا کر باہمی اختلافات ختم کیے جائیں تاکہ منصوبے کی تکمیل کےلیے حالات موزوں ہوں۔ دونوں ملکوں کی عوام کے لیے فائدہ مند اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ہم پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں‘۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اربوں ڈالرز مالیت کا یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے درمیان اتفاق رائے کا نتیجہ ہے اور اسے دونوں ملکوں کی عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمان چھوٹے صوبوں اور اپوزیشن کی طرف سے ایک متفقہ نمائندے کے طور پر ابھرے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، ان کی شدید سیاسی دشمن تحریک انصاف تک ان کے پاس جا چکی ہے۔ ایسے حالات میں بہتر یہی ہے کہ نواز شریف مدبرانہ انداز میں فیصلے کریں۔ جیسا کہ پچھلے دور حکومت میں انہوں نے اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو شہید کو کشمیر کاز کی نمائندگی کے لیے حکومت پاکستان کا نمائندہ مقرر کیا تھا، اور موجودہ دور میں اکثریت رکھنے کے باوجود ڈاکٹر عبدالمالک کو بلوچستان کا وزیراعلی بنایا تھا، ایسے ہی کاریڈور کی اہمیت کے پیش نظر اس منصوبے کا انچارج اپنی پارٹی سے بنانے کی بجائے مولانا فضل الرحمان کو بنا دیا جائے۔
مولانا موجودہ دور میں ایک ایسی شخصیت بن کر ابھرے ہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہر صوبے میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی معاملات سلجھانے میں پشاور سے کراچی تک نمایاں نظر آتے ہیں۔ وہ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے پاکستان کی تقدیر بدلنے والے اس منصوبے کو متنازع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ وزیراعظم کو اس پر غور کرنا چاہیے، اور اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اس مطالبے پر زور دینا چاہیے۔ ورنہ پھر احسن اقبال صاحب کی وجہ سے مستقبل قریب میں ایک اور اے پی سی نہ بلانی پڑ جائے۔
- خوجی: جب ہوٹل میں کھانا کھانا حرام تھا - 25/10/2024
- ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ہلچل: کچھ پرابلم ہے آدمی میں - 12/10/2024
- ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شامت کیوں آئی ہوئی ہے؟ - 07/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).