انسانیت کے معانی۔۔۔۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ


کوڑھ یا جذام دو طرح کا ہوتا ہے سفید اور سیاہ، 1960ء تک ان دونوں کو پاکستان میں قہر خدا وندی کہا جاتا تھا۔ اس مرض میں مبتلا ہونے والے انسان کے بارے میں یہ عقید ہ عام تھا کہ اس پر کسی گناہ کی پاداش میں عذاب نازل ہوا ہے۔ چنانچہ اسے دھتکاردیا جاتا تھا۔ مریض کو چھونے سے اس کے پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے متاثرہ شخص کے لیے یہ زندگی کے خاتمے کا اعلان ہوتا تھا۔ مریض ایک زندہ لاش کی طرح باقی دن گزارتا، ایسا انسان سڑکوں پر بھیک مانگتا اور لوگ دور سے ہی منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی طرح خیرات اچھال دیا کرتے۔ 1950-60ء کی دہائی میں نئے نئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا ایسے مریض کے پاس شہر سے نکل جانے یا خود کشی کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا تھا۔

کراچی کے مخیر حضرات نے ایسے مریضوں کے لیے شہر سے باہر رہائش کا بندوست کر دیا جنہیں کوڑھی خانے کہا جاتا تھا۔ یہی رہائش گاہیں ان کا قبرستان بھی ثابت ہوتیں۔ مریضوں کے لیے خیراتی کھانا دیوار کے اوپر سے پھینک دیا جاتا اور مریض یہ لتھڑا کھانا کھا کر زندگی کی ڈور کھینچتے رہتے۔ اس مرض کو لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ اس مرض میں جسم پر پہلے زخم بنتے ہیں پھر ان میں پیپ بھر جاتی ہے اور جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے جس کے بعد جسم سے گوشت الگ ہو کر گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران جسم سے سخت بد بو آتی ہے چناچہ مریض اپنے جسم کو بڑی بڑی پٹیوں سے لپیٹ کر رکھتا ہے اور پٹیاں بدلنے کے دوران نا قابل بیان قسم کی اذیت بھی برداشت کرتا ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں کوڑھ کے مرض کا ذکر اکثر آیا ہے اور اس نے انسان پر اپنی دہشت بٹھا رکھی تھی۔ حضرت عیسیٰ کے بارے روایات میں آیا ہے کہ اُن کے مریض کو چھونے سے جزام کا مرض جاتا رہتا تھا۔

ایشائی باشندے اپنی ضیعف الاعتقادی کے باعث مختلف امراض کو آسمانی عذاب قرار دینے کے ماہر ہیں۔ یہ ماضی بعید میں سر درد کو بدروحوں کا حلول کر جانا بھی سمجھتے رہے ہیں اور ان بد روحوں کو سر سے نکالنے کے لیے سر میں سوراخ کر دینے سے بھی گریز نہ کرتے تھے۔ ہم شاید یونہی سمجھتے رہتے کہ کوڑھ کا مرض آسمانی عذاب یا امتحان ہے لیکن ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے ہمیں اپنے عمل سے بتایا کہ کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا مریض بھی محبت، توجہ اور علاج کا متقاضی ہے۔ یہ عظیم خاتون ہمیں قدرت کی طرف سے تحفے میں ملی تھیں۔ وہ 9 ستمبر 1929ء کو مشرقی جرمنی کے شہر لائپ زش (لائپزگ ) میں پیدا ہوئیں۔

ان کی زندگی الف لیلوی داستان کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے پہلے عشرے میں ہی دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ یہ ہٹلر کا دور تھا، ان کے شہر پر اتحادی فوجوں نے بمباری بھی کی اورجنگ کے بعد مشرقی جرمنی روس کے تسلط میں چلا گیا۔ پھرغذائی بحران ان کا بھائی نگل گیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کے والدین کسی طرح مغربی جرمنی چلے گئے مگر رتھ فاؤ کو تن تنہا جنگلوں سے گزرنا پڑا وہ سرحد پار کرتے ہوئے پکڑی گئیں۔ اس کی سزا موت تھی لیکن ڈیوٹی پر مامور جرمن فوجی نے روسی فوجی کی مخالفت کی اور اس بچی کو سرحد پار کرا دی۔

مغربی جرمنی پہنچ کر رتھ فاؤ نے طب کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران وہ اسیر محبت بھی رہیں۔ خوبصورت اور زندگی سے بھر پور ڈاکٹر رتھ فاؤ کی سوچ تبدیل ہوئی اور انہوں نے راہبہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ جرمنی سے پیرس آئیں اور Daughters of the Heart of Maryتنظیم کا حصہ بن گئیں۔ وہ گائنا کالوجسٹ تھیں اور اس تنظیم کی ہندوستان میں موجود شاخ کو گائنا کالوجسٹ کی ضرورت تھی ان کا انتخاب کیا گیا تو انہیں ہندوستان کا ویزہ نہ ملا۔ وہ اس مقصد کے لیے کراچی آ گئیں جہاں سے ویزہ لے کر انہیں ہندوستان جانا تھا۔ یہ 8 مارچ 1960 کا دن تھا پھر وہ یہیں کی ہو رہیں، کیونکہ میکسکین نن سسٹر برنس وار گس انہیں جذامیوں کی بستی لے گئی تھیں۔ یہ بستی دیکھ کر ڈاکٹر رتھ فاؤ کو مقصد حیات مل گیا پھر وہ آخری سانس تک اسی مقصد سے جڑی رہیں اور 9 اگست 2017ء کو کراچی میں انتقال کر گئیں۔ یوں انسانیت کا درد رکھنے والے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔

پہلے پہل انہیں لوگوں کو سمجھانے میں بہت دقت ہوتی کہ جذام کوئی عذاب نہیں بلکہ بیماری ہے اور علاج سے یہ عذاب ختم ہوجاتا ہے۔ انہوں نے 1963ء میں کراچی میں میری لپریسی سنٹر بنایا اور پھر ان سنٹرز کی تعداد 156 ہو گئی۔ جرمنی جیسے ملک جہاں ہم جانے کی تاک میں رہتے ہیں کو چھوڑ دینے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کے پاس ابتدا میں محض 20 روپے جیب میں تھے۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد کے باعث انہیں حکومتی امداد کی ضرورت تھی، لیکن بعد میں انہیں ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جناح ایوارڈ، ستارہ قائد اعظم اور نشان قائد اعظم دینے والی حکومت نے ان کی مدد نہ کی۔ کراچی کے عوام نے البتہ انہیں امداد دی۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے وہجرمنی گئیں تو جرمن شہریوں نے انہیں ستر لاکھ روپے کا چندہ دیا، یوں یہ نا قابل یقین منزل حاصل ہو گئی۔ 1988ء میں انہیں پاکستانی شہریت بھی دے دی گئی اور 1996ء میں اقوام متحدہ نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک بھی قرار دے دیا۔

اس عظیم خاتون نے پاکستانیوں سے کچھ نہیں لیا۔ وہ جب آئیں تو تیس سال کی تھیں انہوں نے کوڑھی کہلانے والوں کی اپنے ہاتھ سے مرہم پٹی کی اور دوا کھلائی۔ وہ پاکستان کی بہت بڑی محسنہ تھیں۔ ان کی وفات پر انسانیت کا درد رکھنے والے دل اداس ہیں۔ شاید کچھ لوگوں کو افسوس بھی ہو کہ تقریباَ 60 سال تک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہنے والی’’مسلمان‘‘ کیوں نہ ہوئی لیکن ان کا مقصد صحیح معنوں میں بہت بلند تھا۔ یہ مقصد محض ایک لفظ ’’انسانیت‘‘ میں ہی سما سکتا ہے۔ 19 اگست کو ان کی آخری رسومات کراچی میں ادا کی گئیں۔ انہیں گورا قبرستان کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی عظمت کا بیان ممکن نہیں کیونکہ ان جیسے لوگ انسانیت کے معانی ہوا کرتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).