ایک ملک، تین وزیراعظم


کیچوے کے متعلق مشہور ہے کہ اس کے جتنے مرضی ٹکڑے کر لیں، ہر ٹکڑا کیچوا ہی بنتا ہے۔ ہماری سیاست بھی کیچوے کی مانند ہے جتنا مرضی مارو،یہ مرے گی نہیں بلکہ مزید سیاسی ہو جائےگی۔ اب اس سیاسی ہونے کےعمل میں قانون اورۤآئین کا چاہے جنازہ نکل جائے ہماری بلا سے۔ پیپلز پارٹی کے متعلق یونہی نہیں کہا جاتا کہ تم جتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ اب حالیہ مردم شماری نے بھی ثابت کردیا کہ ملک کی آبادی 21 کروڑ ہونے کا اصل راز کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر گھر میں بسنے والا بھٹو ووٹ نون لیگ یا پی ٹی ۤآئی کو ڈال دے یا پھر ڈالے ہی ناں، بھٹو کو بھی بھلا کوئی روک سکتا ہے جیسے مریم بی بی کے متوالوں کو کوئی روک نہیں سکا۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے نوازشریف کو سیاسی طور پر عمر بھر کے لئے نااہل کر دیا لیکن متوالوں کے نزدیک وہ تو بےقصور ہیں، ویسے ہی جیسے بی بی شہید بے قصور تھیں وہ تو تازہ تازہ سینیٹر شپ سے استعفیٰ دے کر رکن سندھ اسمبلی بننے والےسعید غنی صاحب نے توجہ دلائی کہ بابا میاں سایئں جان دو محسن نقوی مرحوم نے یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور والی نظم محترمہ کے لئے لکھی تھی اس کو برائے مہربانی اپنےکھاتے میں مت ڈالیں ورنہ کھاتہ مزید گندہ ہوجائے گا۔ اب جس کے پاس سوشل اور نان سوشل یعنی الیکٹرانک میڈیا تھا وہ نونی تو یہ نعرہ لگانے سے باز آ گئے، باقی بھی شائد وقت کے ساتھ باز آ جائیں، لیکن بعض نہیں آئیں گے توہمارے ہیئر پلانٹیشن والے میاں صاحب، سپریم کورٹ نے انہیں آئین کے آرٹیکل 63 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل کیا ہے لیکن وہ آج بھی ڈی فیکٹو پرائم منسٹر ہیں۔ 28 جولائی کےعدالتی فیصلے کے بعد انہوں نے اپنی ذمہ داریاں چھوڑ دی تھیں لیکن ان کا آج بھی انداز وزیراعظم والا ہی ہے۔ اب کسی کو اچھا لگے یا برا، لیکن سچ تو یہی ہے۔

جی ٹی روڈ پر نواز شریف صاحب نے جو چار روزہ سیاسی چلہ کاٹا، جس طرح سرکاری وسائل استعمال ہوئے اور وفاقی وزرا ہیلپنگ ہینڈز بنے رہے اس سے تو یہی لگ رہا تھا کہ وہ نا اہل نہیں بلکہ اچھے خاصے اہل ہیں۔ میاں صاحب پنجاب ہاؤس سے نکلنے سے پہلے شاہد خاقان عباسی کو حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا چکے تھے اور کابینہ کی صورت میں انہیں سرکاری لائنسس بھی مل چکا تھا لیکن معلوم نہیں وہ وزیراعظم بن کر بھی وزیراعظم لگتے نہیں ہیں وہ تو اس کرسی کو عوام کی نہیں سلسلہ شریفیہ کی دین سمجھتے ہیں شاید اسی لئے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی میں جو پہلی تقریر کی وہ انہوں نے نوازشریف کی تصویر کو ڈائس پر لگا کر کی اور وزیراعظم کے بجائے نااہل ہونے والے وزیراعظم کا متوالا بن کر خطاب کیا۔ جب محبت کا یہ عالم ہو تو پھر بعض اوقات دراز قد افراد بھی بونے بن جاتے ہیں اور عباسی صاحب کا پہلا پندرہواڑہ تو یہی کہانی سنا رہا ہے کہ باقی لیگی رہنماوں کی طرح وہ بھی نواز شریف ہی ہیں اور یہی وہ غلامانہ، تابعدارانہ اور فدویانہ سوچ ہے جس میں نوازشریف بھی وزیراعظم کےعلاوہ خود کو کسی اور کرسی پر بیٹھا دیکھنا نہیں چاہتےہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیزکےعزیز ہم وطنوں کے ہاں تین وزیراعظم ہیں، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، نااہل وزیراعظم محمد نوازشریف اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر۔ مظفر آباد کے وزیراعظم کی سمجھ آتی ہے،اسلام آباد کے وزیر اعظم بھی قابل قبول اوراہل ہیں لیکن رائے ونڈ کے وزیراعظم کی کیا تک ہے انہیں کسی حیثیت میں وزیراعظم کا درجہ دیا جا رہا ہے؟ وفاقی کابینہ کے ارکان ان کے گرد کیوں منڈلاتے رہتےہیں؟ بھلے میاں صاحب آپ نظام، قانون اورآئین بدلنے کی بات کریں، انقلاب لانے کی بات کریں لیکن جاتی امرا کو وزیر اعظم ہاؤس بنانے والوں کے متعلق قوم سوچ رہی ہے کہ جن کے خلاف عوامی انقلاب آ چکا ہے وہ انقلاب کی باتیں آخر کیوں کر رہے ہیں؟

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal