ممتازقادری اور والیان ِحرم


\"usmanسلمان تاثیر ہو یا ممتاز قادری ….  دونوں دھرتی کے بیٹے تھے جنہیں عقیدے کے نام پر نفرت نے موت کی ابدی نیند سلا  دیا۔

ایک نے عقیدے کے نام پر دوسرے کی جان لی تو دوسرا اس کی قیمت کو ادا کرتے ہوئے جان سے گیا۔

ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھا کر انتہا پسندوں نے ایک اور گبھرو جوان کی بلی چڑھا دی، سیاست چمکانے کے لیے ایک اور خودساختہ شہید کا جنازہ پڑھا دیا گیا اور وہ مولوی حنیف قریشی آج بھی آزاد گھوم رہا ہے، جس کے نفرت انگیز خطاب کو سن کر ممتاز قادری اشتعال میں آکر وہ کر بیٹھا جس کی خدا کی بارگاہ میں بھی کوئی معافی نہیں۔

انتہاپسندوں نے جس میں نفرت بھری، ریاست نے اس کو پھانسی پر لٹکا کر گویا یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ انتہاپسندی کے خلاف ہے، ریاست کا یہ بیانیہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، اگر ریاست انتہاپسندی کے خاتمے میں سنجیدہ ہوتی تو مولوی حنیف قریشی اور اس جیسے نفرت کے بیوپاریوں کو ممتاز قادری سے پہلے پھانسی دی جاتی۔

جب تک انتہاپسندی کو فروغ دینے والے کردار زندہ ہیں، چورستوں اور شاہراہوں پر سلمان تاثیروں کو گولیاں ماری جاتی رہیں گی

تاثیر کے خون کی لکیر نے انتہاپسندوں اور روشن ضمیروں کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کردیا، اب کوئی کسی حیلے کی اوٹ نہیں لے سکتا، ململ کے نقاب اتر گئے، کرخت چہرے اور سر تن سے جدا کرنے کی صدائیں بلند کرتی وہ گردنیں جن کی نسیں پھولی ہوئی ہیں، کہنے کو تو اسلام کی علمبردار بنی ہوئی ہیں مگر جناب رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حرف حرف ان انتہاپسندوں کے عقائد کو گمراہ ثابت کررہا ہے

ممتازقادری کی پھانسی پاکستانی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، یہ سکیورٹی   اسٹبلشمنٹ کی انتہاپسندی کے خلاف پالیسی میں  تبدیلی کا بھی ایک واضح اشارہ ہے تاہم انتہاپسندی کی علامتوں کو پھانسی پر لٹکانے سے کچھ نہیں ہوگا، لاؤڈاسپیکر قابو میں لانا ہو گا کہ فضاؤں میں  تیرتی ہوئی اس کی آواز جب ممتازقادری جیسے سادہ لوح جوانوں  کی سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو پھریہ قانون کو ہاتھ میں لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، اسلام کے نام پر اسلامی عقائد اور اصولوں کے خلاف چلے جاتے ہیں۔

انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل نے ابھی کچھ دنوں پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل ضیا الحق کے اثر سے آگے کی دو نسلوں کے ذہن تبدیل ہوئے، ان ذہنوں کو بدلنے میں دس سال کا عرصہ لگے گا، آفتاب سلطان ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں اور ابھی حالیہ دنوں میں ان کے عہدے کی مدت میں توسیع بھی کی گئی ہے، ان کی رائے کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، یہ پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہم آج تک ستر کی دہائی میں ہونےوالے جرائم سے باہر نہیں نکلے اور جب تک ان جرائم کی اصلاح نہیں کی جائے گی، ممتاز قادری پیدا ہوتے رہیں گے

ممتازقادری کو کہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے تو کہیں اس کو شیطان کادوسرا روپ قراردیا جارہا ہےکہ اگر بالفرض سلمان تاثیر نے کوئی گستاخی کی بھی تھی تو قانون رسالت کی موجودگی میں ایک محافظ کی حیثیت سے قانون توڑنے کا کوئی جواز نہیں بنتااور عدالت کے روبرو ممتازقادری کے وکلا ء کی بہترین ٹیم بھی سلمان تاثیر کی گستاخی کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ، یہاں تک کہ 2011کوئی بہت دور نہیں ہے، سلمان تاثیر کی انٹرنیٹ پر تمام وضاحتی ویڈیوزموجودہیں، جن کا کوئی باشعورذہن انکار نہیں کرسکتا ، ان تمام شعوری دلائل کے باوجود ایک بہت بڑا طبقہ  ممتازقادری کی پھانسی کےبعداشتعال کی کیفیت سے دوچار ہے اور اگر کوئی یہاں سوال بھی اٹھائے تو وہ گستاخی کا مرتکب قرارپاتا ہے، یہ انتہاپسندانہ رویہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، شعور ، عدالتیں اور ریاست ایک طرف اور ہمارے معاشرے کے انتہاپسند طبقے کا فیصلہ ان تمام پر حاوی ہونا لمحہ فکریہ ہے، یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ معاشرے پر انتہاپسند قوتیں حاوی ہیں ۔

مفتی تقی عثمانی نے ممتازقادری کے معاملے پر متناقض گفتگو کی، ایک جانب کہا کہ کالاقانون کہنے میں سلمان تاثیر کی نیت مشکوک ہے تودوسری جانب کہا کہ ممتازقادری کی نیت پر نیک گمان رکھا جائے ۔  مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک عجیب منطق پیش کی کہ وہ سلمان تاثیر کی توہین رسالت کے قانون پرتنقید کے مافی الضمیر سے ناواقف ہیں حالانکہ سلمان تاثیر اس مافی الضمیر کے بیان میں یدطولیٰ  رکھتے تھے اور ہمیشہ پوری وضاحت سے ان نکات کو بیان کرتے تھے۔ ایسے میں مفتی صاحب کا ان وضاحتوں سے لاعلمی کا اظہار تجاہل عارفانہ ہے یا وہ واقعی اتنے بے خبر ہیں ، دونوں ہی سنگین باتیں ہیں۔  مفتی تقی عثمانی جس سطح کے عالم ہیں، ان  سے اس قسم کی گفتگو کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔  اس حوالے سے میں اپنی تازہ نظم پر بات ختم کروں گا

فقیہہ شہر لاعلم نکلا

اس گواہی سے

جسے سب نے سنا

اپنے قتل سے پہلے

کوچہ کوچہ

میں نے عشق کی صدا لگائی

نہیں ہوں میں گستاخ

بند کرو یہ تاخ تڑاخ

مگر میرا سچ اور میں

دونوں قتل کردیئے گئے

عشق کا قانون بدل دینا

عاشق ہی کی صدا ہوسکتی ہے

تو پھر یہ کون ہیں

تنے ہوئے چہروں کی یہ فصل

کس نے اگائی؟

فقیہہ شہر سے پوچھو

جب میں اس گناہ کی

وضاحتیں دے رہا تھا

جو میں نے کیا ہی نہ تھا

تو کہاں تھے والیانِ عقیدت

کہتے ہیں کہ میرے قاتل کی نیت نیک تھی

اہل حرم سے کوئی جاکر پوچھے

نیتوں کا حال تو خدا جانتا ہے

اگر قاتل کی نیت ٹھیک تھی

تو میری نیت پر شبہے کا جواز کیا ہے؟

میرے قاتل پر نیک گمان

اور ….

میرے لہو کا کوئی خراج نہیں؟

اے فقیہہ شہر!

نہیں مانتا میں تمہارا انصاف

اب روز حساب فیصلہ ہوگا

دیکھنا!

وہ ذات مری گواہی دے گی

جس کے عشق کے تم نام لیوا ہو

اور کٹہرے میں ہوگا

پورا زمانہ

دیکھنا اس دن تم مرے تیور

میں بدلہ لوں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments