ہمارے مردے اور بے مروت لوگ


صبح سویرے اچانک نئے پڑوسیوں کے گھر سے چیخنے چلانے کی ما بعد الطبیعات قسم کی اوازیں آئیں۔ کوئی خاتون کبھی سریلی کبھی غراغراتی آواز میں آج کے دن کو کوس رہی تھی۔ کہتی رہی مجھے جگایا کیوں جب جگایا تو پھر بتایا کیوں۔

میں ہڑبڑا کر اٹھا، سیدھا دروازے کی جانب دوڑا وائف چلائی قمیض تو پہن لو، ہم نے قمیض پہنی اور پہنچ گئے پڑوسی کے گیٹ پر، دستک دی۔ دروازہ کھولتے ہی ہمارا پڑوسی نہار منہ گٹکہ چباتے ہوئے ہم سے لپٹ گئے، دہاڑیں مار مار کر کہا

”ہائے اللہ گاؤں والی ممانی نیں رہی“

ساتھ ہی کھانسنا شروع کردیا شاید گٹکے کی پیک ان کے حلق سے اتر گئی تھی۔ کھانستے ہوئے ان کے منہ سے لال سرخ باریک باریک بوندوں کی پھوار ہماری قمیض اور چہرے پر پڑی۔ اس جرم کو چھپاتے ہوئے انہوں نے پھر سے ہمیں گلے لگایا اور قدریں نرم روانی سے رونا شروع کردیا۔

اس انداز میں یہ خبر سن کر ہمارے بھی نتھنے پھولنا سمٹنا شروع ہوئے۔ آنکھیں بھی ڈبڈبا گئی، چہرے پر وہ روھنسو ایکسپریشن اگئے جو اسکول کے زمانے میں مار پڑنے سے پہلے آتے تھے۔ تصور میں گاؤں والی اس ممانی کا ایک غائبانہ سا خاکہ بھی ابھرا جس میں ممانی سڈول بدن، کھیتوں میں اپنا پلو لہراتے، چلانگیں مارتے بکریاں ہانک رہی ہے۔ اور آج وہ کوچ کرگئی۔

ہم نے خود کو بہت کنٹرول کیا مگر ناکام رہے لاکھ دبانے کے باوجود بھی ایک ہلکی سے ”بخ“ کر کے آواز ہمارے منہ سے نکل ہی آئی۔ جسے پڑوسی نے سن لیا کیونکہ ہم تاحال گلے لگے ہوئے تھے۔ ہمارے اس بخ کو مزید توانائی دینے کے لئے انہوں نے ممانی کے نام کی ایک اور دہاڑ ماری ” اللہ ممانی ہماری ” جس پر ہمارے دو تین بخ بخ اور بھی نکلے مگر اسٹارٹ نہ ہوئے۔

ہم نے ان کو تسلی دی ” ممانی کے حوالے سے یہ خبر بھی سنا دی کہ بے فکر ہوجائے ممانی اپنی نیک چلن اور پرہیزگاری کی وجہ اس وقت جنت الفردوس کی مکین بن گئی ہوگی۔ آپ بس ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کیجئے۔

آج کل عجب دستور چلا ہے جو جنت اللہ نے اپنے نیک بندوں و پیغمبروں کے لئے بنائی ہے ہم اس میں ایک قسم زبردستی اپنے دنیا جہان کے فراڈئیے اور کرپٹ مرحومین کا دخول بھی چاہتے ہیں۔

جھٹ سے کہہ دیتے ہیں ”اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے“۔ جنت الفردوس میں وہ بھی اعلی مقام؟ شکر ادا کریں قبر جگہ دے رہی ہے۔

دادا جان بتائے کرتے تھے کہ ہمارے زمانے میں گنہگار کو دفنانے کے لئے قبر کنارے بیس لوگوں کو کھانا کھلانا پڑتا۔ تب بھی نا مانتی تو اس جگہ کیکر کا درخت لگانے یا پھر مورچہ بنانے کی دھمکی دیتے۔ اس طرح کی بلیک میلینگ کے بعد ہی قبر مردے کو ہضم کرنے پر راضی ہوجاتی تھی۔

پڑوسی نے ہم سے ملتجیانہ انداز میں کہا ہمارا اس علاقے میں کوئی اپنا نہیں۔ غم کے اس پر مصائب موقع پر آپ کی مدد چاہیے۔ مزید بتایا کہ ہمارے ہاں دستور ہے جیسے آپ لوگوں کے ہاں دور کے ڈول سہانے ہوتے ہیں ویسے ہی ہمارے ہاں دور کی فوتگی سہانی ہوتی ہے۔ ہم بھرپور انداز میں غم کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ نوحے گری کی محفل جمانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کی نظر میں ایسی کوئی خاتون ہو جس نے سو دو سو مردے اٹینڈ کیے ہوں، رونے دھونے کا ماحول جمانے اور گرمانے کا تجربہ رکھتی ہو۔ تو مہربانی فرما کر انھیں ہمارے گھر بھیجیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ممانی کے آخری رسومات دھوم دھام سے ادا ہوجائیں۔
کراچی میں تو ہم کسی ایسی خاتون کو نہ جانتے ہیں نہ دیکھا ہے جو اس ضمن میں کچھ تجربہ رکھتی ہو۔

البتہ ہمارے گاؤں میں ہماری ایک سینہ شکن خالہ گزری ہے۔ دادی بتایا کرتی تھیں کہ وہ جب مردے کے سرہانے بیٹھ کر قبائلی سر میں لمبی تان کھینچ کر اپنا کلام پیش کرتی تو سامعین لواحقین اور خواتین سینہ کوبی کرتے ہوئے لازم مردے کے ہاں سے اپنی دو تین پسلیاں تڑوا کے آتی تھیں۔ ، نوحہ گری کے وہ وہ مرثیے ان کو یاد تھے، جن کے الفاظ کتابوں سے کیا پتھروں سے بھی جھڑ چکے۔

اور جب ان کو محفل جمانے کی منہ مانگی قیمت ملتی تھی۔ تو اس فوتگی میں تو ہاوس فل ہوتا تھا۔ کھڑکی توڑ رش لگ جاتا تھا۔ خواتین اپنے آبا و اجداد کے چھوڑے ہوئے ڈھال سینوں سے باندھ کرجاتی تھیں۔ سروں کو محفوظ رکھنے کے لئے بڑے گول کدو کا ہیلمٹ بنوا کر پہنتی تھی۔ خالہ جان ماحول کو ایسا گرماتیں ایسا گرماتیں کہ مردہ خود اٹھ کر درخواست کرتا ”خدارا کوئی تو روکو اس پگلی کو“ اور پھر ایک گلاس روح افزا پی کر دوبارہ لیٹ جاتا۔

ہماری خالہ جان نے اللہ کے فضل و کرم سے اس فیلڈ میں بہت نام کمایا تھا، آج بھی ان کی لاتعداد شاگردانیاں فاٹا اور ملحقہ علاقہ جات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، مگر خالہ جان جیسا ذوق لگن اور ولولہ کہاںبھائی۔

ہم نے ایک دوست سید خالد شاہ کو ”ضرورت برائے تجربہ کار خاتون جو میتوں کا تجربہ رکھتی ہو“ درکار ہونے کی خبر دی۔ انہوں نے ایک مائی کو بھیجا مگر جب مائی کو یہ معلوم ہوا کہ مردہ یہاں نہیں دوسرے صوبے میں ہے تو فن پیش کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ بتائی کہ جب تک مردہ سامنے نا ہو تو اصلی والی فیل نہیں آتی، الفاظ میں دم اور سینہ کوبی میں دھمک نہیں ہوتی۔

ہائے کراچی کے بدنصیب مردوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).