کیا بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے ؟


ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں سینئر صحافی اور کالم نگار تشریف فرما تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آصف زرداری صاحب اور بلاول کی گذشتہ مشترکہ گفتگو کو آپ کیسے دیکھتے ہیں تو سب نے اپنی اپنی باری پر زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی آخری سانس گنوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس کے لیے سب نے عجب دلیلوں پر اعتقاد کیا۔ مجھے دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ سب لوگ اب بھی پیپلزپارٹی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں اور اب بھی اس کوشش میں ہیں کہ نواز شریف اور زرداری صاحب کبھی بھی قریب نہ آئیں اور ایک ہو کر کوشش نہ کریں۔ اور شاید یہی وہ لوگ ہیں جن کی نواز شریف صاحب سن کر اس حالت تک پہنچے ہیں۔ اور یہ لوگ ابھی تک نواز شریف صاحب اور عمران خان صاحب کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا ووٹ بینک اپنا اپنا ہے آپ لوگوں کو پیپلز پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور پیپلز پارٹی اب ختم ہونے کے قریب ہے۔ اور اب پی ٹی آئی ایک حقیقی اپوزیشن ہے اور پی ٹی آئی کے حامی صحافی و تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک پی ٹی آئی لے چکی ہے۔ اور باقی آدھا اس مرتبہ کے الیکشن میں لے جائے گی۔ چلیں یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ مگر مجھے اصل محاذ پیپلزپارٹی کے خلاف معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ختم ہو جائے اور اس حد تک کہ پاکستان سے ہی ختم ہو جائے۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جو ماضی میں بھی پیپلزپارٹی سے شدید نالاں تھے اور انھیں پیپلزپارٹی والے ایک آنکھ نہ بھاتے تھے اور نہ ہیں۔ اور اسی بات کو شاید یہ لوگ قومی بیانیہ بنانا چاہتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ قدرت نے کس کے لیے کیا لکھا ہے۔

بیانیہ سے یاد آیا کہ آج کل نواز شریف صاحب ایک نیا بیانیہ دے رہے ہیں کہ آئین کو بدلنا ہے۔ دستور کو تبدیل کرنا ہے، نظام کو بدلنا ہے۔ عدلیہ کے پانچ ججز نے انھیں کیوں نکالا۔ کروڑوں نے انھیں ووٹ دیے اور منتخب کیا۔ اور کیا مذاق ہے اس ملک کی عوام کے ساتھ کہ اسی ادارے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست بھی جمع کرواتے ہیں۔ اور ان کے ہم نوا صحافی اور دانشور سپریم کورٹ کو اپنا طرز عمل بدلنے کا کہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ درست کرنے کا کہتے ہیں۔ کیا دہرے معیار ہیں ایک جانب طاہر القادری صاحب کو یہی صحافی و دانشور مشورہ دیتے ہیں کہ عدلیہ کا احترام کریں۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پبلک نہیں ہو سکتی۔ اسی رپورٹ کو پبلک کرنے کی بات کرنا بھی عدلیہ کی توہین ہے اور دوسری جانب نواز شریف صاحب چار روز مسلسل جی ٹی روڈ پر عوام کو عدلیہ کے ان پانچ ججز کے فیصلے کے خلاف اکساتے رہے۔ جناب آپ کے اوپر جو الزامات لگائے گئے ان معاملات کی چھان بین کے دوران آپ کی نئی کمپنی بھی سامنے آئے گی اور آپ کا اقامہ بھی، جو اگر غلطی ہے اور جرم ہے تو آپ کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ اس جرم سے چشم پوشی کرتی اور آپ کو کلین چٹ دے دیتی۔ اور آپ کے ساتھی اور صحافی دوست کہتے ہیں کہ عوام فیصلہ کرے گی تو جناب آپ سب کی خدمت میں عرض ہے کہ اس کروڑوں عوام کے جھگڑوں اور معاملات کا فیصلہ بھی عدالت میں بیٹھے ہوئے ایک یا دو جج ہی کرتے ہیں۔ قتل کے ملزم کو پھانسی کی سزا بھی اسی عدلیہ کے جج ہی سناتے ہیں۔ اگر آپ کا اصول مان لیں تو پھر قتل کے ملزم کے پاس اپنے خلاف گواہوں سے زیادہ گواہیاں ہوں گی بچنے کے لیے، سزائے موت نہ دینے کے لیے۔ تو جناب پھر تو اِن سب کو بے گناہ کہہ کر چھوڑ دینا چاہیے۔ عدالتیں ایسے فیصلے نہیں کرتیں۔ عدالتیں ثبوت، گواہ اور قانون کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ میرے پڑھنے والے اور کچھ دوست یہ کہیں گے کہ جناب گواہیاں ہی تو نہیں تھیں۔ جناب (جے آئی ٹی) کو بنایا ہی اسی لیے تھا۔ اس سے پہلے ایک سال عدالت آپ کو موقع دیتی رہی مگر جواب ندارد تواس وقت آپ کا کسی نے ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ کیا اس وقت آپ کو لب کشائی کی اجازت نہ تھی کہ آپ ان باتوں کا جواب دیتے۔ اس وقت اگر آپ خاموش رہے تو پھر اب گلہ کس بات کا۔ آپ کا کہنا ہے کہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں جانا چاہیے تھا۔ تو جناب والا جب نیب نے بلایا تو آپ اور آپ کے بچوں نے کہا کہ ہم پیش نہیں ہوں گے۔ یہ آپ ٹرائل کورٹ کے ساتھ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ آپ کی سہولت کے لیے چیئرمین نیب نے آپ کی پیشی لاہور کروا دی۔ آپ پھر بھی نہ آئے۔ جناب آپ کن اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کون سے ادارے بنائیں گے جو خود کو تمام اداروں سے بالا تر خیال کرتے ہیں، وہ کیا کام کریں گے؟ جناب عرض یہ ہے کہ آپ کی درخواستیں ضرور سپریم کورٹ میں ہیں مگر سپریم کورٹ نے کسی کارروائی کو روکنے کا حکم تاحال نہیں دیا جو کہ فیصلے کے مطابق چل رہی ہیں۔ تو پھر آپ پر فرض ہے کہ آپ نیب کے سامنے پیش ہوں اور اپنے کیس کا سامنا کریں۔ آپ کی اب بھی یہ کوشش ہے کہ آپ کیس چلنے نہ دیں یا کیس پر اثر انداز ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلط ہے جس کو چھپایا جا رہا ہے۔

آپ بار بار بیانیہ دیتے ہیں کہ نظام نظام جناب اس نظام کو بدلنے کی کوشش پیپلز پارٹی نے کی آپ نے ساتھ نہ دیا۔ اسی 62 اور 63 کو بدلنے کا کہا تو آپ نے ساتھ نہ دیا۔ آپ اور آپ کے ساتھی آج کہتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا اور نواز شریف صاحب نے اس ساتھ دینے سے مقبولیت میں کمی کا سامنا بھی کیا۔ جناب آپ تو الیکشن میں آنا نہیں چاہتے تھے۔ زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور آپ کو 2008 میں الیکشن میں آنے کا نہ صرف کہا بلکہ منایا۔ آپ کے لوگ ،صحافی و دانشور کہتے ہیں کہ محترمہ نے ایک جانب چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کیا اور دوسری جانب NOR کیا۔ جناب محترمہ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ ان کی پارٹی بھی اس پر قائم رہی اور ہے۔ اور جناب NRO کا طعنہ آپ محترمہ کو کس منہ سے دیتے ہیں۔ اگر محترمہ NRO نہ کرتیں تو نواز شریف صاحب پاکستانی سیاست میں 2008 میں نہ ہوتے۔ آپ کے لیڈر اور آج جن کے آپ گن گا رہے ہیں وہ پاکستانی سیاست میں واپس محترمہ اور پیپلزپارٹی کی وجہ سے آئے ہیں۔ جناب آپ قرض دار ہیں محترمہ کے بھی، پیپلزپارٹی کے بھی اور آصف علی زرداری کے بھی۔ اور دھرنے میں جو پیپلزپارٹی نے کیا وہ اضافی ہے۔ آپ کو اب بھی عقل نہیں آ رہی آپ نے ابھی بھی کچھ نہیں سیکھا۔

میری نواز شریف صاحب سے یہ درخواست ہے کہ جناب اداروں کے ساتھ ٹکراو کو چھوڑ دیں۔ آپ کی ضد، اور مزاحمتی سیاست کی عمر جتنی لمبی ہو گی عمران خان صاحب کی سیاسی زندگی اتنی ہی لمبی ہو گی۔ جب آپ ضد، انا پرستی ، مزاحمتی سیاست چھوڑیں اور سیاسی منظر نامہ سے اپنے آپ کو پس پردہ لے جائیں گے تو اسی لمحے سے عمران خان صاحب کی سیاسی زندگی کی موت ہو جائے گی۔ کیونکہ جہاں تک میرا خیال جاتا ہے قومی بیانیہ بدلنا ہی ہے اور نیا بیانیہ تیار کر لیا گیا ہے۔ اسے صرف عوام کے سامنے لانا ہو گا۔ اور عوام کو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کر لیا گیا ہے۔ آپ ٹکراو چاہ رہے ہیں مگر اب یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔ اب بدنامی زیادہ ہو گی اوراس کا عملی مظاہرہ شاہدرہ میں لوگوں کے گو نواز گو کے وہ نعرے ہیں جو لگے۔ اگر بدنامی نہ ہوتی تو لاہور شہر میں آپ 25 سے 30 ہزار کے درمیان لوگ اکٹھے نہ کر پاتے بلکہ لاہور میں حقیقت میں لاکھوں لوگ ہوتے۔ اور میاں صاحب کروڑوں کے ملک میں اتنی قلیل تعداد کے ساتھ انقلاب نہیں آتا۔ اور وہ بھی وہ خطہ جس نے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہا ۔ اور کبھی پلٹ کر وار تک نہ کیا وہ انقلاب لائیں گے۔ جس خطہ میں آرئیں، مغل، لودھی، تاتاری، عرب، ایرانی النسل،افغان، سکندر ِ اعظم کے ساتھ آنے والے لوگوں کی کچھ تعداد جن میں اب کچھ ازبک بھی شامل ہو چکے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب ہے جہاں مختلف النسل لوگ ہوں جن کے قبائل کے اوصاف مختلف ہوں جہاں ہر چندسو کلومیٹر کے بعد زبان بدل جاتی ہو وہ لوگ انقلاب لائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ قائداعظم لے آئے تھے تو جناب وہ ایک نظریہ تھا دو قومی نظریہ۔ یہاں کون سا نظریہ ہے۔ آپ کی حکومت وفاق میں ، آپ کی حکومت صوبے میں۔ آج آپ کی پارٹی کے 57 وزرا اور مشیران ہیں۔ یہ کون سا نظریہ ہے۔ جناب ذاتی نظریہ کوئی نہیں ہوا کرتا۔ آپ اپنے لیے سوچ رہے ہیں، کوئی کیوں آپ کے بارے میں سوچے۔ کوئی کیوں آپ کا بیانیہ مانے۔ آپ کا اصل معرکہ اور لڑائی NA -120 ہے۔ آپ کے بیانیہ کا پول وہاں کھلے گا۔ یہ تو پکا ہے کہ بیگم کلثوم نواز الیکشن جیت جائیں گی۔ مگر حاصل کردہ ووٹ بتائیں گے کہ آپ کا بیانیہ کمزور ہے یا طاقت ور اور عوام نے اس کو کتنا مانا اور بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).