صحافت سے جڑی لڑکی کنواری کیوں رہ جاتی ہے؟


پرانے زمانے میں عورت کا ٹی وی پرآنا بے شرمی اور بے حیائی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور خبر کی دنیا سے وابستہ ہونا کسی جرم اور آوارگی سے کم نہ تھا اور شوبزنس اور جرنلزم کے شعبے کے فرق سے متعلق بھی عوام میں آشنائی نہ تھی یہی وجہ تھی کہ بہت کم خواتین ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں نوکری کی خواہاں ہوتی تھیں اور اگر یہ خواہش ہو بھی تو گھر کے چولہے میں جل کر اسی وقت راکھ ہوجاتی تھی جب میڈیا میں نوکری کی خواہش کا ماں باپ کو علم ہوتا تھا اور وہ لڑکی کی شرافت اور حیا داری کو محض بیٹی کے چار دیواری میں محصور کرکے رکھنے کو سمجھتے تھےاور اس چار دیواری سے باہر نا تو لڑکی جا سکتی تھی اور نہ اس کی سوچ۔

اس وقت میں ایسے خاندان بہت ہی کم تھے جو لڑکی کی تعلیم اور نوکری کے عمل کو جائز اور قابل ستائش عمل سمجھتے تھےاور یہ بات ہے آج سے پچاس سال پہلے کی، جب لڑکی کی تعلیم کے حصول کو بے شرمی اور بے حیائی کا شاخسانہ قرار دے کر اس کی تعلیم کے حصول کی خواہش کو پیروں تلے روند دیاجاتا تھا تو ایسی صورتحال میں ٹیلی ویژن پر آنے کا عمل کس قدر غیظ و غضب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوگا یہ آپ سب کو بہت اچھے سے علم ہوگا، تو یہ کہئے کہ دل کے ارمان آنسووں میں بہہ جاتے تھے اور چند جماعتیں پاس کرنا یا مڈل تک کی تعلیم لڑکی کے لئے کسے نعمت سے کم نہ تھی لیکن اس وقت اتنی جرات اور خود اعتمادی نہیں تھی کہ ایک لڑکی اپنی خواہش کا اظہار برملا کرپاتی اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتی۔

اگر آج کے معاشرے کو دیکھا جائے تو لڑکی پڑھ بھی رہی ہے، پڑھا بھی رہی ہے، جہاز میں اڑتی بھی ہے اور جہاز اڑاتی بھی ہے، مریضہ بھی ہے اور ایک اچھی معالجہ بھی، رائیٹر بھی ہے اور پروڈیوسر بھی، ٹی وی پرآنے والی مہمان بھی ہے اور ٹی وی کے پروگرام کی میزبان بھی، سب بدل گیا، عورت خودمختار ہوگ ئی، این جی اوز بن گئیں اور عورت کو اپنی حفاظت کرنے کا شعور بھی بیدار ہوگیا لیکن اب بھی ہم اور آپ اپنی سوچ کو تبدیل نہ کرسکے، اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی خواہش اور اعتماد کی روشنی لیے جب کوئی لڑکی صحافت کی دنیا میں آتی ہے تو وہ اپنے متسقبل کے لئے بہت پر اعتماد اور پرمسرت ہوتی ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا شعبہ اسے نام و دولت تو دےسکتا ہے لیکن وہ کبھی مکمل عورت نہیں بن سکتی اور اس سے شادی کے لئے آنے والے رشتے کا انکار صرف اس وجہ سے ہو گا کیونکہ وہ میڈیا کی نوکری کررہی ہے، کسی چینل پر پروڈیوسر، رپورٹر یا کاپی رائیٹر ہے تو یقین مانیے اسے بہت دکھ پہنچتا ہے کیونکہ آپ اور ہم مل کر اسے وہ سزا دے رہے ہوتے ہیں جو جرم اس نے کیا ہی نہیں ہوتا۔

میں پوچھتی ہوں صحافت میں لڑکیاں بوڑھی کیوں ہورہی ہیں؟ کیا وہ ناچتی ہیں؟ گاتی ہیں؟ یا ماڈلنگ کرتی ہیں؟ پھر انہیں ایک ماڈل کی نگاہ سے کیوں دیکھ جاتا ہے، صحافت کے شعبے سے وابستہ لڑکیاں یہ سوچ کر ہر گز نہیں آتیں کہ ان کو اس شعبے سے وابستگی کی سزا کنوارپن کی صورت میں ملے گی اور ان کے سر کے بال سفید ہونا شروع ہوجائیں گے ورنہ یقین کیجئے مڈل کیا اپر کلاس کی لڑکی بھی کبھی نہ آئے اس شعبے میں۔

ایک اچھا گھر، بچے اور شوہر کی خواہش ہر لڑکی کرتی ہے جس طرح ایک مرد کرتا ہے، میں نے خود دیکھا ہے ایسے مرد حضرات کو جو خود تو صحافت میں ہیں لیکن صحافی لڑکی سے بل کل شادی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ اچھی نہیں ہوتیں، با حیا نہیں ہوتیں، با کردار نہیں ہوتیں۔ میں پوچھتی ہوں اگر صحافت کا شعبہ اتنا برا ہے تو مرد حضرات خود کیوں اس شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں، اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو، اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کسی مخصوص شخص کے برے عمل سے ہم اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو برا سمجھیں اور لڑکی سے شادی سے انکار صرف اس لئے کریں کیونکہ اس نے جرنلزم کیوں پڑھ لیا اور نوکری کیوں کرلی چینل میں، آج کتنی لڑکیاں بوڑھی ہورہی ہیں ہماری اس ناپاک سوچ سے اور نہ جانے کتنے والدین بیٹیوں کی سفید مانگ سے دلبرداشتہ!

صحافت کرنے کی سزا نہ دیں کسی کی بھی بیٹی کو کیونکہ بیٹیاں بہت انمول ہوتیں ہیں اور سجانے کے لیے نہیں ہوتیں! بیاہنے کے لیے ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).