اچکزئی کا کڑوا سچ، بظاہر زہر لیکن تریاق ہے


کنٹرولڈ جمہوریت، کنٹرولڈ میڈیا، بے وقعت اور پالیسی سازی سے دور پارلیمنٹ، بے توقیر وزیر اعظم، ناپسندیدہ سیاستدان، کرپٹ، بدعنوان اور دنیا جہان کے الزامات کے زد میں پارلیمنٹ ممبران، اگر ان کا بس چلے تو روزانہ پارلیمنٹ کا قادری ملیشا سے گھیرا تنگ کروا دیں، یہ ہے ہماری سویلین حکومت کا چھرا۔ اور پھر شیخ رشید، طاہر القادری، جمیشد دستی سے لے کر چودھری شجاعت، احمد رضا قصوری سے لے کر پرویز مشرف کے نرغے میں آئی سیاست، اور سب کے سب چہیتے یا چہیتوں کے چہیتے، کون کسے کہے، اب بھلا اس دور میں کون ہے جو اس ملک کی جڑوں میں جڑ گئی خرابیوں پر بات کرے اور ان کو آئینہ دکھائے۔

اس ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہم کیوں ترقی کی راہ سے بھٹک گئے ہیں؟ ہم کیوں دوسرے ملکوں سے پیچھے ہیں؟ ہم ساری دنیا میں کیوں اکیلے ہیں؟ کیا ہم نے خیرات پر پلنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے؟ وہ کونسے فیصلے ہیں جن پر عمل کرکے ہم ترقی کی شاہراہ پر آ سکتے ہیں۔ ہم فیصلے کر بھی سکتے ہیں لیکن کون ہمیں روک رہا ہے؟ ہمارے ہاں اصل میں کونسا نظام ہے؟ جسے جمہوری نظام کہتے ہیں اس کا گلہ کون گھونٹ رہا ہے؟ اس سسٹم کو تباہ و برباد کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اس ملک کو تجربات کی لیبارٹری کس نے بنایا ہے؟ سیاست میں ممانعت کے باوجود کون مداخلت کرتا آیا ہے؟ اور کون ہے جو ہر بار یہ عہد کرتا ہے کہ وہ دخل اندازی والا نیک کام کرتا رہے گا؟ اس ملک میں نامعلوم حکومت کس کی ہے؟ اور جو بے اختیار بظاہر اور معلوم حکومت ہے اس کے پاس بیچنے کو کون سا چورن رہ گیا ہے؟ گراتا کون ہے اور حکومتیں بنانے والے کا کوئی نام پتہ؟ وہ کون ہیں یا کون ہے جومنتخب وزرائے اعظم کو اپنی شرائط پر کرسی پر بٹھاتا ہے، پھر ہٹاتا ہے، جیل بھیجتا ہے، جلاوطن کراتا ہے، پھانسی پر چڑھاتا یے اور گاہے قتل بھی کروا دیتا ہے، اور وہ کون ہے جو دہری شہریت رکھنے والے ایک شخص کو ائیرپورٹ پر شناختی کارڈ دے کر سیدھا وزیراعظم ہاوس میں بٹھا دیتا ہے۔

یہ سب سوالات ستر برس سے ہمارے گرد گھومتے اور جوابات کی تلاش میں ہیں، ایسا نہیں کہ ان کے جوابات نہیں، ان کے جوابات بھی ہیں، لیکن کوئی نہیں دیتا، کوئی دینے کی جرات نہیں کرتا، حتیٰ کہ لاکھوں لوگوں کے استقبالیہ جھرمٹ سے نکلنے والے سابق وزیراعظم بھی نہیں۔ ہاں کچھ لوگ ڈھکے چھپے الفاظ میں اب بھی خبردار کرتے چلے آ رہے ہیں کہ ہم کافی نقصان اٹھا چکے مزید نقصانات کے متحمل نہیں ہو سکتے، لیکن مجال ہے کہ ایسی وارننگ کا کسی پر کوئی اثر ہو، وارننگ کا اثر شاید اس لئے نہیں پڑتا کہ ہم میں اس سے زیادہ نقصانات اٹھانے کی ہمت ہے اور اب بھی کافی کچھ بھگتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارا المیہ ہے کہ ہم اب بھی سچ سننے کے لیے تیار نہیں، اگر سن بھی لیں تو اس پر عمل نہ کرنے کی تو قسم اٹھا رکھی ہے، اور یہ بھی کہ ایک کان سے سنو دوسرے سے نکال پھینکو۔ ہم ہر جھوٹ کو بار بار شاید اس لیے بولتے چلے آ رہے ہیں وہ ایک دن سچ ہو جائے گا۔ ہمیں ملک دولخت ہونے کا صدمہ تو ہوا لیکن ہمارا لہجہ نہیں بدلا، اپنی روش نہ بدلنے کی قسم کھا رکھی ہے، ہم ان اسباب کو ختم کرنے کا سوچتے بھی نہیں جس سے ہم نے کافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ہم شاید سوچ رہے ہیں کہ ہم خسارے میں نہیں منافع میں چل رہے ہیں اس لیے اپنی غلطیوں پر نہ پچھتاوا ہے اور نہ غلطیاں دہرانے سے گریز کا ارادہ کیا ہے۔

اصغر خان کی کتاب ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا کتاب پڑھنےکے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم نے تاریخ کے سبق سے سیکھا تو کجا لیکن ہم نے تاریخ سے الٹا سبق سیکھنے کی ٹھان رکھی ہے۔  یہ بحث الگ ہے کہ اصغر خان ایک فوجی آمر کے ہاتھوں کس طرح استعمال ہوکر تاریخ کے ڈسٹ بن میں چلے گئے، لیکن یہ سچ ہے کہ ہم نے نہ کچھ سیکھا نہ کچھ سیکھنے کا ارادہ ہے۔

اصغر خان سے یاد آیا اب تو اصغر خان کیس کا فیصلہ بھی کسی ردی کی ٹوکری میں جا کر گل سڑ گیا ہے، اسٹیل ملز کرپشن کیس سے لے کر این آر او کیس میں عملدرآمد بئنچ بنا کر یوسف رضا گیلانی کو ملتان کا راستہ دکھانے والےپاور فل جج افتخار چودھری کے پر جل کر راکھ ہو گئے شاید اس لیے تو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل نہیں کروا سکے، ایک چودھری نے فیصلہ دیا، دوسرے چودھری نے اس فیصلے کو پاؤں کے نیچے مسل دیا، اپنے منہ اور خود ساختہ بااصول ایک اور چودھری سابقہ وزیر داخلہ چودھری نثار علی جسے ہمارے ایک دوست چوئی صاحب لکھتے ہیںِ اس فیصلہ پر چڑہ کے بیٹھ ہی گئے، ان کے ایک دو تگڑے بیان آئے، تحقیقات کا حکم آیا اس پر ایک ٹیم بنی لیکن پھر وہ ٹیم ایسی بیٹھی کہ کبھی اٹھ نہیں پائی۔

سویلین بالادستی، پارلیمنٹ کے کردار، آئین پرعملدرآمد، قانون کی حکمرانی اور اداروں کے مابین اختیارات کی جنگ کے خاتمے کے نام پر سینیٹ آف پاکستان میں چئرمین میاں رضا ربانی نے ایک ڈائیلاگ کی بات کی ہے، یہ سب ٹھیک لیکن ہمارے سیاستدان بھی تو سب کچھ اچھا نہیں کرتے، وہ پارلیمنٹ کے استحکام پر زور ضرور دیتے ہیں لیکن اقتدار ملتے سب کچھ بھول جاتے ہیں، وہ کرسی ملنے کے بعد عوام سےکٹ کر ایوانوں میں چھپ جاتے ہیں، پھر پروٹوکول اور سیکیورٹی کی علت میں پڑجاتے ہیں، عوام سے رابطہ ختم پھر وہ بابو بیوروکریٹس کی کانا پھوسی پر چلتے الٹے سیدھے بیانات دے کر عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں، وہ ناقابل اعتبار اداروں کی ناقابل اعتبار رپورٹس پر چلتے چلتے اپنی ساکھ گرا دیتے ہیں، اقتدار کی کرسی سے چمٹ کر وہ ہر دن کو اقتدار کا آخری دن سمجھ کر وہ کچھ کر گذرتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیے۔ پھر پارلیمنٹ کو بھی تو کچھ نہیں سمجھتے، پارلیمنٹ کی ان کے آّگے کیا حیثیت رہتی ہے اس کا ثبوت پچھلے اور آج کے وزیراعظم کی حاضری سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اب تو آئینہ دکھانے پر اس نظام کو بگاڑنے والے نالاں ہوجاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ اپنی بات کر ہی دیتے ہیں، میاں رضا ربانی ہوں، امتیاز عالم ہوں، عاصمہ جہانگیر ہوں، عابد منٹو ہوں، اسفند یار ولی ہوں، غلام احمد بلور ہوں، محمد حنیف ہوں، آئی اے رحمان ہوں یا محمد خان اچکزئی ہوں، قومی اسمبلی میں انتخابی قوانین پر محمود خان اچکزئی نے جو کچھ کہا وہ کڑوا سچ ضرور ہے لیکن وہ ملک کی بہتری کو جانے والا واحد راستہ ہے۔

اچکزئی کی باتیں مقتدر قوتوں اصلی تے وڈی سرکار کو زہر لگتی ہیں، جمہوریت کے چیمپپن اور فوجی گملوں میں پلے کچھ لوگوں کو وہ باتیں ناپسند ہیں اس لیے تو اچکزئی جیسے لوگوں کے لیے غداری کے سرٹیفکیٹ بازار سے بارعایت دستیاب ہیں۔ لیکن دانستہ غلطیوں سے پرہیز ہی میں ملک کی بھلائی ہے، جب تک معاملات جوں کے توں چلتے رہیں گے ہم سب اور ہمارا ملک منیر نیازی کے بقول ایک اور دریا کے سامنے ہوں گے ایک دریا سے اتر کر ہم دیکھتے رہیں گے۔

محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ہم میں سے پاکستان کے بنیادی مسئلے کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھاتا، پاکستان میں کبھی شفاف اور غیرجابندار انتخابات نہیں ہوئے، ہم پارلیمنٹ ممبران اور سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی کے لئے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے، اس لیے تو اٹھارہ وزرائے اعظم کو چلتا کیا گیا۔ انہوں نے سوال پوچھا ہے کہ کیا پارلیمنٹ محض آمروں اور جنرلوں کو استثنیٰ دینے کے لیے ہے؟

یہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ سیاستدان پیدا کرتے ہیں، پھر ان کو کرپٹ کرتے ہیں، اگلے مرحلے میں ان کی فائلیں بنتی ہیں، پھر انہیں پارلیمنٹ میں بھیجا جاتا ہے، جہاں ان فائلوں کی مدد سے ان کو بلیک میل کرکے ان سے اپنی مرضی کے کام لیے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آئین کہتا ہے کہ حساس اداروں کا پارلیمنٹ میں کوئی کردار نہیں اس لیے تمام جماعتیں یہ عہد کریں کہ جو بھی بندہ حساس اداروں سے ملے گا اسے سیاست سے آؤٹ کیا جائے گا، ان کا آرمی چیف سے مطالبہ تھا کہ اپنے حساس اداروں کو منع کردے کہ سیاستدانوں کو نہیں بلایا جائے۔

انتخابات میں دھاندلی پر ان کا ایوان میں کہنا تھا کہ جو ماضی میں دھاندلی کرتے چلے آ رہے ہیں ان کو آخر کون سی طاقت روکے گی؟ اصلی اور حقیقی سیاسی جماعتوں کو روک کر دو نمبر لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے، امریکا، برطانیہ، فرانس تمام ملکوں کی فوجیں ہم سے زیادہ طاقتور ہیں لیکن فیصلے پارلیمنٹ سے ہوتے ہیں، اگر پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو ملک میں انتخابات بھی شفاف ہوں گے اگر نہیں تو ان کو دھاندلی سے نہیں روکا جا سکتا، انہوں نے اپیل کی ہے کہ اگر نواز شریف اب سب کچھ سمجھ کر پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بات کر رہا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو ان کا ساتھ دینا چاھیے۔ یہ چیدہ چیدہ باتیں کڑوا سچ ہیں، لیکن پارلیمنٹ گیلری میں بیٹھے ہم کچھ صحافی ہی محمود خان اچکزئی کی باتیں نوٹ کرکےاپنےاخبارات کو بھیجتے ہیں، ملک کے بڑے ٹی وی چئنلز ان کی خبر کو نشر نہیں کرتے، کئی صحافی ان کی باتوں پر ھنستے ہیں، یہ سب باتیں ان کو فضول سی لگتی ہیں، کیوں کہ وہ بھی اچکزئی کو ملک دشمن سمجھتے ہیں، لیکن چند لوگ مانتے ہیں کہ ملک کومصائب اور مشکلات سے نکالنے کے لئے اچکزئی اور ان کے ہم خیال لوگوں کی باتوں پر دھیان دینا پڑے گا۔ ورنہ ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar