پردیس میں پہلا سورج گرہن اور ایک دیس کا واقعہ


1999 کا برس تھا، اگست کی گیارہ تاریخ کو پاکستان میں سورج گرہن لگا۔ کراچی میں پورا گرہن دیکھا گیا جب کہ لاہور اور مضافات میں جزوی سورج گرہن تھا۔ پہلی دفعہ پی ٹی وی اور اخبارات میں اس کی دھوم دیکھی۔ بار بار کہا جارہا تھا کہ سورج کی طرف دیکھنے سے بینائی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ بڑی تفصیل سے سورج گرہن کے موقع پہ پیدا ہونے والی شعاؤں کا بتایا جا رہا تھا۔ اس زمانے میں تو گویا یہ سب کچھ ازبر ہوچکا تھا۔

پی ٹی وی پر عراق پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے جو المیے جنم لیتے تھے ان پر اس زمانے میں وقفے وقفے سے خبریں آتی رہتی تھیں۔ ایک خبر یہ بھی آئی کہ عراق میں لوگ عالمی پابندیوں کی وجہ سے سورج گرہن دیکھنے کے خاص سیاہ چشمے نہیں خرید سکتے تو اپنی عینکوں کو سیاہ دھوئیں سے کالا کر کے دیکھنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس پر رپورٹ میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ طبی ماہرین کے مطابق ایسی عینکیں سورج گرہن سے پیدا ہونے والی خطرناک شعاؤں سے آنکھوں کو ہونے والے نقصان سے بچانے سے محروم ہیں لہٰذا عالمی ماہرین کا کہنا تھا کہ عراقی عوام ایسی عینکیں نہ پہنیں۔ کہنے کا مطلب ہیں کہ ایسی بہت سے خبروں اور تجزیوں کی وجہ سے پہلی دفعہ اخباروں اور ٹی وی کے پیدا کردہ شور میں سورج گرہن کے مشاہدے کا موقع مل رہا تھا اور جیسے جیسے گیارہ اگست قریب آتا جا رہا تھا اشتیاق بھی بڑھتا جا رہا تھا۔

اسی برس کے شروع میں تایا ابو کا انتقال ہوا تو زمینوں کی دیکھ بھال اور گاؤں میں دادو کے ساتھ رہنے کی ذمے داری والد صاحب پر آگئی۔ دادو اپنے لاڈلے ترین بیٹے کی وفات سے بے حال تھیں اور والد صاحب اس نئی افتاد پہ۔ والد صاحب نے پچھلے دو عشروں میں پراپرٹی ڈیلری اور کچھ چھوٹے موٹے کاروبار سے رزق کمایا تھا۔ اسی کی دہائی میں ڈھول سپاہیوں نے لاہور کی زمینوں میں سونے کی کانیں دریافت کیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈی ایچ اے بن گیا۔ ساتھ ہی ستر کی دہائی میں پردیس جا کر محنت کی بھٹی میں جسموں کو خاک کرنے والوں نے جب دیس میں رہنے والوں کے ارمانوں کو دیناروں، درہموں، ریالوں اور ڈالروں کی صورت میں بھیجنا شروع کیا تو صنعتوں سے محروم منڈی میں سرمایہ زمینوں پہ لگنا شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں میں مزید تفریق پیدا ہوگئی، مہنگی زمینوں پر سیدھی اور کشادہ سڑکوں والے اور آڑھی ترچھی گلیوں میں ایسے ہی ٹیڑھے میڑھے مکانوں والے مزید دور ہوگئے۔ اس چلتی منڈی میں اکثر غیر ہنرمند نوجوانوں کی طرح والد صاحب بھی زمینوں کی خرید و فروخت کے کاروبار میں لگ گئے۔ تایا ابو کی وفات کے بعد جب زمین ان کی نگرانی میں آئی تو ساری زندگی لاہور میں پلاٹوں کی خرید و فروخت کرنے والے کو اب زرعی زمین کی دیکھ بھال اور فصلوں کی بجائی کا کام کرنا تھا۔ ایسے میں جس بات کی توقع کی جاسکتی تھی وہی ہوئی۔ بہرحال جیسے پردیس میں آج کل بدیسی کھانے جیسے میں زہر مار کر رہا ہوں ویسے ہی والد صاحب اس اجنبی کام ک اتنی ہی بے دلی سے سر انجام دے رہے تھے۔ ماں کی ذمہ داری بھی ساتھ ساتھ تھی سو ایک ٹانگ لاہور تو دوسری گاؤں تھی۔

گھر کا سارا نظام الٹا پڑا تھا۔ والدہ قریب ہی ایک ہوسٹل میں رئیس زادوں کو ٹیوشنیں پڑھا کر خرچہ چلا رہی تھیں۔ میٹرک کے بعد ہی سے دونوں بڑے بھائی بھی نوکریاں کر کے والدہ کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ گھر پر تین مسکٹئرز یعنی میں، مینا میری بڑی بہن اور چھوٹا بھائی مصعد ہوا کرتے تھے۔

سورج گرہن والا دن آیا تو ہم گھر پر اکیلے تھے۔ دوپہر ہوچکی تھی، سورج گرہن والے چشمے تو خیر ہمیں کہاں ملنے تھے  سو دیکھنے کا کوئی طریقہ معلوم نہیں تھا۔ صبح صبح دادو نے ابا جی کو جلدی سے روانہ کیا کہ گھر پر بچے اکیلے ہیں۔ ضرور سورج کو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کو خراب کر لیں گے۔ گاؤں اگرچہ لاہور سے محض ستر کلومیٹر دور ہے مگر ان دنوں میں ابھی ٹویوٹا بسیں ہی چلتی تھیں۔ صبح صبح کے نکلے، (ویسے ابا جی کی صبح کوئی اتنی جلدی نہیں ہوتی تھی) والد صاحب دوپہر دو بجے جب گھر میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میں باقی دونوں احمقوں کو اپنے گرد جمع کئے ہوئے بالٹی میں پانی جمع کر کے اس میں سورج گرہن کا عکس دکھا رہا تھا!

آج جب سورج گرہن دیکھا تو یہ واقعہ لمحوں میں ذہن میں گھوم گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).