آزادی ٹرین جیکب آباد سے کوئٹہ تک


ایک گھنٹے کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور ٹرین نے شکار پور کے اسٹیشن کو چھوڑا اور اپنی اگلی منزل جیکب آباد کے لئے روانہ ہوئی۔ راستے میں معتدد کچی آبادیاں بھی نظر آئیں جن میں ایک قدر مشترک تھی کہ ہر گھر کی چھت پرمختلف سمتوں کی طرف رخ کیے ہوئے دو یا تین ڈش انٹینا جو یہ ظاہر کرتی تھیں کہ کیبل کنیکشن کی عدم موجودگی میں بھی علاقے کے لوگ عالمی وملکی منظر نامے سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے چھت پر ڈش انٹینا کی تعداد میں اضافہ ہی کرنا پڑے۔ اس دوران دوایسے اسٹیشن بھی گزرے جن کے نام تھے ’’ آباد ‘‘ اور ’’ ہمایوں ‘‘اور مجھے یاد آ گیا ریلوے ٹائم ٹیبل جس میں انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے ریلوے اسٹیشنوں کے ناموں کی فہرست میں سر فہرست نام ’’ آباد‘‘ ریلوے اسٹیشن کا لکھا ہوا ہے۔ خدا جانے اس کو کس نے آباد کیا اور کیوں اس کانام ’’ آباد ‘‘ پڑا اور پھر وہ ’’ ہمایوں ‘‘ کون تھا جس کے نام پر ریلوے اسٹیشن کا نام ’’ ہمایوں ‘‘ رکھا گیا تاریخ بھی اس بارے میں خاموش ہے۔ اور پھر دن کے ساڑھے گیارہ بجے ہم جیکب آباد پہنچ گئے۔ بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ جیکب آباداورسبی کا شمار پاکستان کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ اور اس دن اس فقرے کی صداقت کا یقین جیکب آباد پہنچ کر ہوا۔ قیام پاکستان سے ٹھیک ایک سو سال قبل یعنی 1847؁ جیکب آباد کا نام خان گڑھ تھاجو بد امنی کا اور لا قانونیت کا گڑھ تھا۔ انگریز سرکارنے علاقے میں امن وامان کے قیام کے لیے وہاں جنرل جان جیک اب کو بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیا۔ جو فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ کمال کے انجینئر اور موجد بھی تھے انہوں نے جیکب آباد میں اپنے قیام کے دوران ایک گھڑی بنائی جو دن کے ساتھ ساتھ قمری اور عیسوی تاریخ بھی بتاتی تھی جو جیکب آباد کے ڈی سی کی رہائش گاہ میں آج بھی وقت کی ساعت بتاتی ہے اس رہائش گا ہ کا نقشہ بھی جنرل جان جیکب نے خود بنایا ہے لیکن افسوس کہ جان جیکب جوان عمری میں ہی صرف چھتیس سال کی عمر میں 5دسمبر 1857؁ کو چل بسے۔ اور جیکب آباد میں ہی مدفون ہیں۔

ایک روایت کے مطابق ان کی آخری رسوما ت میں کوئی دس ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے اور یوں خان گڑھ کا نام جیکب آباد میں تبدیل کر دیا گیا۔ میں حیران تھا کہ لوگ جیکب آباد کے اسٹیشن پر قائم ٹی اسٹا ل سے دھڑا دھڑ چائے پی رہے تھے یعنی گرمی کی شدت کو گرم چائے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی یہ اور بات ہے کہ جس ریلوے اسٹیشن پر موجود چائے خانے سے گرم چائے کی صدا نہ آئے تو ریلوے اسٹیشن ہی معلوم نہیں ہوتا۔ اور اب ٹی بیگ اور خشک دودھ کی بدولت چائے کا معیار بھی بہترہو گیا ہے۔ اسی طرح ٹرین کے اندر بالٹیوں میں برف میں لگی یخ بستہ سوڈا واٹر کی بوتلوں کو بیچنے والے جب بوتل کھولنے والی چابی سے ٹکراتے ہوئے ٹھنڈی بوتل ٹھنڈی بوتل کی صدا لگاتے ہیں تو وہ صدا بھی اپنا ایک الگ ہی مزا دیتی ہے۔ خیر دن کا ڈیڑھ بج چکا تھا جب آزادی ٹرین جیکب آباد سے روانہ ہوئی اور اسٹیشن کی عمار ت سرکتے سرکتے پیچھے نکل گئی۔ اور اب ہماری آزادی ٹرین وادی مہران یعنی سندھ کو الوداع کہتے ہوئے وادی بولان یعنی بلوچستان میں داخل ہو رہی تھی۔ اور وادی بولان میں ہمارا پہلا پڑاؤ سہ پہر تین بجے ڈیرہ مراد جمالی ریلوے اسٹیشن پر ہونا تھا۔ لیکن اس سے قبل آزادی ٹرین بلوچستان کی حدود میں قائم پہلے ریلوے اسٹیشن ڈیرہ ا اللہ یار کچھ دیر کے لیے بغیر شیڈول کے رکی۔ تو معلوم ہوا کہ بلوچستان کے حالات کے پیش نظر اب آزادی ٹرین کے آگے ایک پائلٹ انجن چلایا جائے گا جو راستے کی کلیئر نس دے گاتو ہماری آزدی ٹرین آگے روانہ ہو گی۔

بلوچستان میں داخل ہوتے ہی ٹرین کے اندر تبدیلی یہ آئی کہ سکھر ڈویژن کی ریلوے پولیس کی بجائے کوئٹہ ڈویژن کی ریلوے پولیس اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے جوانوں نے ٹرین کی حفاظت کے لیے پوزیشن سمبھال لی سچ پوچھیں تو بلوچستان میں دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کی سر کوبی کرنے اور ان کا قلع قمع کرنے میں ایف سی کا بہت اہم کردار ہے۔ بلوچستان میں امن وامان کے حالات کے پیش نظر رات کو ریل کی ٹریفک روک دی جاتی ہے۔ اور محکمہ ریلوے نے کچھ اس طرح ریلوے کا نظام الاوقات ترتیب دیا ہوا ہے کہ بلوچستان کی حدو د میں ریل گاڑیاں صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک سفر کرتی ہیں۔ اور اب ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کوئٹہ تک قومی شاہرہ پر ایف سی کی اینٹی ائر کرافٹ گن سے لیس دو گاڑیاں بھی ہماری حفاظت کے لیے ہمسفر تھیں۔ ڈیرہ ا اللہ یار بلوچستان کا پہلا اسٹیشن تھا جہاں آزادی ٹرین کچھ دیر کے لیے رکی جہاں عوام کی کثیر تعداد نے پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ہمارا استقبال کیا۔ اور پھر سہ پہر تین بجے ہم ڈیرہ مراد جمالی جا پہنچے۔ جس کا قدیم نقشوں میں نام ڈیرہ ٹیمپل لکھا ہوا ہے۔ اس سے پہلے راستے میں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن ’’منگولی ‘‘کے نام سے گزرا۔ ہو سکتاہے کہ کبھی یہاں سے منگول خاندان کے حکمران کا گزر ہوا ہوجس کے باعث اس جگہ کا نام ’’منگولی ‘‘پڑ گیا۔ بلوچستان میں زیادہ تر شہروں کے نام یا تو ڈیرہ سے شروع ہوتے ہیں یا انگریزوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ بالکل جس طرح سندھ کے کچھ شہروں کے نام’’ ٹندو‘‘ سے شروع ہوتے ہیں۔

ڈیرہ مراد جمالی میں ہماری ملاقات ایف سی کے کپتان بشارت سے ہوئی جو اس دن اپنی فورس کے ساتھ آزادی ٹرین اور ریلوے اسٹیشن کی حفاظت کے لیے موجود تھے۔ بشارت صاحب بتا رہے تھے کہ کس طرح بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں اور پہاڑی سلسلوں میں ایف سی کی پے در پے کامیاب کاروایوں کے باعث فراری کیمپوں کا خاتمہ ممکن ہوا ہے۔ آزادی ٹرین کے استقبال کے لیے ڈیرہ مراد جمالی کے اسٹیشن کو پاکستانی پرچم والی جھنڈیوں سے بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ اسٹیشن پر ایک بہت بڑا بینر نمایا ں طور پر آویزاں تھا جس پر علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ ساتھ ’’دل دل پاکستان ‘‘ اور ’’ جشن آزادی مبارک ‘‘ کے سلوگن تحریر تھے۔ ڈیرہ مراد جمالی ایک گھنٹہ رکنے کے بعد ہماری ریل بلوچستان کے چٹیل میدان میں دوڑنے لگی۔ اور یہ وہی علاقہ تھا جہاں آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل سے ایک ماہ کے قلیل عرصے میں اسّی کلو میٹر ریلوے لائن بچھا دی گئی تھی۔ شام پانچ بجے ہم بختیار آباد ڈومکی پہنچ گئے۔ ریلوے اسٹیشن کی قدیم عمارت ذبو حالی کا شکار تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب یہاں بہت کم ریل گاڑیاں رکتی ہیں اور مسافروں کی آمد و رفت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہر حال اسٹیشن کا نام بڑا دلچسپ تھا جو پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس دن کوشش کے باوجود کوئی بھی اس نام کا وجہ تسمیہ نہ بتا پایا اور انٹر نیٹ پر گوگل بھی اس سلسلے میں تفصیل فراہم کرنے سے قاصر تھا۔ ایک گھنٹے کے قیام کے بعد اس دن کی اپنی آخری منزل سّبی کے لیے شام چھ بجے بختیا رآباد ڈومکی سے روانہ ہوئے ا ورغروب آفتاب کا حسین منظر ہم نے بلوچستان کے چٹیل میدان میں دور تک اور بڑی دیر تک دیکھا۔ اس دوران دو اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آئے جن کے نام بھی اتنے ہی مختصر اور خوبصورت تھے۔ یعنی لِنڈ سے (LINDSEY) اور نوٹال (NUTALL)۔ اب خدا جانے کہ کیا کسی فرد کے نام تھے یا کسی اور چیز کے۔ اورپھر شام ساڑھے سات بجے ہم سّبی پہنچ گئے۔ سّبی کا قدیم نام سنڈیمن آباد تھا۔ لیکن وہ زبان زد عام نہ ہو سکا اور پھر مختصر ترین نا م سّبی مشہور ہو گیا۔

اگست میں عموماً موسم گرم اور حبس زدہ ہوتا ہے لیکن اس رات سّبی میں یکا یک بادل آئے گرج چمک ہوئی اور پھر ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی جس سے موسم قدرے خوشگوار ہو گیا۔ سّبی ریلوے اسٹیشن کی حفاظت کے لیے مرکزی گزرگاہ پر ایف سی کی ایک مستقل چیک پوسٹ بھی قائم تھی اس کے علاوہ اسٹیشن کے پل پر بھی ایف سی کے جوان مورچہ جمائے مستعدی سے ڈیوٹی دے رہے تھے تاکہ اسٹیشن کے حفاظت میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ سّبی ریلوے اسٹیشن پر انتہائی خوبصورت اور بلند و بالا مینار کی حامل مسجد بھی قائم ہے۔ اور جب رات کے اندھیرے بجلی چمکتی تھی توا س مسجد کے مینا ر کی خوبصورتی اور بھی دوبالا ہو جاتی تھی۔ اب ہم نے رات سّبی میں بسر کرنا تھی۔ سّبی میں ٹرین میں پانی بھرنے کا اس رات مناسب انتظام نہ ہو سکاتو فائر برگیڈ کی سرخ گاڑی پلیٹ فارم پر آئی اور اس کے ذریعے ٹرین میں پانی بھرا گیا۔ سبّی میں شب بسری کے بعد اگلے دن علی الصبح جب آنکھ کھلی تو صبح کے چھ بجے تھے اور ڈائیننگ کار میں ناشتے کا آغاز صبح آٹھ بجے ہونا تھا۔ نہار منہ چائے کی شدید طلب ہوئی لہذا ارادہ کیا کہ سبّی اسٹیشن سے باہر نکلا جائے اور کسی ڈھابے سے چائے پی جائے۔ ٹرین سے جونہی اسٹیشن پر قدم رکھا تو محسوس ہوا کہ رات کی جھڑی نے سب کچھ دھو دھلا کر صاف ستھرا کر دیا ہے۔ سبّی اسٹیشن کے بالکل سامنے ایک گول گراؤنڈ ہے جس میں پاک فضائیہ کا ایک مشاق طیارہ 2004؁ میں اس انداز میں نصب کیا گیا تھا کہ جیسے اڑان کے لیے تیار ہو۔ اس صبح رات کی بارش کے باعث اس طیارے کی چمک دمک میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ اسٹیشن کے بالکل سامنے قائم ڈھابے سے صبح سویرے جزوی ابر آلود مطلع تلے رات کی بارش کے باعث گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو میں جو لطف چائے پینے کا آیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ شیڈول کے مطابق ٹرین نے سبّی سے اپنی اگلی منزل آب گم کے لیے صبح سات بجے روانہ ہونا تھا چونکہ اب سارا سفر چڑھائی کی جانب تھا لہذا ٹرین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کے آگے اور پیچھے دو انجن لگائے گئے اور طے یہ پایا کہ پہلے ٹرین کامسافر اور ڈائیننگ کار والا حصہ روانہ ہوا اور پھر آدھ گھنٹے کے وقفے کے بعد آرٹ گیلریز اور فلوٹس والا حصہ روانہ ہو گا۔ لہذا ہماری ٹرین کے سفر کا آغاز آب گم کے لیے صبح آٹھ بجے ہی ہوا۔

سبّی سے کوئٹہ کے دوران جتنے بھی ریلوے اسٹیشن آئے سب میں چند باتیں مشترک تھیں۔ مثلاً وہی چھوٹا سا ا سٹیشن وی انگریزوں کے زمانے کی عمارات وہی پرانے درخت سامنے کچھ اونچی چوٹیاں اور ڈھلانوں پر آباد بستیاں یعنی ایک مخصوص مگر دلفریب اور خوشگوار ماحول اس دن آب گم سے قبل ہمار ی ٹرین ایک چھوٹے مگر خوبصورت اسٹیشن ’’ پنیر‘‘ پر بھی بغیر شیڈول کے رکی وہاں ہم سب اترے پاکستان کا جھنڈا لہرایا پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اس اسٹیشن کے عملے نے قدیم زمانے سے لگے ہوئے وہ بھاری بھر کم آہنی آلات دکھائے جن سے پتہ چلتا ہے کہ کونسی گاڑی پچھلے اسٹیشن سے نکل چکی ہے اور کونسی ٹرین اگلے اسٹیشن بخیر و عافیت پہنچ چکی ہے۔ کس ڈرائیور نے کونسا گولا پھینکا ہے اور آگے جانے والے ڈرائیور کو کونسا نمبر دینا ہے ریلوے کے عملے کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اگر ان آلات اور نظام کو سمجھداری سے چلایا جائے تو ریل گاڑیوں کی ٹکر ہو ہی نہیں سکتی یہ اور بات ہے کہ آئے دن ٹرینوں کے پٹڑی سے اترنے کے واقعات جنم لیتے رہتے ہیں لیکن اس میں ان آلات اور نظام کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ یاد آیا کہ ’’ پنیر ‘ ‘ سے قبل ٹرین ’’ مشکاف‘‘ نامی ایک چھوٹے سے اسٹیشن سے بھی گزری۔ ریلوے کے قدیم لٹریچر میں لکھا ہے کہ کوئٹہ مشکاف تک ریلوے لائن اٹھارہ سو نو ے میں مکمل ہوئی اور مشکاف بولان روٹ کے پہاڑوں میں جو سرنگیں کاٹی گئیں ہیں وہ خوب چوڑی ہیں اور ان کے اندر دوہری ریلوے لائن کی گنجائش ابھی تک موجود ہے۔ ایک اور چھوٹا سا اسٹیشن ’’ اوسے پور ‘‘ کے نام کا آیا۔ یہ اسٹیشن اتنا چھوٹا اس کا نام ریلوے ٹائم ٹیبل میں ڈھونڈنے میں بھی نہ ملا اور پھر بالاخر صبح نو بجے ہم آب گم پہنچ ہی گئے۔

آب گم اسٹیشن پر موجود پانی ذخیرہ کرنے والی بڑے بڑے پتھروں سے تعمیر کی گئی ٹینکی پر (ABIGUM۔ 1894) لکھا ہوا تھا۔ اس دن ٹرین کو دیکھنے کے لیے آس پاس کی آبادیوں کے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ انہیں میں سے ایک بزرگ سے میں نے پوچھا کہ ’’ آب گم ‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ پشتو لہجے میں اس کا کہنا تھا۔ کہ یہاں اوپر پہاڑوں سے پانی آتا ہے۔ اور ادھر آ کے گم ہو جاتا ہے ’’ آب گم ‘‘ یعنی پانی گم ہو گیا۔ جبکہ معررف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی نے کہیں لکھا تھا کہ آب گم پہنچ کر دریا کا پانی ریت میں جذب ہو جاتا ہے اور کچھ دور جا کر نمودار ہوتا ہے۔ بہرحال خوبصورت اسٹیشن کے خوش اخلاق لوگوں نے بڑی زندہ دلی سے آزادی ٹرین کا استقبال کیا۔ پنجاب اور سندھ میں ریل کے سفر کے برعکس بلوچستان میں خصوصاً سبّی سے کوئٹہ کے درمیان ہمارے سفر میں لاتعداد سرنگیں آئیں اور ہماری ٹرین ان سرنگوں سے یوں گزر رہی تھی کہ جیسے دھاگے والی سوئی کپڑے سے گذاری جا رہی ہو۔ بل کھاتی ریل کی پٹڑی دریائے بولان اور قومی شاہرہ پہلو بہ پہلو ہمسفر تھے اور شاید ریل گاڑی نے خشک دریائے بولان کو دس مرتبہ پار کیا لیکن درہ بولان کے پہاڑ تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ چڑھائی پے چڑھنے کے باعث آسمان پر ریل کے اگلے اور پچھلے ڈیزل انجن سانپ کی طرح لمبی کالی لکیر کی صورت میں دھواں چھوڑ رہے تھے صاف محسوس ہو رہاتھا کہ اگلا انجن ٹرین کو کھینچ اور پچھلا انجن ٹرین کو اونچائی کی جانب دھکیل رہا ہے۔

آزادی ٹرین کے انچارج محمد علی چاچڑ بتا رہے تھے کہ اگرچہ آزادی ٹرین کی رفتا ر کو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر کی گئی ہے تاکہ اس کے فلوٹس اور گیلریز کو تیز رفتاری کے باعث نقصان نہ پہنچے لیکن دیگر تیز رفتار ٹرینیں جو کم از کم ایک سو بیس سے ایک سو چالیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔ ان ٹرینوں کو بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں میں جہاں جہاں ڈھلان شروع ہوتی ہے وہاں گاڑی کو بے قابو ہونے سے بچانے کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ریلوے لائن سے شاخیں نکالی گئیں ہیں جو اونچائی پر چڑھا کر ریت میں دھنسا دی گئیں ہیں تاکہ اگر ٹرین بے قابو ہو جائے تو اسے پہلو والی لائن پر ڈال دیا جائے اور ٹرین چڑھائی کی وجہ سے دھیمی رفتار میں ریت میں دھنس کر خود بخورک جائے۔ سنا ہے کہ ریلوے میں ایسی لائنوں کو جہنم لائن کا نام دیا جاتا ہے۔ آب گم میں ایک گھنٹہ قیام کے بعد ٹرین بلوچستان کے ایک اور تاریخی شہر’’ مچھ ‘‘ کے لیے روانہ ہوئی۔ ’’ مچھ ‘‘ سے قبل ’’ ہرک ‘‘ نامی ایک اسٹیشن آیا جہاں کا ریسٹ ہاوس انگور کے حوالے سے مشہور ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہاں ٹھندے پانی کا ایک چشمہ بھی تھا جو 1935؁کے زلزلے کے بعد بند ہو گیا۔ اور پھر ہم دن پونے گیارہ بجے ’’ مچھ ‘‘ پہنچ گئے۔ ’’مچھ‘‘ تین خصوصیات کی بنا پر ملک بھر میں مشہور ہے۔ ایک تویہ کہ علاقے میں کوئلے کی بہت سی کانیں ہیں۔ اور اس وقت بھی ان سے نکلنے والا کوئلہ ملک بھر میں ترسیل کے لیے مال گاڑیوں میں لادا جا رہاتھا دوسرا یہ کہ 1935؁ میں کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کا مرکز بھی یہی تھا اور مشہور زمانہ ’’ مچھ جیل ‘‘۔ اچھا ’’ مچھ کا ریلوے اسٹیشن بہت دلچسپ ہے یہ ریلوے لائن کے کنارے نہیں ہے بلکہ ذرا ہٹ کے ہے۔ پلیٹ فارم پر لگنے کے لیے ریل گاڑی اصل لائن کو چھوڑ کر پہلے پہلو میں پڑی دوسری لائن پر چلی جاتی ہے اور اونچائی پر چڑھتی ہے تب ’’ مچھ ‘‘ کا اسٹیشن آتا ہے۔ پھر وہاں سے فراغت پا کر ٹرین آگے نہیں جاتی بلکہ پیچھے اترتی ہے۔ پیچھے لوٹ کر یہ دوبارہ اصل پٹڑی پر آتی ہے اور ایک بار پھر آگے اپنے سفر پر روانہ ہو جاتی ہے۔ مچھ اسٹیشن پر مرکزی عمارت کے ساتھ ریستوران کی بڑی خوبصورت عمار ت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مچھ کے اسٹیشن پر کھانا کھانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں یہاں طعام خانہ ہوا کرتا تھا اور کھانا چلتی گاڑیوں میں نہیں ملتا تھا بلکہ کھانے کے وقت گاڑی مچھ اسٹیشن پر روک دی جاتی تھی اور مسافر اُتر کر ریستوران میں کھانا کھایا کرتے تھے۔

مچھ کے شہر کی آبادی ریلوے اسٹیشن سے جڑی ہوئی ہے اسٹیشن کے پل سے مچھ کے بازار کابھی نظارہ کیا جا سکتا ہے ایک طرف کوئلے کی کانیں اور ان تک جاتی ریل کی پٹڑیاں تو دوسری طرف مچھ کا مرکزی بازار، قومی شاہرہ او ر مشہور زمانہ ’’ مچھ جیل ‘‘ جس کا ٹاور اسٹیشن کے پل سے واضح نظر آرہا تھا۔ مچھ کے پلیٹ فارم کے مرکز میں ایک لیٹر باکس نصب اور اس کے اوپر بڑی سی مگر پیتل کی قدیم گھنٹی ٹنگی ہوئی تھی۔ جس کو بجا کر ریل کی آمد و روانگی کا اعلان کیا جاتا تھایعنی ابھی اس اسٹیشن پر مائیکروفون کے ذریعے اعلان کرنے کا نظام نہیں پہنچا تھا۔ مچھ اسٹیشن پرایک بورڈ نصب تھا جس پر انگریزی میں سرخ جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ” Warning To Drivers ” اور اس کے بعد لکھا تھا ” On Line Between Mach And Kolpur All Drivers Must Keep A Sharp Look Out For Falls Of Rocks ”۔ مچھ میں ہمارا قیام دن ایک بج کر دس منٹ تک تھا لیکن اتنے عرصے میں بھی ہم نے دوپہر کا کھانا مچھ اسٹیشن کے ریستوران میں نہیں کھایا بلکہ اس دن آزادی ٹرین کے ڈائیننگ کار میں بکرے کا لذیز قورمہ پکا ہواتھا اب یہ معلوم نہیں کہ وہ بکرا بلوچستان کے کسی علاقے کا تھا یا سندھ سے خریدا گیا تھا کیونکہ ہمیں بلوچستان کے ہر اسٹیشن پر بکروں کے دو چار خاندان بھی نظر آئے۔ معلوم ہوا بلوچستان میں زیادہ تر بکرے یا دنبے اور کہیں کہیں اونٹ کا گوشت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ کیونکہ علاقے میں ان جانوروں کی فراوانی ہے اور گائے کے گوشت کا کم استعمال ہوتاہے۔

سو بلوچستان میں داخل ہوتے ہی ہماری ڈائننگ کار کا مینیو بھی تبدیل ہو گیا۔ اب ہمیں اپنی آخری منزل کوئٹہ پہنچنے سے قبل صرف ایک اسٹیشن پر رکنا تھا جس کا نام تھا ’’ کولپور‘‘ ہماری ٹرین مسلسل اونچائی کی جانب سفر کر رہی تھی راستے میں درہ بولان آیا اور ٹرین کی دونوں جانب وہ چٹانیں بھی گزری جو دیکھنے میں بڑی عجیب تھیں یعنی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پتلے پتلے پتھراوپر تلے مظبوطی سے جما دیے گئے ہوں اور جب چٹانیں ختم ہوئیں تو اونچے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا لیکن تمام پتھریلے اور بنجر۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا منظر ہو گا تقریباً ڈیڑھ صدی قبل دن رات ایک کر کے ان چٹانوں کو کاٹ کر ان کے درمیان سرنگ نکال کر ریل گاڑی کا راستہ بنایا ہو گا۔ اور بالاخر اڑھائی بجے ہم ’’ کول پور ‘ ‘ پہنچ گئے۔ اس وقت تک مطلع ابر آلود ہو چکا تھا ہماری ٹرین میں سوارPNCA کے طائفہ میں شامل معروف لوک فنکار رمضان عاشق جٹ کو جوش آیا اپنے ڈھولچی اور دیگر فنکاروں کے ہمراہ پلیٹ فارم پر اترے اور ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈالنا شروع کر دی اور اس دن کولپور اسٹیشن پر موجود ہر شخص ہمارے رنگ میں رنگ گیا۔ کول پور کے اسٹیشن پر کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک بینر بھی آویزاں تھا جو کول پور کی عوام کے جذبات کا عکاس تھا۔ کول پور پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم سطح سمندر سے ایک ہزار سات سو بانوے فٹ بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ کول پور میں ایک گھنٹہ رکنے کے بعد سہ پہر ساڑھے تین بجے ہم اپنی آخری منزل اور تاریخی شہر کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے۔ لیکن راستے میں دو اسٹیشن گزرے ایک بڑا اور جنکشن اور دوسرا چھوٹا سا اسٹیشن۔

پہلے ذکر اس بڑے اسٹیشن کا جس کو ہم نے صرف ٹرین سے گزرتے دیکھا۔ ’’ اسپزند جنکشن ‘‘ جہاں سے قوس بناتی ہوئیوہ پٹڑی نظر آئی جو آبادیوں سے نکل کے ویرانیوں میں چلی جاتی ہے اور گرد اڑاتی ریت پھانکتی ہوا کے ساتھ سرکنے والے ریت کے ٹیلوں سے بچتی بچاتی ایران تک جاتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ دنیا کی سب سے تنہا بین الاقوامی ریلوے لائن ہے اس بارے میں جب میں نے کوئٹہ پہنچ کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کوئٹہ ریلوے ڈویژن محمد حنیف گل صاحب سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ اسپزند ‘‘ سے الگ ہو کر زاہدان تک جانے والی تقریباً ساڑھے سات سو کلو میٹر لمبی یہ ریلوے لائن پہلی عالمی جنگ کے دروان بچھائی گئی تھی اس سے قبل مسافر اور تاجر اونٹوں کے ذریعے سفر کرتے تھے لیکن پہلی عالمی جنگ سے کچھ پہلے کسی بیماری کی بنا پر اس راستے پر چلنے والے تین ہزار اونٹ مارے گئے اور یوں ٹھیک ایک سو سال قبل ایران تک لائن بچھانے کے لیے سروے کا فیصلہ ا ہوا اور پھر اتنی تیزی سے کام ہوا کے صرف پانچ ماہ کے قلیل عرصے میں دالبندین تک ریل کی پٹڑی بچھا دی گئی اور تقریباً دو سو کلو میٹر کا یہ مرحلہ نسبتاً آسانی سے طے ہوا اور پھر باقی چار سو کلو میٹر طویل ریل کی پٹڑی ایک سال میں ڈالی گئی اور یہ منصوبہ 1918؁ میں مکمل ہوا۔

حنیف گل صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس روٹ پر ویرانی کا یہ عالم ہے کہ دالبندین اور لوکنڈی کے درمیان تقریباً پونے دو سو کلو میٹر کے راستے میں صرف ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔ اور اب ذکر ایک چھوٹے اسٹیشن کا جس کا نام ریلوے ٹائم ٹیبل میں’’ سرِ آب ‘‘ لکھا ہوا ہے لیکن لوگ اسے ’’ سریاب ‘‘ کہتے ہیں۔ اور کوئٹہ میں سریاب روڈ بھی شاید اسی کے نام کا ہے۔ ان ناموں سے ایک بات تو ظاہر ہوتی ہے کہ علاقے میں پانی کی کمیابی ہے یعنی ایک طرف ’’آب گم ‘‘ہے تو دوسری جانب ’’ سر آب‘‘۔ اور پھر بالآخر ہم شام چار بج کر پچاس منٹ کے مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے کوئٹہ کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ جب ہماری ٹرین کوئٹہ میں داخل ہو رہی تھی تو مجھے اردو ادب کا معروف نام مرز ا محمد ہادی رسو ا بہت یاد آئے جنہوں نے معرکۃ لآرا کتاب ’’ امراؤ جان ادا‘‘ تصنیف کی بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ جب بلوچستان میں ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو مرزا صاحب کوئٹہ میں سرکار کی نوکری کر رہے تھے اوریہاں ریلوے لائن بچھائی جانے کے سروے میں شریک تھے یعنی اگر مرزا ہادی ’’رسوا ‘‘ نا ہوتے تو ایک شریف گھرانے کی لڑکی کوٹھے تک اور ہندوستان کے میدانوں کی ریل گاڑی کوئٹہ تک نہ جاتی۔ کوئٹہ کے اسٹیشن کی تاریخی عمارت ایک مرتبہ اُجڑی اور دو مرتبہ تعمیرہوئی یعنی جب 3مئی 1935؁ کو کوئٹہ میں تباہ کن زلزلہ آیا تو کوئٹہ شہر کی دیگر عمارت کے زمین بوس ہونے کے ساتھ ساتھ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت بھی ڈھے گئی۔ جس کے نتیجہ میں ایک سو چوون ریلوے ملازم بھی جان بحق ہوئے جن میں مسلمان، ہندو، سکھ، اور عیسائی سبھی شامل تھے۔ اور ان تمام ایک سو چوون ملازمین کے نام ایک قد آدم لیکن اتنی ہی چوڑی ماربل کی تختی پر انگریزی زبان میں کندہ ہیں۔ جو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی مرکزی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے وسیع و عریض برآمدے میں نصب ہے اور ہر آنے جانے والے ریل کے مسافر کو ان کی یا د دلاتی ہے۔

کوئٹہ ریلووے کی موجودہ اور پرشکو عمارت کی تعمیر زلزلے کے بعد صرف چار سال میں مکمل کی گئی اور 28 اکتوبر 1939؁ کو اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ اور مجھے دوبارہ تقریباً ڈیڑھ صدی کا وہ دور یاد آ گیا جب اٹھارہ سو چھیاسی میں ریل گاڑی کو بلوچستان کے پہاڑوں سے سندھ کے ریگزاروں میں اترنے کے لیے در ہ بولان میں بل کھاتی ریل کی پٹڑی بچھائی گئی تھی۔ آزادی ٹرین جونہی کوئٹہ کے پلیٹ فارم پر لگی تو اسکاؤٹس کی وردی میں ملبوس بچے پلیٹوں میں ٹرین کے استقبال کے لیے پھول لیے کھڑے تھے پولیس کا بینڈ ملی نغموں کی دھن بجا رہا تھا اور بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر محترمہ راحیلہ حمید خان درانی کوئٹہ کے شہریوں کے ہمرا ہ ٹرین کے استقبال کے لیے موجود تھیں اس شام راحیلہ حمید درانی ریڈیو پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ آزادی ٹرین کی کوئٹہ آمد پرشاندار استقبال اس بات کی علامت ہے کہ بلوچستان کی عوام قومی یکجہتی، بین الصوبائی ہم آہنگی، پاکستان کی سا لمیت اور اتحاد پر یقین رکھتی ہے جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔ آزادی ٹرین کا قیام کوئٹہ میں دو دن کے لیے تھا۔ اگلے دن بلوچستان میں قائم SOS بلوچستان ویلیج کوئٹہ کے اسکول کے ایک سو پچیس بچوں نے SOS کی چیئر پرسن بلوچستان کی سابق وزیر سینیٹر اور معروف سوشل ورکر محترمہ روشن خورشید بھروچہ اور اسکول کے اساتذہ کے ہمرا ہ ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے قومی پرچم اٹھائے آزادی ٹرین کی سیر کی اور اسٹیشن پر ملی نغمے بھی گائے۔ اسی شام کو PNCA کے پتلی گھر نے ریلوے اسٹیشن پر بچوں کے لیے پتلی تماشے کا اہتمام کیا اور رات کو ثقافتی شو منعقد ہوا۔ جس میں شہر کی عوام نے جوق در جوق شرکت کی اور وطن کے نغمے گائے۔ نوجوانوں نے بلوچستان کا مشہور لوک رقص پیش کیا اور میں سوچ رہا تھا کہ جب پاکستان کی عوام اپنے ملک دے اتنی محبت کرتی ہے تو سماج دشمن عناصر پاکستان کو نقصان پہچانے کے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

ا گلے دن ہم نے محترمہ روشن خورشید بھروچہ کی دعوت SOS ویلیج کوئٹہ کا دورہ کیا اور ادارے کی کارکردگی سے آگاہی حاصل کی۔ وہ بتا رہی تھیں کہ SOS ویلیج میں ایک سو پچیس یتیم و بے سہارا بچے مقیم ہیں جنہیں قیام و طعام کے ساتھ ساتھ تعلیم کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے اور اس کا قیام مئی 2005؁ میں ایک کرائے کی عمارت میں لایا گیا اور موجودہ عمارت میں 2011؁ منتقل ہوئے جبکہ مکمل منصوبہ دسمبر 2015؁ ایک سو پچاسی ملین روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور جلد ہی بلوچستان میں دو اور SOS ویلیج قائم کیے جائیں گے۔ روشن خورشید بھروچہ کا تعلق بنیادی طور پر پارسی مذہب سے ہے اور اس شام انہوں نے ہمیں اپنی رہائش گاہ میں مدعو کیا اور کوئٹہ کی قدیم پارسی کالونی کا دورہ کرایا اور پھر ہم نے تفصیلاً تحریک پاکستان اور گذشتہ تقریباً ستر سال کے دوران پاکستان کی ترقی میں مختلف پارسی خاندانوں کے کردار کے حوالے سے تفصیلاً گفتگو کی۔ رات کو ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں تعینات ڈپٹی کنٹرولر نیوز جناب آفتاب شیرازی اور نوجوان سب ایڈیٹر ز حسین فاروق اور ثاقب عزیز کی میزبانی میں بلوچستان کی روائیتی ڈش ’’ روش ‘‘ تناول کی جس میں بکرے کے گوشت کو بڑے بڑے پارچوں کی صورت میں نمکین پکایا جاتا ہے اس کا ذائقہ اور لذت آج بھی یاد ہے۔ اور پھر بدھ کی صبح سات بجے آزادی ٹرین نے کراچی کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا اور ہم نے اسی صبح نو بجے جعفر ایکسپریس کے ذریعے واپس بہاول پور کے سفر کا آغاز کیا۔ اور یوں آزادی ٹرین پر روہی سے وادی بولان تک ہماری زندگی کے یادگار سفر کا اختتام ہوا۔

 

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz