گھنٹی بجا کر بھاگنے والے اور پراسرار بابے


افضل راجپوت کی دل چھو لینے والی نظم’’اک دروازہ‘‘ کے ابتدائی اشعار ہیں :
اک دروازے کولوں لنگھدیاں
اج وی قدم کھلو رہندے نیں
دل اندر ای ہس پیندا اے
نین اندر ای رو پیندے نیں

گزرے وقتوں کے غبار راہ سے بھی کیسے کیسے دل نشیں مناظر ابھرتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ بے پناہ مصروفیات کے باوجو د افضل راجپوت کی طرح آپ بھی کبھی کبھار ایسی جذباتی کیفیت سے دوچار ہوتے ہو ں مگر بال بچے داری کی مجبوریاں آپ کو اس دلی کیفیت کی منظر کشی کی اجازت نہ دیتی ہوں اور آپ چپ چاپ آنسو پی کر آگے بڑھ جاتے ہوں۔ البتہ ہم برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم بارہا مرتبہ ایسی جذباتی کیفیت سے گزرے ہیں اور اس کی منظر کشی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

اس شہر کی گلیوں کے کئی دروازے ہیں، جن کے سامنے سے گزرتے ہوئے آج بھی زمین ہمارے پاؤں جکڑ لیتی ہے اور دل کی دھڑکن بے ترتیب سی ہو جاتی ہے۔ دلفریب یادوں کی بارات اتر آتی ہے اور ماضی کے کتنے ہی خوش کن مناظر ذہن کے پردہ سکرین پر طوفان سا بپا کر دیتے ہیں۔ آغازِ جوانی میں ان ’’ اہل دروازہ‘‘ کے ساتھ ہمارا ایسا جذباتی تعلق رہا ہے کہ آج بھی وہاں سے گزرتے ہوئے دل اندر ہی ہنس پڑتا ہے اور نین اندر ہی رو پڑتے ہیں۔ یہ وہ دروازے ہیں صاحب، لڑکپن میں ہم جن کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے اور اس تیز رفتار سفر میں پس دروازہ رہنے والوں کی صلواتیں سنتے جاتے تھے۔

کامل استاد کی صحبت میسر آ جائے تو کردار سازی کی منازل جلد طے ہو جاتی ہیں۔ میٹرک کے دور کی بات ہے۔ ہم تین چار دوست شام کے وقت شہر کی اندرون آبادی کی ایک پتلی سی گلی سے گزر کر ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔ گلی میں ایک پر اسرار سے بزرگ اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولے اس اسلوب سے بیٹھ کر حقہ پیتے نظر آتے تھے کہ ان کی کرسی کا نصف حصہ دہلیز کے اندر اور نصف باہر ہوتا۔ ہمیشہ سفید دھوتی اور کرتے میں ملبوس بزرگ روزانہ کی بنیاد پر سر اور داڑھی پر استرا پھیرواتے تھے جس سے ان کے تروتازہ چہرے پر روحانیت اور نور سا برستا تھا۔ آپ ہمیشہ کسی گہری سوچ میں مستغرق نظر آتے تھے۔ ہم نے کبھی بابا جی کے ہاتھ میں کوئی کتاب وغیرہ نہیں دیکھی مگر گول موٹے شیشوں والے چشمے کے پیچھے پھڑکتی ان کی گہری آنکھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ انہیں ساری کتابیں از بر ہیں۔ ہم لوگ ہر روز بابا جی کے پاس سے گزرتے ہوئے ادب سے انہیں سلام کرتے مگر جواب میں انہوں نے کبھی اپنی زبان کو زحمت نہیں دی۔ آپ فقط رن وے جیسے شفاف اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دے کر حقے کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ ان کی شخصیت میں ایک طلسمی سا ٹھہراؤ اور پر اسراریت تھی۔ جلد ہی ہم لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ بزرگ کوئی عام آدمی نہیں، خاصے پہنچے ہوئے ہیں۔

پھر ایک دن انہونی سی ہو گئی۔ ہمارے سلام کے جواب میں بابا جی نے ہم لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کرسی کے پیچھے ہاتھ بڑھا کر میز پر سے بسکٹوں کی پلیٹ اٹھا کر ہمارے سامنے کردی۔ ہم نے خوشگوار حیرت سے تبرک سمجھ کر ایک ایک بسکٹ اٹھایا اور بزرگ نے ہمیں جانے کا اشارہ کردیا۔ اگلے دن بابا جی نے خاموشی کا روزہ بھی توڑ دیا۔ ان کی آواز میں بھی عجیب سا رعب تھا۔ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے کہ پیارے بچو! میں بہت دنوں سے تمہیں دیکھ رہا ہوں اور میں نے اپنے علم کی روشنی میں تمہیں خاصا میچور پایا ہے۔ آپ بغیر وقت ضائع کیے مدعا پر آ گئے۔ کہنے لگے کہ میں تم لوگوں کو انعام دیناچاہتا ہوں مگر اس کے لیے تمہیں ایک امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ سب طلبا ہمہ تن گوش ہو گئے۔ ہم حیران رہ گئے جب بابا جی نے فرمایا ’’ تم میں سے جو بچہ سامنے والے گھر کی کال بیل دبا کر میرے پاس آئے گا، میں اسے بیس روپے انعام دوں گا‘‘ ہم لوگوں نے گلی میں کھڑے کھڑے چند سیکنڈ کی ہنگامی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ ایک تو اس کام میں اقتصادی فائدہ ہے اور دوسرے ممکن ہے کہ اس صاحب کشف بزرگ کا حکم نہ ماننے کی پاداش میں ہم میٹرک میں فیل ہو جائیں۔ مختصراً بزرگو ں کے ارشاد کی تعمیل میں اس کارِ خیر کے لیے ہمارے گروہ کے سرغنہ کا انتخاب ہوا۔ اس نے متعلقہ دروازے پر جا کرایڑیاں اٹھائیں اور گھنٹی کا بٹن دباتے ہی لپک کر بابا جی کے پاس آ گیا۔ بابا جی کی پر سکون طبیعت میں اچانک جیسے بجلیاں سی بھر گئیں، انہوں نے نہایت عجلت میں شفقت سے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی۔ ساتھ ہی انہوں نے ہمیں بھاگنے کا اشارہ بھی کردیا۔ ویسے بھی اب ہمارے پاس وہاں ٹھہرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچا تھا، سو ہم نے دوڑ لگا دی جبکہ خود بزرگ بھی تیزی سے اپنی کرسی اٹھا کر اندر تشریف لے گئے۔ پھر تو ہماری اس بزرگ ہستی کے ساتھ وہ انڈر سٹینڈنگ ہوئی کہ ہر دوسرے، تیسرے دن آپ گلی کے کسی بھی گھر کی طرف انگلی سے اشارہ کردیتے اور ہم لوگ تعمیل حکم کے بعد انعام پا کر بھاگ نکلتے۔ اللہ جانتا ہے کہ کئی ماہ تک بابا جی کی مہرباں طبیعت نے ہمارے لیے فالودے، چنا چاٹ اور سموسوں کا ساماں کیے رکھے۔

کالج میں آ کر ہم نے اسکول کے ہر استاد کا سبق بھلا دیا مگر بابا جی کی کرامات سے ان کا سبق کبھی نہ بھولا۔ خدا غریق رحمت کرے، بابا جی نے دوران تربیت اس کارِ خیر کے لیے ہمیں لپکنے، جھپٹنے اور دوڑنے جیسی کئی باریکیوں سے خوب آشنا کیا تھا جن کی بنا پر ہم کبھی پکڑے نہیں گئے اور ہر دفعہ جائے واردات سے باعزت فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ البتہ چونکہ اس ملک میں دو نمبری عام ہے اور برقی کال بیل کے بٹن بھی جعلسازوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں، سو دوچار مرتبہ یوں بھی ہوا کہ اِدھر گھنٹی بجانے والا لڑکا بٹن پر لپکا، اُدھر گھٹیا میٹریل سے بنے بٹن کے کرنٹ نے اسے اسی تیز ی سے زمین پر پٹخ دیا۔ اگرچہ اس با کمال بزرگ نے ہمیں خطیر رقوم کے پے در پے انعامات سے کمرشل صفت بنا دیا تھا مگر ان کی یادگار رفاقت کے خاتمے کے بعد ہم یہ فعل مفت میں انجام دینے لگے کیونکہ عادت پختہ ہو چکی تھی۔ بعد ازاں جب ہمارے گروہ کے ہاتھ دو عدد موٹر سائیکلیں لگ گئیں تو ہم نے پٹرول کے لیے پلے سے خرچ کر کے بابا جی کے مشن کا دائرہ بیرون شہر نئی آبادیوں تک بڑھا دیا۔

بہت سالوں بعد جب دروازوں کی گھنٹیاں بجانے کی عمر کے بعد دروازوں سے جھانکنے کی روش بھی پرانی ہو گئی اور ہم لوگ عملی زندگی میں آ گئے تو غم روزگار نے سب کچھ بھلا دیا۔ البتہ کبھی کبھار ایسے دروازوں کے پاس سے اتفاقاً گزرتے ہوئے یادوں کے دیے سلگ اٹھنے کا عمل کبھی نہ رُک سکا۔ گزشتہ موسم سرما کی ایک شام یار لوگ اسی دوست کے گھر بیٹھے تھے جو کبھی ہمارے گروہ کا سرغنہ تھا اور گھرو ں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے میں سب سے زیادہ مہارت رکھتا تھا۔ سبک رفتار زندگی سے چند لمحے چرا کر پرانے دوست اکٹھے ہوئے تھے مگر اب شرارتوں کی جگہ غم روزگار اور غم جاناں کی داستانیں ہر کسی کی ’’ فیس بک‘‘ پر نمایاں تھیں۔ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں کسی کے سر سے چاندی جھلکتی تھی اور کسی کا گنج چمکتا تھا۔ اچانک گھر کی کال بیل بجی اور ہمارامیزبان دوست اٹھ کر گیٹ کی طرف چل پڑا۔ واپس آیا تو ایک عجیب سی خجالت اس کے چہرے پر رقصاں تھی۔

ہمارا میزبان دوست مسکرا رہا تھا مگر اس زہر خندہ مسکراہٹ کے پیچھے شرمندگی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ہمارے استفسار پر اس نے تاسف سے کہا کہ کوئی بچہ ہمارے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ گیا ہے۔ اس مکافاتِ عمل پر محفل میں قہقہ گونجا اور اپنے ماضی کی ایسی شرارتوں کا ذکر چل نکلا تو تادیر رکنے میں نہیں آیا مگر سچی بات ہے کہ اس دوران ہمارے اندر ایک بے نام سی خجالت کا احساس نمایاں رہا۔ ممکن ہے کہ کل ہم دوسروں کے گھروں کی گھنٹیاں نہ بجاتے تو آج خود ہمارے ساتھ بھی یہ حرکت نہ ہوتی۔

آج ہمیں اپنی پرانی شرارتیں موجودہ بین الاقوامی اور ملکی حالات دیکھ کر یاد آئی ہیں۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر اس نے ا ن دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے، جن کے خلاف امریکہ کی جنگ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستا ن نے رویہ نہ بدلا تو اس کی امداد کم اور نان نیٹو اتحاد کا درجہ ختم کر سکتے ہیں۔ نیز طالبان پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کی حکومت کو بھی خطرہ ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آفریں ہے اس ’’ بین الاقوامی پر اسراربابے‘‘ پر جس کی گرانقدر تربیت اور اربوں ڈالر کے ’’انعامات‘‘ کے لالچ میں ہم نے کیسے کیسے ملکوں کی گھنٹیاں بجائیں اور مکافاتِ عمل کے اصول کے تحت اپنے گھر کو بھی تباہ کرلیا مگر بابا اب بھی ہم سے مطمئن نہیں۔ فراز ؔ کے دو شعر یاد آئے ہیں :

رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں
کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہوتی ہیں
بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا
گلے نہ ہوں بھی تو حیرانیاں تو ہوتی ہیں

بد لحاظ تاریخ جو مرضی کہے مگر ہم نے سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوتے وقت کہا تھا کہ یہ اتحاد کیمونسٹ چین اور سویت یونین کے گھروں کی گھنٹیاں بجانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ بڈ بیر کا اڈہ امریکیوں کے حوالے کرتے وقت بھی ہمارا یہی موقف تھا۔ ’’بابا جی‘‘ کی قیادت میں ہماری امن کی کوششوں کی تاریخ ایک کالم میں کیا سمائے گی بھلا؟ ہمارے مردِ مومن نے افغانستان میں لڑی جانے والی دو سپر طاقتوں کے مفادات کی جنگ میں ہمیں بابے کی شہ پر دھکیل دیا۔ ہم نے روس کی گھنٹی توبجا دی مگر مکافاتِ عمل کے طور پر اپنے دامن میں چنگاریاں بھی بھر لیں۔ مرد ِ حق نے بابے کی قیادت اور ہدایات کی روشنی میں ملک میں جہادی کلچر کو فروغ دینا شروع کیا تو دور اندیش اصحابِ درد چیخ اٹھے کہ یہ کلچر ہمارے گھر کی گھنٹیاں بجا دے گا مگر کاتبِ تقدیر کا لکھا نہ بدلا اور آج 27 لاکھ مسلمان مروا کر ہم ناجائز اسلحہ اور منشیات میں خود کفیل ہونے کے علاوہ انتہا پسندی، لاقانونیت اور قتل و غارت کی پُر خار راہوں کے مسافر ہیں۔ بعد ازاں آمر چہارم پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد بابے کے ایسے ہی انعامات اور ہدایات کے تحت افغان حکومت کی گھنٹی بجانے پر کمر کس لی۔ ہم بابے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے اور جواباً اب تک اپنے ستر ہزار ہم وطنوں کی قربانی دے چکے ہیں جبکہ اربوں کی املاک کا نقصان الگ ہے۔ آج ہم بین الاقوامی بابے کے پے در پے احکامات کی تعمیل میں اس ’’منزل‘‘ پرپہنچے ہیں کہ گلوبل ویلج کے نزدیک ہمارا معاشرہ فکرو دانش کی قلت ہی نہیں بلکہ مثبت ثقافتی و سماجی اقدار کے بحران کا شکار ہے۔ ’’صاحب کشف بزرگوار‘‘ نے ہمیں ایسی بے فیض مسافت کا مسافر بنا دیا ہے، جس میں پاؤں ہی نہیں دل بھی تھکتا ہے۔

حیرت ہے کہ بابا ہم سے راضی پھر بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں طاقت و اختیار کی اس جنگ میں بابا خود سب سے بڑا فسادی ہے جو اپنے مفادات کی خاطر ہمیں دوسروں کے گھروں کی گھنٹیاں بجانے کی ترغیب دیتا ہے تو دوسروں کو بھی ہمارے بارے میں ایسا ہی سبق دیتا ہے۔ آج ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی صدر کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی۔ کاش ہم پہلے دن سے ایسا فیصلہ کرلیتے۔ تاہم اب ہمیں دنیا کی طر ف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قربانیوں کو تسلیم کرانے سے زیادہ وہ وجوہات دور کرنے کی ضرورت ہے، جن کی بنا پر کبھی بھارت، کبھی ایران اور کبھی امریکہ ہمارے خلاف کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ تاریخ کی گلیو ں کے کئی دروازے متقاضی ہیں کہ ہمیں ان کے پاس رُک کر بہت کچھ سوچنا چاہیے۔

دوسری طرف اندرون ملک اپنے حالات پر نظر کریں تو آج نواز شریف ایک عدالتی فیصلے کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو کر گھر بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ ہو سکتا ہے انہیں بھی ماضی کی اپنی کچھ ’’شرارتوں‘‘ پر پشیمانی ہوتی ہو۔ نابالغ پن عمر کا ہو یا سیاسی، بلوغت کی سرحد پر پہنچ کر اپنی بچگانہ وارداتوں کا احساسِ زیاں تو ہوتا ہی ہے۔ سیاسی بلوغت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ سیاستدان سیاسی عمل کو باہم مل کر مضبوط کریں اور ایک دوسرے کی منتخب حکومتوں کی ٹانگیں نہ کھینچیں۔ جب 1990ء میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کی گھنٹی بجائی تھی تو انہیں دوسری طاقتوں کے علاوہ نواز شریف کی شہ بھی حاصل تھی۔ یہی عمل جب 1993ء میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا تو اسے بھی بے نظیر بھٹو کی حمایت حاصل تھی۔ بے نظیر کی دوسری حکومت کی گھنٹی فاروق لغاری نے بجائی تب بھی میاں صاحب ان کے ساتھ تھے۔ 1999ء میں نواز حکومت کو پرویز مشرف نے ختم کیا تو بھی جملہ سیاستدان اس خلافِ آئین اقدام کے خلاف متحد ہونے کی بجائے انتشار کا شکار تھے۔ حتیٰ کہ سیاستدانوں میں سیاسی بلوغت کا سفر شروع ہوا اور میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے مگر حقیقی پختگی ابھی بہت دور تھی۔ آج نواز شریف کو جس عدالت نے نا اہل قرار دیا ہے کل وہ اسی عدالت میں آصف زرداری کے خلاف کالا کوٹ پہن کر پیش ہوئے تھے۔

ہم سوچتے ہیں کہ تاریخ کے ایسے دروازوں کے پاس سے گزرتے ہوئے میاں صاحب کے قدم ضرور رک جاتے ہوں گے۔ انہیں خیال آتا ہو گا کہ ’’صاحب کشف اور کامل بابوں‘‘ کا آلہ کار بننے کی بجائے اگر سیاستدان ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تو آج جمہوری عمل کچے رستوں پرڈگمگانے کی بجائے پختہ سڑک پر رواں ہوتا۔ اب میاں نواز شریف تو تاریخ سے سبق حاصل کر کے سیاسی بلوغت کے سفر پر چل پڑے ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ باقی سیاسی قیادت بشمول عمران خان اور آصف زرداری اس مسافت میں ان کا ہم سفر بننے پر تیار نہیں اور وہ بدستور ایک دوسرے کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے کے چلن پر کمر بستہ ہیں۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جس دن ہماری سیاسی قیادت سنجیدہ ہو گئی اور ایک ٹھوس متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے جمہوریت کے در کی گھنٹی بجانے سے باز آ گئی، یہاں ایک خوشحال اور معتبر مملکت کی جانب سفر شروع ہو جائے گا۔

پس تمام سیاسی قیادت کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ کم از کم ایک دروازے کو معاف کردیں اور جمہوریت کے در کی گھنٹی بجانے سے باز آ جائیں ورنہ ان کے ساتھ بھی ہمارے جیسا سلوک ہوتا رہے گا کہ جو بھی قصرِ اقتدار میں پہنچے گا، دوسرے انہی کی طرح اس کی گھنٹیاں بجاتے رہیں گے۔ پر اسرار بابوں کا کاروبار چلتا رہے گا اور سیاستدان باری باری دوسروں کی گھنٹیاں بجنے پر مٹھائیاں بانٹنے اور اپنے ساتھ ہاتھ ہونے پر ہاتھ ملتے رہیں گے۔ ملک بدستور عدم سیاسی شعور اور مثبت ثقافتی و سماجی اقدار کے بحران کا شکار رہے گا اور تاریخ اپنے ہی گھر کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے والوں پر ہنستی رہے گی(براہِ کرم اسے تھوکتی رہے گی نہ پڑھا جائے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).