اربوں کے منصوبے، اربوں کی کمائیاں


کئی لوگوں کو یاد ہوگا جی ٹی ایس کتنی اچھی بس سروس ہوتی تھی،

اسے یہ کہہ کر بند کر دیا گیا کہ بسیں چلانا حکومت کا کام نہیں۔

پھر لاہور اومنی بس سروس بند کی گئی۔

اس کے بعد پی آر ٹی سی بھی بند کر دی گئی۔

دلیل یہی تھی کہ بسیں چلانا حکومت کا کام نہیں۔

نجی شعبے کو سرمایہ فراہم کیا گیا اور ان کی بسیں چلنا شروع ہوئیں۔ وہ لاہور کے ہر روٹ پر چل رہی تھیں ۔ بالعموم ٹرانسپورٹ کا کوئی شدید مسٔلہ نہیں تھا۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ حکومت بسیں چلانے پر اتر آئی۔ اچانک اعلان ہوا کہ میٹرو بس چلے گی، اورنج ٹرین چلے گی۔ ٹرانسپورٹ کا محکمہ موجود ہونے کے باوجود لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی قائم کردی گئی۔

میٹرو وغیرہ کسی کا مطالبہ تھا نہ ضرورت۔ نجی بسیں ویگنیں لوگوں کی ضرورت پوری کر رہی تھیں۔ کچھہ کمی یا نقاٗئص تھے تو وہ دور کئے جا سکتے تھے۔ لیکن حکومت اربوں روپے خرچ کرنے پر تل گئی۔ چاہے اس کیلئے ہسپتالوں کی دوائوں کے پیسے ختم کرنا پڑے یا لڑکیوں کے سکولوں کی چار دیواریاں اور واش روم تعمیر کرنے کے پیسے۔ بہاولپور کے ہسپتال میں برن یونٹ بنانے کی آٹھ سال سے منظوری ہو چکی ہے لیکن پیسے فراہم نہیں کئے جا رہے۔

لاہور میں ہزاروں مکان، دکان، مزار، امام بارگاہیں اور مساجد گرا دی گئیں۔ کاروبار تباہ اور لوگ بے گھر ہو گئے لیکن شہر میں ٹرانسپورٹ کی جتنی بری حالت آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ میٹرو پرانے ویگن روٹ 5 کی توسیع ہے۔ اس پر پہلے چوبیس گھنٹے ویگن ملتی تھی، اب میٹرو صرف دس بجے تک۔ اس کے بعد چوری چھپے بسیں ویگنیں چلتی ہیں کہ اس مقدس روٹ پر میٹرو کے سوا سب پر پابندی ہے۔

میٹرو کے بارے میں ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا جیسے لاہور کا مسٔلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے صرف وہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کا گھر بھی اس روٹ پر ہو اور ورک پلیس بھی۔ وہ بھی صرف دس بجے تک۔

چالیس سال پہلے جن جگہوں کو بس ویگن سے جایا جا سکتا تھا، اب وہاں صرف رکشے یا چنگچی پر جاسکتے ہیں۔ مثلاََ کرشن نگر، ساندہ وغیرہ.

بالائے زمین میٹرو سے سڑکوں پر بھیڑ بھی کم نہیں ہوئی۔ کیونکہ سڑک کچھہ چوڑی کرنے کے باوجود کوئی تین گز جگہ میٹرو کے ستونوں اور ڈیوائڈرز نے لے لی ہے۔ ایک اور کارنامے کی بھی داد لی جا رہی oy کہ سگنل فری کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر آگے جاکر سامنے ہی نظر آنے والی منزل تک پہنچنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں راستوں اور سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کا سب سے زیادہ حق مانا جاتا ہے لیکن لاہور میں پیدل چلنے والوں کیلئے سڑک پار کرنا ایک عذاب بنا دیا گیا ہے۔ کلو میٹر دور اوور ہیڈ برج تک جاکر پار کرکے واپس آنا پڑتا ہے۔ پھر اوور ہیڈ برج پر چڑھنا ہر ایک کے بس کی بات تو نہیں ہوتی۔

دوسروں کو گزرنے کا موقع دینے کیلئے ٹریفک سگنل پر رکنا تہذیب کی ایک نشانی ہے!

کہا جاتا ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے لوگوں کی بھلائی کیلئے ہی ہیں۔ لوگوں کی بھلائی کا اتنا ہی خیال ہو تو شملہ پہاڑی سے لکشمی تک کلو میٹر کی سڑک پر درجن بھر گڑھے کیوں پُر نہیں کئے جاتے، جو مہلک حادثات کا باعث بن سکتے ہیں، یہاں سے گزرنے والے موٹر سائیکل اکثر الٹتے رہتے ہیں

لوگ کہتے ہیں کہ ایسے دو چار لاکھ کے منصوبوں میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ اس میں سے بچے گا کیا؟

اربوں کے منصوبوں میں سے ہی اربوں بچائے جا سکتے ہیں

لوگوں کی بھلائی ہی مطلوب ہوتی تو مکمل ہونے کے بعد بھی کوئی ان کے چلتے رہنے میں دلچسپی لیتا۔ ان کا کیا حال ہے وہ اسلام آباد اور لاہور کے ان دو اخبارات کی خبروں سے پتہ چلتا ہے۔

لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کا شاید ہی کوئی فیصلہ ساز بس یا ویگن میں سفر کرتا ہو۔ اب لوگ سڑکوں پر پیدل رُل رہے ہیں اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے سپیڈو بسیں تین تین چار چار مسافروں کے ساتھہ چل رہی ہیں۔

کسی کو فائدہ پہنچانے کیلئے پری پیڈ کارڈز کا معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ نقد پیسے دے کر آپ سفر نہیں کر سکتے۔ آپ کے پاس کارڈ بھی ہو تو آپ کے بال بچے ساتھہ سفر نہیں کر سکتے ، ان سب کیلئے الگ الگ کارڈ کی ضرورت ہے ۔ کوئی بیرونِ شہر سے آیا ہو ، ایک ہی بار سفر کرنا ہو تو بھی دو سو روپے کا کارڈ لینا ہو گا۔

میرا خیال تھا کہ یہ خود کار نظام ہے اور اس سے کنڈکٹر کی اجرت کی بچت کی جا رہی ہے لیکن پتہ چلا ہے کہ ایسا نہیں۔ کنڈکٹر بھی ہوتا ہے لیکن ضد یہ ہے کہ وہ ٹکٹ نہیں بیچے گا۔ ان منصوبوں کے لئے جو لوگ رطب اللسان ہیں، ان میں سے کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ اس نے کب کسی پبلک بس، ویگن میں سفر کیا تھا !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).