نواز شریف: فلاحی ریاست کا معمار


 

وقت بدل چکا ہے نہ تو اب وہ وقت رہا کہ جب محبوبہ کو اپنی محبت کی یقین دہانی کے لئے کچھ موسمی عاشق کسی پرندے یا جانور کا خون نکال کر خط لکھ بھیجتے تھے۔ اور یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ میں نے اپنے جسم کے خون سے لکھا بلکہ یوں کہیے کہ خون جگر سے لکھا ہے۔ اور یہ میری سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اتفاق سے اس دور میں فرانزک ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو ہزاروں عشاق بے نقاب ہوئے پھرتے۔

 

آج عالمی سیاست کا منظر نامہ بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب دیگر،اسلامی ملکوں کے سامنے مذہب کا ٹھیکیدار ثابت ہونے کے لئے اور ایران کو عالمی اور اسلامی تنہائی کا شکار کرنے کے لئے  اور ایران کو دنیا کے امن کے لئے خطرہ ثابت کرنے کی خاطر فرسودہ دلیلیں پیش کررہا ہے۔ لیکن وقت بدل چکا ہے اب سیاست میں فرانزک ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے سچ اور جھوٹ کا موازنہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔

 

حال ہی میں سعودی عرب کے زیر سایہ ببنے والے فوجی اتحا د اور پھر اس اتحاد کو دنیا میں مثبت ثابت کرنے کی غرض سے اور عالمی دنیا کی ہمدرد یاں حاصل کرنے کی غرض سے بلائی جانے والی کانفرنس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس کانفرنس میں بلا تفریق سعودی مفادات اور ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کی سوچ کار فرما نظر آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد اور ٹرمپ کو اسلامی بلاک کے غیرعلانیہ سربراہ کے طور پر منظر عام لایا گیا۔ اور اسی کانفرنس میں مصر کے ڈکیٹیر جنرل سیسی جیسے عوام دشمن کو ایک مسیحا کے روپ میں شرکت کروائی گئی۔ یہ وہی جنرل سیسی تھے جنہوں نے مصر کی جمہوری حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے نہتے عوام پر ٹینک چڑھا دئیے تھے۔ جمہوری حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے اور اپنی آمریت کو قائم کرنے کے لئے  سیسی ظلم کی ہر حد پار کرتے دکھائی دیئے۔ کانفرنس میں جہاں سیسی کو مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا وہاں ہندوستان کو بھی خطے میں دہشتگردی کے خلاف موثر کردار ادا کرنے کے لئے  سراہا گیا۔ جبکہ پاکستان کے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے  کئے جانے والے سفر کو نظر انداز کرنا دوست دشمنی ڈاکٹرائین کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

 

اگر عالمی سیاست کی کڑیاں چوڑی جائیں تو امریکہ کی ناراضی مشرف دور میں اختیار کی جانے والی ڈبل گیم کے ساتھ جڑتی ہیں۔ جس میں مشرف بظاہر دائیں ہاتھ سے طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحاد ی بنے رہے اور بائیں ہاتھ سے وہ گڈ طالبان نامی ناسور کو دلاسہ بھی دیتے رہے۔ طالبان کے خلاف جنگ کے عوض امریکہ سے اربوں ڈالر کا قرضہ بھی وصول کرتے رہے۔ جبکہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے کھل کر مشرق کی دوغلی پپالیسی کا پردہ ہٹا دیا۔ اور آمریت کے ان سیاہ ادوار میں اٹھائے جانے والے غلط اقدامات اور غلط پالیسیوں کے وجہ سے پاکستان کی سیاسی حکومتوں کو عالمی دوستوں کے ساتھ خلیج کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ جس کی ایک جھلک امریکہ سے تعلقات کی دوری کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ جبکہ سعودی عرب کی پاکستانی سیاسی قیادت سے فاصلے سعودی عرب کی اسلام کے نام پر ضرورت سے زیادہ توقعات کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے بن رہے ہیں۔

 

عین اسی وقت میں جب سعودی عرب نےپاکستان سے فوجی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی اور ان کی توقعات تھیں کہ پاکستان آنکھ بند کرکے اس فوجی تعاون کے دستاویزات پر دستخط کرے گا۔ لیکن وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے سیاسی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیا اور پارلیمنٹ کی رہنمائی اور سوچ سے فائدہ اٹھایا۔ جہاں پر پارلیمنٹ نے اجتماعی دانش کا اظہار کرتے ہوئے یمن کے فسادات سے دوری اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ جسے عالمی دنیا نے سراہا کہ پاکستان کی جمہوری حکومت نے بالغ فیصلے اختیار کرنے شروع کردیئے ہیں۔ جبکہ گذشتہ آمریت میں ایک کا ل پر امریکہ کے سامنے مشرف نے پاکستان کو ایک کرائے کی ریاست کے طور پرسامنے لایا تھا۔ جس جنگ میں شمولیت کے غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو ایک سو ارب سے زیادہ کا نقصان اٹھا نا پڑا اور نتیجہ یہ کہ امریکہ کی شاباش بھی پاکستان وصول بھی نہ کرسکا۔ جبکہ یمن جنگ میں نواز شریف اور پارلیمنٹ نے دور اندیشی اختیار کرنے کے بعد دوسری مرتبہ پھر سعودی عرب اور باقی عربوں کو اس وقت حیرت میں ڈال دیاجب عرب فوجی اتحاد میں شمولیت اور ایران کے خلاف بننے والے بلاک میں شامل ہونے سے معزرت کا اظہار کردیا۔ اور وزیر اعظم نواز شریف نے خطے میں ہونے والی ممکنہ ہولناک جنگ میں پاکستان کے نہ صرف ہاتھ اور منہ کوکالے ہونے سے بچایا بلکہ سعودی عرب اتحاد ،ایران اور قطر کے درمیان دشمنی کے خاتمے کے لئے خود کو ثالث کے طور پر پیش کردیا۔ اور ان ملکوں سے مثبت سفارتی عمل کے ذریعہ ثالثی کروانے کی کوشش کی اور یہ کریڈٹ منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو ہی جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ریٹارڈ آرمی چیف راحیل شریف کا عرب فوجی اتحاد کے سربراہ بننے کا فیصلہ ان کی ذاتی ملازمت تک محدود ہے۔ جس پر پاکستان کے سیاسی حلقوں نے شدید تنقید کی جبکہ حکومت نے جمہوری عمل کی تقویت کے لئے اس مسئلے میں الجھنے سے خود کو بچائے رکھا لیکن ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے ذہبی جماعتوں اور طالبانی سوچ کی انتہا پسند سبھی قوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو ہر صورت اہمیت دی اورانہیں قائم رکھا۔ جس میں ایران، افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ ماضی کی سبھی رنجشوں کے باوجود سفارتی عمل کو کمزور نہ پڑھنے دیا۔ اور کسی بھی پراکسی سفارت کو قبول نہ کیا۔ چاہے وہ پراکسی امریکہ کی ہو، سعودی عرب کی یادیگر اندرونی اور بیرونی رجعت پسند طاقتوں کی ہو پاکستانی وزیر اعظم نے سب مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے خطے میں پاکستان کوایک پر امن اور دور اندیش ریاست کے طور پر سامنے لایا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف اور پاکستان کی جمہوری جماعتیں پاکستان کو مشرف دور میں بنائی گئی سیکیورٹی سٹیٹ سے ایک فلاحی ریاست کی طرف لے کر جارہے ہیں اس لئے کہ نواز شریف اور پارلیمنٹ کی سیاسی آنکھ بخوبی جان چکے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے۔ غالب نے کہا تھا:-

وہ نشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے

 

نگاہ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).