افغانستان: کچھ مغالطے کچھ مبالغے


محترم عامرخاکوانی صاحب مستند اخبار نویس ہیں۔ کچھ معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ مذہبی عسکریت ان میں سے ایک ہے۔ آج سے کوئی دس برس قبل اسی حوالے سے لکھی ان کی تحریر نے توجہ کھینچی تھی۔ اتفاق اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات سے بھی نہیں ہوپایا تھا، مگر سیکھنے سمجھنے کا سامان بہت تھا۔ مورخہ انتیس اگست کو ”روزنامہ 92۔“ پر محترم خاکوانی صاحب نے ”افغانستان سے متعلق چند اہم عوامی مغالطے“ کے عنوان سے کالم لکھا۔ صبح کا منظر رات کا فسانہ خود بتارہا ہے، مگر مدیر محترم آسانی کے لیے خاکوانی صاحب کے مضمون کا لنک بھی ذیل میں کہیں رکھ دیں تو بات بن جائے گی۔ خاکوانی صاحب نے مغالطوں کو سوالات کی شکل میں رکھا ہے۔ درج ذیل ہیں۔

1۔ پاکستانی ریاست، افغان طالبان کی مدد کیوں کرتی ہے، جبکہ ان طالبان نے خود کش حملے کر کے ہزاروں پاکستانی شہید کر دیے۔
2۔ افغان طالبان افغانستان میں خود کش حملے کریں تو وہ کیسے درست ہوسکتے ہیں جبکہ ہم پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خود کش حملوں کو ناجائز اور غلط قرار دیتے ہیں؟
3۔ افغان عوام ہمارے مخالف کیوں ہیں، جبکہ ہم نے اتنا طویل عرصہ ان کا ساتھ دیا، انہیں پناہ دی، اتنا بوجھ اٹھایا وغیرہ وغیرہ۔
4۔ افغان عوام پاکستان کو اتنا ناپسند کیوں کرتے ہیں؟
5۔ افغان میڈیا پاکستان کے خلاف ہمیشہ کیوں بولتا رہتا ہے؟

خاکوانی صاحب نے ان مغالطہ انگیز سوالات کے جو جوابات دیے ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے

1۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے بیچ کوئی باضابطہ یا بے ضابطہ تعلق نہیں ہے۔ افغان طالبان کا مقصد امریکی افواج کا انخلا ہے جبکہ ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔ اور یہ کہ افغان طالبان کا ایجنڈا افغانستان تک محدود ہے جبکہ ٹی ٹی پی کا ایجنڈا عالمگیر ہے۔
2۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی۔ امریکہ نے حملہ کیا، حکومت شمالی اتحاد کو سونپ دی گئی۔ یوں طالبان کے پاس خود کش حملوں کا اخلاقی جواز موجود ہے۔ ٹی ٹی پی کی پاکستان میں حکومت تھی اور نہ ہی پاکستان میں غیرملکی افواج بیٹھی ہیں۔ اس لیے ٹی ٹی پی کے پاس مزاحمت یا خود کش حملوں کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ ان کا اسٹیٹس خارجیوں والا ہے۔
3۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد خانہ جنگی ہوئی۔ اس کا تصفیہ طالبان نے کیا۔ شمالی اتحاد کی حمایت انڈیا کررہا تھا ہم نے طالبان کی حمایت کی۔ نصیب تھکے ہوئے تھے اس لیے بعد کے منظر نامے میں طالبان ولن ہوگئے اور شمالی اتحاد ہیرو ہوگئے۔
4۔ افغانستان دو قسم کے ہیں۔ ایک جو طالبان کے قبضے میں ہے دوسرا تختِ کابل کے دستِ قدرت میں۔ کابل والا افغانستان پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ طالبان والا افغانستان پاکستان کا حامی ہے۔ یہی والا افغانستان حقیقت بھی ہے۔ طالبان قوت میں آگئے تو تختِ کابل صفر ہوجائے گا۔
5۔ کیونکہ افغانستان کا اپنا میڈیا ہے ہی نہیں ہے۔ پوری انڈسٹری بیرونی ذرائع پرانحصار کرتی ہے۔ پاکستان مخالف ایجنڈا تو پھر ظاہر ہے آئے گا۔

محترم خاکوانی صاحب کے تفصیلی جوابات ان کے کالم میں پڑھ لیجیے گا۔ انہوں نے ایک چھٹے مغالطے کا ذکر بھی کیا۔ میرے لیے وہ غیرمتعلق ہے اس لیے اسے رہنے دیا۔ باقی پانچ مغالطوں کے حوالے سے میری رائے غلطی کے احتمال کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

1۔ افغان طالبان کو سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے تخلیق کیا، پاکستانی طالبان را اور افغان انٹیلی جنس نے جنم دیا۔ دونوں کی پیدائش کا مقصد خالق کے سجائے ہوئے میدانوں میں جنگ لڑنا تھا۔ خالقوں کا مقصد سیاسی تھا جبکہ مخلوق کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام تھا۔ دونوں طالبان کے دھڑے دونوں ممالک میں اس گمان کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ ہم نفاذ شریعت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لڑاکے سچائی نہیں جانتے تھے مگرکماندان تو سب جانتا تھا۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے بیچ کوئی باضابطہ تعلق تو نہیں تھا، مگر بے ضابطہ تعلق سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں خود کو محفوظ کیوں تصور کرتی تھی یہ کہانی پھر سہی۔ افغان طالبان وزیرستان کیا لینے آتے تھے یہ کہانی بھی پھر سہی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ کامل دس برس تک ٹی ٹی پی کی قیادت نے اعلانیہ ملا عمر کو اپنا سرپرست کہا اور لکھا۔ عید کے موقع پر ملا عمر کی طرف سے جاری ہونے والے پیغامات کو ٹی ٹی پی نے نشر کیا، شائع کیا اور اس کو اپنا نمائندہ پیغام کہا۔ دس برسوں میں افغان طالبان کے کسی بھی ترجمان نے کسی بھی بیان، تحریر، خط اور انٹرویو میں ٹی ٹی پی کے اس دعوے کو نہیں جھٹلایا۔ مسلسل سوال اٹھنے پر بھی افغان طالبان کی خاموشی چہ معنی دارد؟

2۔ فرمایا کہ افغانستان میں طالبان کی باقاعدہ قائم حکومت بیرونی جارحیت کے سبب ختم ہوئی اس لیے طالبان اخلاقی طور پرخود کش حملوں کاجواز رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس حکومت کی اخلاقی بنیاد کیا تھی؟ طالبان حکومت آئی ایس آئی نے قائم کی جس کا اپروول سی آئی اے نے دیا۔ وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد جو ممکنہ قوتیں آگے آرہی تھیں وہ ایک طرف سی آئی اے کے پلان سے میچ نہیں کررہی تھیں دوسری طرف افغانستان کی عوامی قوتیں آئی ایس آئی کی غیر ضروری مداخلت قبول نہیں کر رہی تھیں۔ یوں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی ایک ایک گوٹ پھنس گئی۔ بائیں بازو کی تمام قوتوں کو پہلے ہی دیوار سے لگایا جاچکا تھا۔ ترقی پسند سیاسی کارکن ملک چھوڑچکے تھے۔ تنظیمیں زیرزمین جا چکی تھیں۔ صدر نجیب کو ساتھیوں سمیت کابل میں لٹکا دیا گیا تھا۔ اب ان رائٹ والوں (یہ رائٹ اور لیفٹ خاکوانی صاحب کے معروف معیار کے مطابق) کی عوامی قوتیں ہی رہ گئی تھیں۔ ایک ہی سیاسی فریق سہی، مگر اسے یہ اخلاقی جواز تو حاصل تھا کہ عوام میں وہ اپنی جڑیں رکھتا تھا۔ رائٹ کی ان قوتوں کے ساتھ بھی چشمک یہاں پیدا ہوئی کہ وہ پاکستان سے مداخلت کی بجائے معاونت کی پالیسی کا تقاضا کررہے تھے۔ یہ خود سری پاکستان کو منظور نہیں تھی۔ کابل اب قندھاری کا قالین بن چکا تھا جس کی قیمت طے ہوکر نہیں دے رہی تھی۔ چنانچہ نہ تیری نہ میری کا فیصلہ ہوگیا۔ یونس خالص جیسے لوگ جو افغان جہاد میں ہیرو ہوا کرتے تھے، وہ آئی ایس آئی کی مزید مداخلت کے مخالف ہونے کی سبب تاریخ سے باہر ہوگئے۔ گلبدین حکمت یار کو ملک چھوڑنا پڑا۔ برہان الدین ربانی اور رشید دوستم بھی پناہ ڈھونڈنے نکل گئے۔ صبغت اللہ مجددی، استاد سیاف اور نبی محمدی اپنے حصے کے محنتانے نیفے میں اڑس کر اللہ اللہ خیر صلا ہوگئے۔ ایک احمد شاہ مسعود رہ گئے جو مخابرہ اور بندوق اٹھا کر تادم مرگ پنج شیر میں مورچہ زن ہوگئے۔

یہ ایسا ہی تھا کہ جیسے ٹی ٹی پی کو سی آئی اے اور افغان انٹیلی جنس سپورٹ کرے، ٹی ٹی پی حکومت میں آ جائے۔ ولی خان کو قصہ خوانی بازار میں پھانسی دے دی جائے، نواز شریف سعودیہ، آصف علی زرداری امارات، عمران خان لندن، مولانا فضل الرحمن انڈیا، علامہ ساجد نقوی ایران اور میر حاصل خان بزنجو ماسکو فرار ہوجائیں۔ پیچھے ایک محمود خان اچکزئی رہ جائیں اور وہ یک تنہا کوئٹہ میں ٹی ٹی پی کے خلاف مورچہ سنبھال لیں۔ اب کسی دن کوئی بیرونی طاقت پاکستان پر حملہ کرکے ٹی ٹی پی کی حکومت ختم کردے، ٹی ٹی پی کے جوان جنوبی پنجاب، کوہاٹ، ڈی آئی خان، دیر، بونیر، وزیرستان، ژوب، کوئٹہ کے نوے کلی اور کراچی کے سہراب گوٹھ میں مورچے سنبھال لیں۔ سرکاری املاک، سیاست دانوں، کھیل کے میدانوں، پولیس اہلکاروں اور آرمی کے سپاہیوں پر حملے شروع ہوجائیں۔ یوں خود کش حملوں کے جائز ناجائز ہونے کی بحث شروع ہوجائے اور افغانستان کا ایک اخبار نویس لکھے کہ چونکہ ٹی ٹی پی کی پہلے ہی حکومت قائم تھی، وہ ختم کی گئی ہے لہذا ان کو خود کش حملوں کی اخلاقی گنجائش دی جاتی ہے۔

3۔ افغانستان میں اب پاکستان کے لیے حمایت کی سطح بہت کم ہوچکی ہے۔ اگر میں کہوں کہ پاکستان کی حمایت مرچکی ہے تو یہ شاید میری اوقات سے بڑھ جائے گا۔ سامنے کا نوشتہ دیوار یہ ہے کہ اب افغانستان کا رائٹ ونگ (آپ کے والا رائٹ ونگ) طبقہ بھی پاکستان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ سوشلسٹ کفار کو تو رکھیے ایک طرف، اب اب وہاں کی مذہبی سیاسی قوتیں بھی انڈیا کو ویلکم کرچکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں اینٹی پاکستان بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔ مکرر عرض کروں گا کہ اس بیانیے میں مذہبی قوتیں پیش پیش ہیں۔ چلیے باقی افغانستان کو بیرونی وسائل پہ انحصار کرنے والے میڈیا نے ورغلایا، مگر یہ مذہبی قیادت؟ یہ ہمارے لیے خوشگوار صورت حال نہیں ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس صورت حال کا ہم اعتراف نہیں کررہے۔ اعتراف نہیں کریں گے تو دوا کیسے کریں گے صاحب؟

4۔ افغانستان میں حالیہ سیاسی و سفارتی بیانیہ تشکیل پانے کے بعد وہاں کی سیاسی قوتیں پاکستان کی سیاسی قوتوں سے کوئی شکایت نہیں کرتیں۔ ملٹری اسٹبلشمنٹ سے کرتی ہیں۔ کیونکہ ہماری ملٹری اسٹبلشمنٹ افغانستان کی ان قوتوں کو اہمیت دیتی ہیں جن کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں۔ ان کے پاس طاقت کی واحد ضمانت بندوق ہے۔ پاکستانی طالبان کو افغان انٹیلی جنس کمک فراہم کرے تو ہمارا احساس کیا ہوتا ہے؟ افغانستان میں سیاسی قوتوں کو نظر انداز کرکے اگر ہم غیر ریاستی بندوقچیوں سے معاملات کریں گے تو افغانوں کا احساس ہم سے مختلف کیوں کر ہو گا؟ انڈیا کی یہی جیت ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ سیاسی قوتوں کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کہ براہ راست عوام کے ساتھ آپ کا رشتہ استوار ہے۔ ہم ٹھہرے منیرنیازی کی طبعیت کے۔ ہم نے دیر کردی۔ ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ہم۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری عسکری اشرافیہ کی خارجہ پالیسی سیاسی نہیں ہے۔ سول قیادت کی اپروچ البتہ سیاسی ہے۔ اداروں کے بیچ تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

5۔ طالبان کا افغانستان؟ طالبان کا افغانستان بھی ایسے ہی ہے جیسے یہاں ٹی ٹی پی کا پاکستان ہے۔ اور پاکستان صرف وزیرستان اور پختونخوا کے چند علاقوں کا نام نہیں ہے۔ کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سوات ملا فضل اللہ کے اور وزیرستان حکیم اللہ محسود کے کنٹرول میں تھے؟ ایک بھی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ ہاں یہ تھا کہ طالبان وزیرستان کو ڈسٹرب کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ افغان طالبان بھی افغانستان کے کچھ علاقوں میں نظمِ حکومت کو ڈسٹرب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ اہلیت تو بغیر اسلحے کے خدا نے علامہ طاہر القادری کو دے رکھی ہے۔ شیخ رشید بندوق اٹھالیں تو پنڈی کا بھٹا بٹھا سکتے ہیں۔ صوفی محمد دیر پہ ”قبضہ“ کرچکے تھے، آئندہ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک سکندر نامی فاترالعقل شہری نے آٹھ گھنٹے اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا تھا تو وحدت المسلمین پاکستان کے کئی علاقوں پر ”قبضہ“ کیوں نہیں کرسکتی؟ کرسکتی ہے، مگر یہ قبضہ وہی ہوگا اور اتنا ہی ہوگا جتنا طالبان کا افغانستان کے علاقوں پر ہے۔ نظام کو درہم برہم کرنے کی اہلیت موجود ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ملک کی مجموعی آبادی میں طاہر القادری، وحدت المسلمین، شیخ رشید، سپاہ صحابہ یا کسی بھی ہما شما کو حاصل تائید کا تناسب کیا ہے۔

افغان طالبان اگر آزاد افغانستان میں ایک سیاسی قوت بن کر عوام میں چلے جائیں، تو سب سے کم نشستوں کے مالک ہوں گے۔ یہ آٹھ بارہ نشستیں بھی انہیں قندھار اور اس کے اکناف سے ہی مل پائیں گیں۔ یہ نشستیں بھی تب تک رہیں گیں جب تک پختون بیلٹ میں شرح خواندگی صفر رہے گی۔ شرح خواندگی میں جوں جوں اضافہ ہوگا توں توں طالبان کے ووٹ کم ہوتے چلے جائیں گے۔ یوں کہہ لیجیے کہ افغانستان میں جس آشیانے پر ہمارا انحصار ہے وہ شاخِ نازک پر دھرا ہے۔ یہاں ہوا نے فیصلہ کیا وہاں آشیانہ زمین پر۔ آگے کا ہم نے کبھی سوچا؟ کبھی سوچیں گے؟ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا!


اسی بارے میں

افغانستان سے متعلق چند اہم عوامی مغالطے“ از عامر خاکوانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).