شیخو پورہ کا “شیخو” کیوں مارا گیا؟


تُند و تیز جھکڑ نُما ہوائیں اِس قدر گرد و غُبار اُڑا رہی تھیں کہ ہمیں آنکھیں کھولنا اور پاوں زمین پر جمائے رکھنا بھی محال ہو چکا تھا۔ ہم شیخوپورہ کے محلہ زمان پارک کی مسلم بستی میں نعمان مسیح کے گھر کی گلی کی نکڑ پر کسی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ تیز ہواوں کے باعث قریبی کباڑ کی دُکان سے گندے شاپنگ بیگ اور ردی کے کاغذ ہوا میں یوں اُڑتے پھر رہے تھے جیسے برسات کے بعد انگنت بھنورے نمودار ہو گئے ہوں۔ سر منہ ڈھانپے درمیانی عمر کی ایک اجنبی خاتون ہمارے قریب آ کر رُکی، سلام دُعا کرتے اور چادر سنبھالتے ہوئے ہمیں اُس کی آنکھوں میں غم کی گہری نَدِیا بہتی محسوس ہوئی، یوں لگا جیسے چلتے چلتے اُس کا دل اور پاوں سب چھلنی ہو چکے ہیں مگر وہ اب بھی کسی انجانی جستجو میں مگن ہے۔

ہم نعمان مسیح کے خاندان سے اُس کے قتل پر تعزیت، قتل کی وجوہات اور دیگر معلومات اِکٹھی کرنے آئے تھے۔ نعمان کے چاچو ہمیں گھر کے اندر لے کر گئے تو معلوم ہوا کہ راستے کی وہ اجنبی خاتون نعمان کی والدہ ہیں۔ ایک ماں سے اُس کے جوان بیٹے کی تعزیت کرنے کی ہمت بھلا کس میں ہوتی ہے؟ اور کیا ماں بھی کبھی اپنے بیٹے کا غم بیان کر پائی ہے؟ چند لمحات دونوں جانب خاموشی چھائی رہی مگر دونوں جانب کی اِس اجنبیت اور خاموشی میں گہری عقیدت اور مخلصانہ یکجہتی نمایاں تھی۔ المختصر ہم اَن کہے لفظوں سے اُس مادر غم زدہ سے مل رہے تھے۔

چھوٹے سے صحن میں بکھرے برتن، اُن پر بھنبھناتی مکھیاں، دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی چارپائیاں، میلے کپڑوں کی گٹھری، صوفوں اور کُرسیوں فقط گھر کی تمام اشیا کی بے ترتیبی گھر کے افراد کی ذہنی بے حالی اور بےترتیبی کی تصویر نمایاں طور پر پیش کر رہی تھی۔ ماتم میں ڈوبی سبھی نظریں ہمیں دیکھ کر انجانی حیرت میں ڈوب گئیں۔ شیشے کے فریم میں ایک خوبرو نوجوان کی تصویر ہا تھوں ہاتھ ہوتی سامنے میز پر جلتی موم بتی اور گلاب کی پتیوں کے بیچوں بیچ سجا دی گئی اور ہمیں یہ جانے میں چنداں مشکل نہ ہوئی کہ یہ تصویر کس کی ہے۔ ماتمی گھر میں سبھی کچھ ماتم میں ڈوب ہوا تھا۔ گھر کے افراد، گھر کے در و دیوار، پنکھوں کی ہوا، پانی کا ذائقہ، گھر کی اشیا، حتیٰ کہ موسیقی کی دُھن بھی۔ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں ملتے ہوئے اُس دُکھیاری نے ہمیں بتایا کہ نومی موسیقی کا اِس قدر دلدادہ تھا کہ اکثر گمان ہوتا تھا کہ اُس کی روح بھی موسیقی میں ہی گو ندھی ہوئی ہو گی۔

24 سالہ نعمان صوفیانہ اور شرمیلی طبیعت کا مالک تھا ۔ اہلِ خانہ غم اور حیرت کے قلزم میں مبتلا تھے کہ اپنی ہی موج مستی میں مگن، اپنے عقیدے کی تعلیمات پر عمل پیرا مگر دیگر عقائد کے لئے دل میں صد احترام کا جذبہ رکھنے والے نعمان کو مذہبی نفرت کا نشانہ کیوں بنایا گیا ؟ نعمان کی والدہ صدمے سے نڈھال بھی تھی مگر بیٹے کی جدائی کا تذکرہ کئے جاتی تھی۔ کہنے لگی، “اُس صبح تو وہ کام پر بھی نہیں جا رہا تھا، مگر میں نے زبردستی 50 روپے کا لالچ دے کر بھیج دیا کہ شام کی دال روٹی کا خرچہ نکال لائے گا”

خالدہ نے آنسو ضبط کر نے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ نعمان گذشتہ لگ بھگ 6 سال سے شیخوپورہ کے ایک سرکاری محکمہ میں صفائی کی ملازمت کررہا تھا اور فرصت کے اوقات میں روزی روٹی کمانے کے دیگر نجی مواقع بھی حاصل کر لیتا تھا ۔ وہ شام کے اوقات میں علاقے کی کسی با ا ثر شخصیت کے ہاں بھی کام کرتا تھا، جنہوں نے اُسے اتوار کے روز گھر اور گلی محلے کی مکمل صفائی کرنے کا بولا تو نعمان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اتوار کے روز کام نہیں کر سکتا کیونکہ اُسے عبادت کے لئے چرچ جانا ہوتا ہے۔ نعمان کا یہ ” انکار” دراصل مذہبی آزادی کے فروغ  کا اقرار تھا جو قبول نہ کیا گیا۔ اُس انسان دوست اور بھلے شخص کو کیا خبر تھی کہ مذہبی آزادی کے حق کے لئے آواز اُٹھانا اُسے ‘زندگی کے حق’ سے ہی محروم ۔۔۔” یہ جملہ ابھی مکمل بھی نہ ہو پا یا تھا کہ کمرہ بے ربط آہوں، سسکیوں، ہچکیوں، اور بین سے گونج اُٹھا۔

اتوار کے بعد اگلی ہی صبح نعمان کے سینے میں چھ گولیاں اُتار کر اُسے مذہبی آزادی کا سبق سکھا دیا گیا۔ ملزمان بھی گرفتار کئے جا چکے ہیں، تفتیش کا دائرہ بھی وسیع کیا جا رہا ہے۔ حوصلے اور تسلیاں بھی دی جا رہی ہیں، قبر پر پھولوں کی چاردیں بھی چڑھائی جا رہی ہیں اور تعزیتیں بھی جاری ہیں، مگر نعمان کی والدہ فقط ایک ہی سوال پوچھے جا رہی ہے اور بھری دُنیا میں کوئی اُسے تسلی بخش جواب نہیں دے پا رہا۔ خالدہ پو چھ رہی ہے کہ میرے ” شیخو” کو کیوں مارا گیا؟

ہم نعمان مسیح کے گھر شیخوپورہ کے اُس قلعہ کے پاس موجود تھے جسے مغل بادشاہ جہانگیر نے 1607 میں تعمیر کروایا تھا۔ موجودہ شہر شیخو پورہ اپنی ابتدائی شکل میں مغل بادشاہ جہانگیر کی شکار گاہ تھا ۔ اِسی جگہ جہانگیر نے اپنے نام سےایک چھوٹا سا گاؤں “جہانگیر آباد ” بھی آباد کیا تھا۔ چونکہ جہانگیر کو اُس کا باپ اکبر بادشا ہ پیار سے ” شیخو” پکارا کرتا تھا لہٰذا اِس نسبت سے اس گاوں کو بھی شیخو پورہ پکارا جانے لگا، جو آج ایک ضلع کی حیثیت رکھتے ہوئے 5960 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

اپنے باپ اکبر بادشاہ کی طرح جہانگیر عرف شیخو بھی مذہبی رواداری، مذ ہبی آزادی اور مذہبی ہم آہنگی کا قائل تھا، مگر آج “شیخو ” کے اِس شیخوپورہ میں مذہبی رواداری کو مذہبی نفرت کھا گئی، “شیخو ” کے اِس شیخوپورہ میں مذہبی رواداری کوسولی پر چڑھا دیا گیا، “شیخو ” کی انسان دوستی جس کی بنیاد صدیوں پہلے رکھی گئی آج شیخو کی سرزمین میں ہی دفن کر دی گئی تھی۔

نعمان کے چاچو نے ہمیں بتایا کہ نعمان کی والدہ اب بھی اپنے ” شیخو ” کو تلاش کرنے روز گلیوں میں آوازیں لگاتی ہے مگر اِس غمزدہ کو کون سمجھائے کہ ” شیخو ” اور اُس کی روادری کو تو شیخوپورہ کے قلعے کی دیواروں کی تہوں میں کب کا دفن کیا جا چکا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).