میری عید اور عیدی کہاں ہے


روزانہ کے پھیروں، آج کل آج کل کے سیکڑوں بہانوں، ٹنوں خوشامد اور منوں ناراضی کے نتیجے میں عید کا چاند دکھائی دینے کے بھی گھنٹے دو گھنٹے بعد شکور ٹیلرز ترسا ترسا کے بالاخر یہ کہتے ہوئے جوڑے دے دیتا کہ اس وقت کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں لہذا استری گھر جا کے کروا لینا اور اماں سے تاخیر پر معذرت کر لینا۔ یہ شکور درزی کا ہر سال کا معاملہ تھا۔ دادی کہتی تھیں درزی خون کے آنسو نہ رلائے تو کاہے کا درزی۔ بہرحال اس قدر زلت اور خون جلانے کے باوجود جیسے ہی سلا سلایا جوڑا ہاتھ میں آتا ساری کلفت دور ہوجاتی۔ رات کو میں اپنا جوڑا سرہانے رکھ کے سوتا اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھ اٹھ کر دیکھتا کہ اپنی جگہ پر تو ہے نا۔ چاند رات سال کی سب سے طویل رات ہوتی تھی۔ کٹنے کا نام ہی نہ لیتی۔

بے چینی سے کروٹ پر کروٹ بدلنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ صبح ہی صبح نہا دھو کر نئے کپڑے پہن کر ابا کی انگلی تھامے آموں کے باغ میں بنی عیدگاہ میں نماز پڑھنے جانا پڑے گا۔ بلکہ بے چینی کا اصل سبب یہ ہوتا کہ نماز ختم ہو تو ہم ابا کی انگلی چھڑا کے گھر کی طرف بھاگیں اور دادی کی گود میں سر رکھ کے انھیں ایک آنکھ سے ملتجیانہ دیکھنا شروع کردیں۔ دادی کہتیں مجھے پتہ ہے تو کیوں گھسا چلا جا رہا ہے، لا یہ صندوقچی دے۔ اور میں ہاتھ بڑھا کر وہ صندوقچی تپائی سے اٹھاتا اور دادی کے سامنے دھر دیتا۔ اس ’’ خزانے‘‘ کی چھوٹی سی چابی دادی کے گلے میں چاندی کے خلال والی ڈوری کے ساتھ پروئی لٹکتی رہتی۔ دادی اس جادوئی چابی سے صندوقچی کھولتیں اور حساب کتاب کی پرچیوں اور چورن کی جانے کب سے بندھی پڑیوں کو ایک طرف کرتے ہوئے ایک روپے کا بڑا سا سکہ نکالتیں اور یہ کہتے ہوئے ہاتھ پر دھر دیتیں ’’لے کل موہے تیری عیدی‘‘۔ اور کل موہا عیدی پکڑتے ہی یہ جا وہ جا۔ پیچھے پیچھے دادی کی آواز آتی رہتی ’’ یہ آج کل کے بچے کتنے مطلبی ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ توبہ توبہ ‘‘۔ ۔ ۔

دادی کے عطاکردہ کلدار ایک روپے کی اہمیت یہ تھی کہ اب ہم اسے سرٹیفکیٹ بنا کر گھر کے ہر بڑے کے پاس دھڑلے سے جاتے اور ایک روپے کا سکہ ہتھیلی پر جما کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ’’دادی نے عیدی دی ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ تم کس کھیت کی مولی ہو تم بھی عیدی نکالو۔ یوں عیدی وصولی مہم کے نتیجے میں دو پہر تک وہ مطلوبہ رقم جمع ہوجاتی کہ جسے باہر جا کر اپنی مرضی سے اڑایا جا سکے۔ اس دوران امی پیالوں میں شیر خرما ڈال کر چھوٹی چھوٹی ٹریز میں رکھتی جاتیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر ہمسائے کے جتنے بچے ہوتے ان کے لیے پچاس پیسے کے سکے بھی گن کے رکھتیں۔ یہ ٹرے خالہ زہرہ کے ہاں دے آؤ اور پھر انور گرداور کے گھر دے آؤ اور یہ والی ٹرے باجی شہناز کے گھر جائے گی۔ اور ہم باری باری پھیرے لگاتے۔ ان پھیروں کے نتیجے میں ہر گھر سے ہمیں بھی جوابی عیدی ملتی اور جب تک محلے میں شیر خرما بانٹنے کا کام ختم ہوتا تب تک ہماری جیب عیدی کے سکوں سے اتنی بھر جاتی کہ اب پھٹی کہ جب پھٹی۔

اس کے بعد ہم گھر سے دوڑتے ہوئے نکلتے اور ایک بلاک اسکول کے سامنے والے میدان میں پہنچ کر دم لیتے۔ وہاں سے تب تک گھر واپسی نہ ہوتی جب تک آخری سکہ بھی خرچ نہ ہوجاتا۔ میٹھی املی، گھگھو گھوڑے، چرخ چوں چرخ چوں کرتا نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے آنے والا لکڑی کا گھماؤ جھولا کہ جس کے ہر چکر میں پیٹ میں میٹھی میٹھی اینٹھن اٹھتی۔ اور پھر چھرے والی بندوق سے پٹھان کے غبارے پھوڑنے کا کھیل۔ اور پھر بائسکوپ کے جادوئی ڈبے والا جو صرف عید کے دن آتا اور پھر سال بھر کے لیے غائب ہوجاتا۔ بائسکوپ مین ڈبے کے نیچے لگی پھرکی گھماتا جاتا اور ڈبے کے اندر تصویر بدلتی جاتی۔ سترہ من کی دھوبن دیکھو، مکہ دیکھو مدینہ دیکھو، انگریجی میم دیکھو۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد بندر کا تماشا دکھانے والا اور میدان کے آخری کونے پر ریچھ کا ناچ اور بچوں کی تالیاں۔ اور پھر رسیلے گولے گنڈے اور کھوئے والی بڑی قلفی۔ اس کے بعد ان اشیا سے داغدار کپڑوں کے ساتھ گھر واپسی۔ اس زمانے میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے لہذا گھر واپسی پر کپڑے گندے کرنے پر ماں کان ضرور کھینچا کرتی تھی۔

اب تو خیر میرے بچے بہت ہی بڑے ہوگئے ہیں۔ کئی سال مجھ سے پوچھتے رہے بابا آپ عید کے دن کمرے میں کیوں بند رہتے ہیں۔ نئے کپڑے پڑے رہتے ہیں آپ پہنتے کیوں نہیں۔ شام کو جو لوگ ملنے آتے ہیں آپ ان کے ساتھ بیٹھ کے ہنستے کیوں نہیں۔ صرف پانچ منٹ رسمی سی بات چیت کر کے کیوں اٹھ جاتے ہیں۔ بابا عام دنوں میں تو آپ اتنا ہنستے ہیں مگر عید کے دن آپ کا چہرہ اسپاٹ کیوں ہوتا ہے۔

کئی عیدیں گزر گئیں اب بچوں نے مجھ سے پوچھنا چھوڑ دیا ہے۔ البتہ ایک روائیت ضرور برقرار ہے۔ صبح وہ ایک ایک کر کے میرے کمرے میں آتے ہیں۔ سلام کرتے ہیں اور میں انھیں پہلے سے بنا کر سرہانے رکھے لفافے میں سے کوئی ایک پکڑا دیتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ غیر مناسب رویہ ہے۔ مجھے اپنے لیے نہیں تو اپنے بچوں کے لیے ضرور عید کے دن وہ سب کرنا چاہیے جو وہ کہتے ہیں۔ مگر میں کیا کروں۔ عید کے دن وہ بچہ کہیں سے میرے سامنے آ کے کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر خالی خالی نظروں سے چاروں طرف وہ سب ڈھونڈتا رہتا ہے جو اب کہیں نہیں۔

ہاں وہ کلدار ایک روپے کا سکہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ ہر عید پر میں اسے الماری سے نکالتا ہوں اور دیر تک الٹتا پلٹتا رہتا ہوں اور پھر دروازے پر دستک سنتے ہی تکیے کے نیچے چھپا دیتا ہوں۔

ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سیکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دوکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں تول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا ننھا سا لڑکا کہاں ( ابنِ انشا )

5 جولائی 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).