روہنگیا مسلمان آنگ سان سوچی کا انتظار کر رہے ہیں
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ رخائن میں ’حالات نہایت خراب‘ ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ آنگ سان سوچی اس معاملے کے حل کے لیے ’قدم اٹھائیں‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بار رخائن میں ہونے والی تباہی اکتوبر کے واقعات سے ’کہیں زیادہ بڑی ہے‘۔
‘ملک کی حقیقی سربراہ کو اس موقع پر ضروری اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ وہ ملک کی حدود میں موجود تمام لوگوں کا تحفظ کریں اور اس بات کی توقع ہم کسی بھی حکومت سے کرتے ہیں۔ ‘
نوبیل امن انعام یافتہ، پاکستان کی ملالہ یوسفزئی نے بھی اپنی ٹویٹ میں جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ وہ روہنگیا کے معاملے پر آنگ سان سوچی کا بیان سننے کا انتظار کر رہی ہیں۔
‘تمام دنیا اور خاص طور پر روہنگیا مسلمان آنگ سان سوچی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘
واضح رہے کہ ماضی میں آنگ سان سوچی نے ملک میں جمہوریت کی خاطر جدوجہد کی اور ان کی وجہ سےوہ کئی سالوں تک نظر بندی کا شکار رہیں۔ سن 1991 میں ان کو اس جدوجہد کی کے صلے میں امن کے نوبیل پرائز سے بھی نوازا گیا۔
آنگ سان سوچی ملک کی سرکاری طور پر صدر نہیں ہیں لیکن انھیں ہی ملک کا حقیقی سربراہ تصور کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق حالیہ واقعات کے بعد اب تک 87000 روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ تعداد اکتوبر 2016 میں کی جانے والی نقل مکانی سے زیادہ ہے۔
دونوں دفعہ معاملات اس وقت شروع ہوئے تھے جب روہنگیا شدت پسندوں نے میانمار پولیس کی چوکیوں پر حملہ کیا تھا جس کے بعد ملک کی فوج نے ان پر چڑھائی کر دی تھی۔
روہنگیا مسلمان ملک کی وہ اقلیت ہیں جن کو میانمار کا شہری تصور نہیں کیا جاتا۔ ملک بدر ہونے والے کئی روہنگیا مسلمانوں نے بتایا کہ ان پر حملہ کرنے والوں میں میانمار کی فوج کے علاوہ رخائن میں بدھ مت کے پیرو کار تھے جنھوں نے ان پر حملہ کر کے ان کے گاؤں کو نذر آتش کیا اور شہریوں پر حملہ کیا۔
سیٹیلائٹ سے ملنی والی تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رخائن کے شمالی حصے میں کئی مقامات پر آگ لگی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایک تصویر جاری کی ہے جس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے ایک گاؤں میں 700 گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
میانمار کی حکومت کے مطابق ملک کی فوج روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو شہریوں پر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔
آزادانہ طور پر ان دعوؤں کی تصدیق کرنا کافی دشوار ہے کیونکہ حکومت نے اس علاقے تک صحافیوں کو رسائی نہیں دی ہوئی ہے۔
ادھر بنگلہ دیش میں بی بی سی کے نمائندے کے مطابق بنگلہ دیش کے سرحدوں کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکار روہنگیا مسلمانوں کو دریائے ناف عبور کر کے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں حالانکہ کہ سرکاری طور پر حکومتی نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
- کوہلی کے جانشین سمجھے جانے والے کرکٹر جن کا کیریئر ’آئی پی ایل سے ملی شہرت، پیسے‘ کی نذر ہوگیا - 09/12/2024
- بشار الاسد کی اقتدار سے بےدخلی ’پوتن کے لیے دھچکا‘: اب شام میں روسی اڈوں کا کیا ہو گا؟ - 09/12/2024
- زیر زمین کال کوٹھڑیاں اور اُن پر لگے کوڈز: دمشق میں ’انسانی مذبح خانہ‘ قرار دی گئی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے سامنے آنے والی کہانیاں - 09/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).