گاڈ فادر اور درویش کی صدا


بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ عین ویسا ہی‘ جیسے اس زمانے کے اور بہت سے بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مکمل لٹ (آرام طلب) تھا۔ وہ اپنا بہت سا وقت محل کے جھروکوں میں بیٹھ کے گزارتا تھا۔ ملک جیسے تیسے چل ہی رہا تھا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے اس کی اچھی خاصی سیر بھی ہو جاتی اور ڈائریکٹ عوام الناس کے حال سے بھی واقفیت ہو جاتی تھی۔ ایک مرتبہ شدید گرمی کا موسم تھا، وہ اپنے وقت سے کچھ پہلے ہی آ کر جھروکے میں بیٹھ گیا اور نظارہ کرنے لگا۔ اسے ایک آواز آئی، ”کبھی نہ ٹوٹنے والے خوبصورت پنکھے خرید لو، دستی پنکھے، مضبوط ترین پنکھے خرید لو‘‘۔ ویسے تو بادشاہ فل ٹھنڈ پروگرام میں تھا، خس کی چکیں لگی تھیں، ملازم پنکھا جھل رہے تھے، برف کا پانی پیتا تھا‘ لیکن اس نے سوچا کہ یار دیکھتے ہیں چیز کیا ہے‘ جس کے بارے میں اتنا بڑا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس نے پنکھے بیچنے والے کو محل میں بلوا لیا۔

”ہاں بھئی، ہم نے تمہاری آواز سنی پنکھے والے، تم کہتے تھے کہ یہ پنکھے کبھی نہیں ٹوٹ سکتے، ہمیں بتاؤ ان میں کیا خوبی ہے، یہ کس دھات کے بنے ہیں جو تم اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہو، اور ہاں، مول کیا ہے ان پنکھوں کا؟‘‘

پنکھے والے نے دونوں ہاتھ جوڑ کر جواب دیا، ”ظل سبحانی، خدا آپ کا اقبال مزید بلند کرے، سرکار یہ پنکھے انمول ہیں، ان کی خوبی یہی ہے کہ یہ دو سو برس تک بھی استعمال ہوں تو یہ ٹوٹیں گے نہیں، آپ آزما کے دیکھ لیجیے، آپ کے خزانوں میں برکت ہو جہاں پناہ، ایک پنکھا سو اشرفیوں کا ملے گا‘‘۔

بادشاہ غصے میں آ گیا، ”تم ہمیں اور اس دربار میں موجود تمام لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہو؟ یہ ہلکے پھلکے سے پنکھے‘ جو ابھی ہم موڑیں تو ٹوٹ جائیں، یہ تم ہمیں سو اشرفی میں فروخت کرو گے؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمیں دھوکا دینے کی؟‘‘۔

”مہاراج، یہ سب پنکھے آپ کے ہیں، آپ ہی کا دیا کھاتے ہیں، حضور ایک دمڑی بھی نہ دیں اور سارے رکھ لیں مگر میں دھوکا کیسے دے سکتا ہوں؟ فصیل کے باہر سرائے کے ساتھ میری جھونپڑی ہے اور مرکزی بازار میں روز پھیرے لگا کے یہ پنکھے بیچتا ہوں، جب کبھی شکایت ہو بلوا لیجیے عالم پناہ، سر کے بل غلام حاضر ہو گا‘‘۔

بادشاہ کو گیم سمجھ میں آ نہیں رہی تھی لیکن بہرحال ٹرسٹ لیول کچھ بن گیا تھا۔ اس نے دو سو اشرفیاں دلوائیں اور دو پنکھے خرید لیے۔ اب روز صبح وہ جھروکے میں بیٹھتا تو ایک پنکھا بھی ہاتھ میں لے لیتا۔ تیسرے دن ہی ایک پنکھے کی ڈنڈی ٹوٹ گئی۔ دوسرے والا منگوایا، جھلتے جھلتے پانچویں دن اس کی بُنائی بھی فارغ ہو گئی۔ اب بادشاہ کا موڈ سخت آف تھا۔ اس نے پنکھے والے کو بلوا لیا۔

”ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تم دھوکے باز ہو، احمق انسان، بادشاہوں سے تجارت میں جھوٹے سودے کرتے ہو، یہ سامنے پڑے ہیں پنکھے، دو صدیوں کی بات کرتے تھے، کتنے دن ہوئے ہیں تمہیں یہاں سے دو سو اشرفیاں لے کر گئے؟، ایک ہفتے سے بھی پہلے یہ دونوں پنکھے ٹوٹ چکے ہیں، تمہیں عتابِ شاہی کا سامنا کرنا ہو گا بے ایمان شخص‘‘۔

پنکھے والا ایک دم سکون میں تھا۔ بہت عاجزی سے کہنے لگا، ”میرے آقا، جان کی امان ہو تو کچھ عرض کروں؟ خدا گواہ ہے کہ شاہوں کی حضوری ہو یا فقیروں کا تکیہ، پنکھے والا کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ کیا صرف اتنا پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں مہابلی کہ آپ نے یہ پنکھے استعمال کیسے کیے؟‘‘ بادشاہ اور تپ گیا، ”ابے تم اب ہمیں پنکھا استعمال کرنا سکھاؤ گے گھونچو، حد ہے، تم نے دربار کو مذاق سمجھا ہوا ہے‘‘۔ پنکھے والے نے بہت منت سماجت کی تو بادشاہ نے ایک پنکھا اٹھایا‘ اور جھل کر اسے دکھا دیا۔ جب بادشاہ پنکھا جھل رہا تھا تو پنکھے والے کے چہرے پر آسمانی سکون نظر آتا تھا۔ وہ اچانک بالکل مطمئن ہو گیا تھا۔ کہنے لگا، ”قبلہء عالم، اب ساری بات سمجھ میں آ گئی، حضور کے دشمنوں نے پنکھا غلط طریقے سے استعمال کیا ہے‘‘۔ بادشاہ جزبز ہو گیا، پہلو بدلا اور کہنے لگا کہ تم خود ہی بتا دو ٹھیک والا طریقہ کیا ہو گا۔ جواب ملا، ”سلطان ذی شان، آپ پنکھے کو مضبوطی سے پکڑیے اور اسے ہلائیں ہرگز نہیں، پنکھا تھامے تھامے آپ اپنے سر کو دائیں بائیں ہلائیں گے۔ مجال ہے جو آپ کے پڑپوتے بھی اسے استعمال نہ کریں تو۔ مہابلی قصور میرے پنکھوں کا نہیں ہے، پنکھا صرف اس لیے ٹوٹا کہ میرے منہ میں خاک، سرکار درست طریقہ نہیں جانتے تھے‘‘۔

سرکار نے پھر وہی کیا جو کرنے کا حق تھا۔ سلطنت میں اگلے پچاس برس کوئی ہاتھ کے پنکھے بیچنے والا نظر نہیں آیا‘ لیکن اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ وہی کہانی دہرائی جانے لگی۔ کہانیوں میں کردار بدلتے ہیں لیکن مدعا وہی رہتا ہے۔ ہم وقت کے بادشاہ ہیں لیکن ہمارے سامنے جو بھی پنکھا بیچنے آتا ہے اس کی کہانی پر یقین کر لیتے ہیں۔ ہم جاہ و جلال دکھانے کی پوزیشن میں تو کبھی تھے ہی نہیں لیکن سوچنا ترک کیے بھی مدتیں ہو گئیں۔ ہمارا بنایا گیا سابق وزیر اعظم پوچھتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ہمارا منتخب شدہ سابق صدر کسی گیٹ سکینڈل میں پھنستا ہے تو ہم

اس کہانی پر یقین کر لیتے ہیں، ہر بندہ جسے ہم ووٹ دیں وہ اچانک بدعنوان نکل آتا ہے اور ہم گھر میں بیٹھے سر دائیں بائیں ہلاتے رہتے ہیں۔ دائیں بائیں کھوپڑی گھماتے ہوئے ہم کبھی یہ تک نہیں سوچتے کہ اصل گاڈ فادر ہوتا کون ہے۔ گاڈ فادر کبھی نہیں چیختے کہ مجھے کیوں نکالا، گاڈ فادر کبھی بیوی کی لاش پر بیٹھ کر پاکستان کھپے کا نعرہ نہیں لگاتے، گاڈ فادر کبھی آج تک سولی نہیں چڑھے، گاڈ فادر کبھی مقدموں میں پھنستے نہیں ہیں، گاڈ فادر راج کرتے ہیں، گاڈ فادر ناچتے گاتے بے فکرے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ سب ہلکے کام جو ہیں یہ کمی کمین کرتے ہیں۔ گاڈ فادرکوئی اور ہوتا ہے۔ ہر دور میں ایک درویش خدا کی زمین پر موجود ہوتا ہے جو اردگرد کے ماحول سے بے پروا اپنی صدا لگائے جاتا ہے۔ اس عہد کے وہ درویش رضا ربانی ہیں۔ یہ الگ معاملہ کہ ان کی بات خود قیادت پسند کرے یا نہ کرے، ہوتی جینوئن بات ہے۔

گرینڈ ڈائیلاگ کی آفر ہو یا نصاب میں جمہوریت اور ڈکٹیٹرشپ کے اسباق کا معاملہ ہو، اٹھارہویں ترمیم کے وقت باسٹھ تریسٹھ ختم کرنے کی بات ہو یا سینیٹ میں موجود سابق آمروں کی تصاویر ہٹانے کی بات ہو، جو بھی کہیں گے نپا تلا کہیں گے، اختلاف بھی ہو گا تو مہذب طریقے سے ہو گا۔ وقت ثابت کرے گا کہ درویش کی یہ آواز صحرا میں رائیگاں نہیں گئی۔ پیپلز پارٹی قیادت فی الحال جس موڈ میں ہے، اسے آسان ترین محاورے میں تفریح لینا کہا جا سکتا ہے۔ وہ صورت حال انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابات کی تیاری شروع کر چکے ہیں۔ چونکہ فیصلہ سازوں کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اصل جوڑ دو پارٹیوں کے درمیان ہے اور وہی دونوں ایک دوسرے کو کاٹ سکتی ہیں تو اس لیے یک نشستی پارٹیاں بھی آج کل سکون میں ہیں اور سڑکوں پر آنے کی دھمکی دینے والے بھی نئی ورزشیں سوچ رہے ہیں۔ جلد یا بدیر پیپلز پارٹی کو اسی ورک پلان پر آنا پڑے گا جس کی طرف رضا ربانی گاہے بگاہے اشارہ کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ پنکھے والوں کی گیم آہستہ آہستہ سب سمجھ ہی جائیں گے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain