روہنگیا: جذبات کی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے


چھوٹے بڑے کی تخصیص نہیں اور نہ ہی اصل موضوع کا معلوم ہونا شرط ہے، بس اتنا معلوم ہونا کافی ہے کہ برما نامی ایک زمین کا ٹکڑا ہے اور اس میں کچھ مسلمان بستے ہیں ان کو روہنگیا کیوں کہا جاتا ہے سچی بات ہے بہت سوں کو نہیں معلوم۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جائیں تو ہر طرف برما کے روہنگیا مسلمانوں کہ حالت زار کا رونا رویا جا رہا ہے۔ جہاد کی فرضیت کی باتیں کی جارہی ہیں اورمسلمانوں کا لہو گرمانے کے لئے ایسی ایسی ویڈیوزپوسٹ کی جارہی ہیں کہ عقل کا دروازہ کھول کر دیکھا جائے تو اگلے ہی لمحے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی فلم کا سین ہے جسے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کا نام دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔ دروغ بر گردن راوی! ایک عالم (معلوم نہیں کس چیز کے عالم ہیں) یہاں تک فرمایا ہے کہ بدھ بھکشو روزانہ مسلم خواتین کی چھاتیوں سے ناشتہ کرتے ہیں۔

ایک جھوٹ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی فوج کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا ان کو واپس سمندر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک سوا لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ در اصل برما میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہاں تک عالمی میڈیا کی رسائی بالکل بھی نہیں ہے، محدود پیمانے پر جو خبریں اور تصاویر ہمیں میسر ہیں ان کی بنیاد پر معاملے کی درست اور حقیقی تصویر سامنے نہیں آرہی اور ہم سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مجبورہیں۔ لیکن جو معلومات دستیاب ہیں ان کی روشنی میں ایک بات طے ہے کہ برما کے روہنگیا مسلمانوں پر مقامی انتہاپسند بدھ بھکشووں کے مظالم اور ریاستی مشینری کی مجرمانہ خاموشی نے ایک عظیم انسانی المیے کو جنم دیا ہے جس کا حل صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ خطے اور دنیا کے تمام ملکوں پر فرض ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس معاملے کے حل کی طرف جائیں ایک مختصر جائزہ ہم اس بات کا لیتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے کیا؟

میانمار کا پرانا نام برما ہے اور اس کی آبادی تقریبا پانچ کروڑ ہے۔ تاج برطانیہ نے 1884میں برما پر برطانوی راج قائم کیا تھا اور برصغیر کے آخری مسلم بادشاہ بہادرشاہ ظفر کا مزار بھی میانمار کے ایک شہر رنگون میں ہی واقع ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ جبکہ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی تعداد تیرہ لاکھ کے قریب ہے جو زیادہ تر صوبے اراکان جس کا پرانا نام رخائن ہے میں مقیم ہیں۔ میانمار کی سرحدیں چین، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور لاؤس سے ملتی ہیں۔ میانمار روہنگیا نسل کے مسلمانوں کواپنا شہری تسلیم نہیں کرتا اور انہیں بنگالی کہا جاتا ہے لیکن بنگلہ دیش کی حکومت بھی ان کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ برمی حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ روہنگیا مسلمان ملک چھوڑ دیں لیکن اس کے لیے ان کو ضروری سفری دستاویزات بھی فراہم نہیں کرتی یعنی ان کو جینے کی سہولت بھی نہیں اور مرنے کی اجاز ت بھی نہیں دی جاتی۔

میانمار یا برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کی تاریخ جتنی پرانی ہے اتنی ہی پیچیدہ بھی ہے۔ بعض حوالوں سے اس کی تاریخ 1559 تک بتائی جاتی ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے چلا آرہا مسئلہ یہ ہے کہ 1982میں میانمار میں ایک آمر کے دور میں بنائے گئے قانون کے مطابق 1823کے بعد برٹش انڈیا کے کسی بھی علاقے سے یہاں آنے والے افراد برما کے شہری نہیں ہوسکتے، یہی وہ قانون ہے جس نے روہنگیا کے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں بیٹھے بٹھائے بے یارو مددگار کر دیا۔ یعنی ان کے آباؤ اجداد نے برسوں پہلے جو ہجرت کی تھی وہ ان کے جرم بن گئی اور ان کو برما یا میانمار کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اس حوالے سے امن کا نوبل انعام بٹورنے والی آنگ سان سوچی کا کردار انتہائی شرمنا ک ہے ان کے نزدیک روہنگیا مسلمانوں کو یا تو ملک بد ر کر دینا چاہیے یا کیمپوں میں محصور۔ یہ وہی سوچی ہے جس کے گلے میں پاکستان نے ’’ بینظیر بھٹو جمہوریت ایوارڈ ‘‘پہنایا تھا۔

باوجود اس کے کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے اور عالمی برادری خصوصاً مسلم ملکوں کو اس پر سنجیدگی کے ساتھ موثر عملی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن اس میں جذباتی ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ کچھ فیس بکی ’’دانش ور‘‘ جنر ل قمر جاوید باجوہ کو محمد بن قاسم کا نام لے لے کر غیر ت دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کل ہی میری نظر سے گزرا کہ ’’جلالی بابا‘‘ نے مزدلفہ میں بیٹھ کر ایک ویڈیو پیغام میں فرمایا ہے کہ ’’تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ حکومت پاکستان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ برما کے مسلمانوں کی حمایت میں پاک فوج فوری طور پر برما بھیجی جائے کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے اس وقت برما کے مسلمانوں کی حمایت کے لئے جہاد فرض ہوچکا ہے اور نظریہ پاکستان پر بننے والی سلطنت کی فوج جو صرف پاکستان کی فوج نہیں عالم اسلام کی بھی فوج ہے ‘‘۔ یہ وہی ’’جلالی بابا ‘‘ہیں جن کی موجودگی میں ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پراسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کے دوران پیر افضل قادری نے جلال میں آکر ننگی گالیاں ارشاد فرمائی تھیں۔ ان جلالی بابا کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں یہ اپنے رضاکاروں کو برما جانے کی اجازت دینے کی بات کرتے ہیں۔

اب جلالی بابا کو یہ کون بتائے کہ حضور اجازت تو آپ کو برما کی حکومت سے لینا ہوگی اور جس فوج کو آپ برما بجھوانے کی بات کررہے ہیں وہ تو برما کو جے ایف سیون ٹین تھنڈر طیارے بنا کر بیچ رہی ہے۔ مجھے تو شک ہے کہ جلالی بابا نے کبھی برما کا نقشہ بھی نہیں دیکھا، وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ بس میں بیٹھے اور ایک دو راتوں کے سفر کے بعد قندھار یا کشمیر کی طرح برما میں پہنچ گئے۔ انہیں شاید معلوم نہیں کی برما تک پہنچنے کے لئے بھارت یا چین جیسے طویل وعریض ملک میں سے گزر کر برما کی سرحد تک پہنچنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی برما کوئی گیا گزرا ملک نہیں بلکہ پانچ لاکھ کی منظم فوج کے ساتھ دنیا کی بارہویں بڑی فوجی طاقت ہے اور اگر جلالی بابا کو فرصت ہو تو گوگل بابا سے پوچھ لیں کہ کہ میانمار کا جنرل من آنگ ہلینگ کون ہے، سنا ہے کوئی جنرل ضیاع جیسی پرسنالٹی ہے۔ مجھے تو یہ خدشہ ہے کہ مزدلفہ میں بیٹھ کر جو حرکت جلالی بابا نے فرمائی ہے، سعودی حکومت نے اس کا نوٹس لے لیا تو پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات متاثر نہ ہوجائیں کیونکہ سعودی حکومت خاص طورپر حج کے دوران کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کو قطعی برداشت نہیں کرتی۔

اب رہی بات یہ کہ روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ جو حقیقی طور پر ایک انسانی بحران بن چکا ہے اس کے حل کے لئے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے تو سب سے پہلے تو پاکستان کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا جہاں میں کہیں بھی جو کوئی بھی مسئلہ ہو اسے حل کرنا صرف پاکستان ہی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ نمبر دو، ترکی واحد مسلم ملک ہے جو روہنگیا مسلمانوں کی عملی مدد کررہا ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے چین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور چین نے برما میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ پاکستان اگر ترکی کے ساتھ مل کر چین کی مدد سے میانمار پر روہنگیا مسلمانوں کے لئے امدادی سرگرمیاں شروع کرانے کے لئے دباؤ ڈالے تو یہ ایک اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے، دوسرے مرحلے پر پاکستان اور ترکی دونوں مل کر چین ہی کی وساطت سے میانمار پر سفارتی دباؤ برقرار رکھتے ہوئے ایسا ماحول بنائیں جس میں میانمار کے حکمرانوں سے یہ بات کی جاسکے کہ انسانی جان کو کسی بھی حالت میں احترام دیاجانا چاہیے اور انسانیت کے ناطے گزشتہ صدی سے چلے آتے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تو اس بحران کے حل ہونے کی امید ہے۔ کیونکہ برما اس معاملے پر اقوام متحدہ کا کوئی کمیشن بھی قبول کرنے کو تیار نہیں اور پاکستان کے برما کے ساتھ تعلقات واجبی سے ہی ہیں اس لئے پاکستان براہ راست اس پوزیشن میں ہرگز نہیں کہ برما کو اس بحران کے حل پر مجبور کر سکے۔ دوسرے ملکوں پر اثر انداز ہونے کے لئے عالمی سطح پر نہ صرف آپ کو معاشی طور پر طاقت ور ہونا پڑتا ہے بلکہ عالمی سطح پر فوجی طاقت نہ ہونے کی صورت میں بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا۔ اگے تواڈی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).