شرفو اور برما کے مظلوم مسلمان


”سر جی!  ابھی دیر کس بات کی ہے ہماری پوری ٹیم تیار ہے ۔بس ایک اشارہ کیجئے قسم پنیر کی تہلکہ مچا دیں گے، سر جی!  اب تو دو ہزار بندہ تگڑا پہلوان بھی کرائے پر حاصل کر لیا ہے کہیں آگ لگوانی ہو، مخا لف گروپ میں پھوٹ ڈلوانی ہو، کافر کو مسلم یا مسلم کو کافر ثابت کرنا ہو، شہید کو مردود یا مردود کو شہید کا سر ٹیفکیٹ دینا ہو ۔۔۔ ہر طرح کی خدمات حاضر ہیں، بس تھوڑا معاوضہ زیادہ ہو گا۔۔۔ وہ کیا ہے ناں کہ بعض اوقات بندہ بھی لڑھکانا پڑ سکتا ہے۔۔۔ اس سے بھی انکار نہیں اور پھر ایسی با اعتماد اور ہمہ قسمی خدمات آپ کو اور بھلا کہاں سے مل سکتی ہیں؟ ویسے سر جی!  سنا ہے بڑا خون خرابا ہو رہا ہے، بچوں اور عورتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔۔۔ برمودا میں

”برمودا نہیں شرفو برما کہو، برما“

”اپنی بلا سے، برما ہو یا شرما ۔۔۔ ہم تو حکم کے بندے ہیں سر جی!  پھر کیا خیال ہے کل صبح کر دیں سڑکیں بلاک، بول دیں ہلا اور ہو جائے دمادم مست قلندر۔ قسم پنیر کی ہمارے نعروں کی گونج چاند تک پہنچے گی۔۔۔ ویسے تو آپ بندہ پرور ہیں سر جی!  ہمیشہ دامن بھر کے دیتے ہیں مگر اب کے معاوضہ تھوڑا ایڈوانس ہو جائے تو ۔۔۔ اور ہو بھی سیدھا ڈالر میں۔۔۔ ضدی بچے دوبئی میں بزنس کرنا چاہتے ہیں، اپنے ملک کا کیا بھروسہ جی پہلے ہی کاروبار ٹھپ ہے“

”شرفو! تجھے کہا ناں ابھی نہیں ضرورت، جب ضرورت پڑے گی بلا لیں گے“

”سر جی! میں نے تو سنا ہے بہت خون کیا جا رہا ہے، بچوں کی گردنیں کاٹ کاٹ کے پھینک رہے، عورتوں کو زندہ جلا رہے، توبہ توبہ ۔۔۔ میرا تو سچ مچ خون کھول اٹھا۔۔۔ بس آپ اجازت دیجئے۔۔۔“

”یہ سب کہاں سے سنا تم نے؟“

”سر جی! وہ ہمارے محلے کے لڑکے فون پر دکھا رہے تھے“

”کسی ٹی وی پہ دیکھا؟ کوئی پروگرام سنا؟ کوئی خصوصی فیچر؟۔۔۔“

” نہیں سر جی!  میں تو ٹی وی دیکھتا بھی کم ہوں دیکھتا بھی ہوں تو اپنی احتجاجی رپورٹیں اور بس“

” فیس بکی باتوں پہ کان مت دھرا کرو شرفو! “

”تو کیا وہ سب جھوٹ بول رہے ہیں سر جی! “

”جھوٹ تو نہیں مگر ایسے سچ کا فائدہ جس کا صلہ ڈالروں کی صورت میں نہ ملتا ہو، سن شرفو!  یہ عراق یا افغانستا ن نہیں کہ تیل اور گیس ملے اور نہ یہاں پہ سفید ریچھ نے پنجے گاڑھ رکھے ہیں کہ رستہ روکنا لازم ہو، نہ کوئی تجارتی راہداری کہ فتنہ کھڑا کیا جائے، اربوں ڈالر کی ہڈی اپنے پالتو میڈیائی چوپائیوں کو ڈالی جائے۔۔۔ یہ برما ہے پیارے برما، یہاں صاحب بہادر اور حواریوں کو ملے گا کیا۔۔۔ لے دے ”گولڈن لینڈ“ ہی ہے اب بھلا کوئی ٹوکرے بھر بھر مٹی تھوڑی اٹھا لے جا سکتا ہے۔۔۔اور سن یہ خطہ زرخیز سہی مگر طالبانی تخم کے لئے پھر بھی موزوں نہیں اور نہ جہادی ہنڈیا کودہشت گردی کا تڑکا لگا کر تہذیبی چوراہے پر پھوڑا جا سکتا ہے۔ اور پھر مر نے والے گورے چھوڑ، کالے بھی نہیں، نیلے پیلے بھی نہیں، کوئی یورپی یا امریکی نہیں، شودر یا سکھ نہیں۔۔۔خالص مسلمان ہیں۔ ایسے ہزاروں نہ سہی سینکڑوں تو ہر روز مرتے رہتے ہیں۔ کشمیر میں بھارتیوں کے ہاتھوں، ہندوستان میں ہندوﺅں کے ہاتھوں، فلسطین میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں، شام، مصر اور لبنان وغیرہ میں مجاہدینِ کفر کے ہاتھوں، افغانستان میں ایک امیر المومنین کی قیادت میں سابقہ امریکی مائی باپ اور موجودہ دہشت گردوں کے ہاتھوں (سابق امریکی صدر ریگن نے طالبان اور کمپنی کو وہائٹ ہاﺅس میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا تھا کہ ان بزرگ ہستیوں کو دیکھ کر امریکی باوا آدم کی یاد تازہ ہوتی ہے) جہاں کوئی اور نہ پہنچ سکے وہاں ڈرونز کے ذریعے۔۔۔ اب بیچارے برمی بدھ یہ ’کارِ خیر‘ انجام دے رہے تو کون سی قیامت آن پڑی ہے۔۔۔ خیر چھوڑ ان باتوں کو، جب او آئی سی (OIC)اور عرب لیگ جیسے مہا گرو نہیں بول رہے تو ہم کس کھیت کی مولی؟۔۔۔“

”سر جی!  یہ موٹی موٹی باتیں ہم سے مت کرو، بس کام اور اس کا معاوضہ ۔۔۔ ویسے یہ ’او آئی سی‘کس بلا کا نام ہے؟“

”تم بھی بدھو کے بدھو ہی رہے شرفو۔۔۔’او آئی سی‘ یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن“

”سر جی!  پھر اسی ’او آئی سی‘ والی خالہ کو بولو نا صاحب بہادر اور اتحادیوں کے کان میں چپکے سے یہ بات ڈال دے کہ مرنے والے بیچارے، معصوم اور بے ضرر بدھ ہیں جبکہ مارنے والے ظالم اور دہشت گرد مسلمان ۔۔۔ تبھی تو دنیا حرکت میں آئے گی، ہمیں بھی جلسے جلوسوں کا حکم ملے گا۔ دال روٹی بھی تو چلانی ہے۔۔۔اب تو ویسے بھی سچ مچ ظلم ہو رہا“

”ہا ہاہا!  شرفو!  ہمارے ساتھ رہ رہ کے تم بھی سیانے ہو گئے ہو، مگر یہ ٹیڑھی کھیر ہے، یہ فلسفے تمہاری سمجھ سے بہت دور ہیں۔۔۔ فرض کرو مرنے والوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے، ظالم بدھ متوں کے ہاتھوں بچ بھی جائیں تو ’اہلِ اسلام‘ ہی کے ہاتھوں کافر کافر اور مرتد کہلا کر ذبح کر دئیے جائیں گے اور پھر دوسری بات یہ بھی کہ ان برمی مسلمانوں کی زندگی بچ بھی جائے تو تم لوگ کس یاد میں شمعیں جلاﺅ گے، کس کے نام کی فاتحہ پڑھو گے، دیگیں کیونکر بٹیں گی؟۔۔۔ سب چھوڑو مگر مجھے لگتا ہے کہ تمہاری غیرت جاگ رہی تمہیں ٹھکانے لگا کر ہمیں اب کوئی اور’ مناسب آدمی‘ تلاش کرنا ہوگا“

”نہیں نہیں سر جی!  میں آپ کا غلام، میں آپ کا نوکر۔۔۔ لو میری زبان پر تالا لگا کر چاہے تو چابی دریا میں پھینک دو، چاہے اپنی جیب میں رکھ لو جب چاہے کھول لینا جب چاہے بند کر دینا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).