لوگ خاتون قاضیوں سے نکاح کیوں نہیں پڑھواتے؟


جے پور کی قاضی جہاں آرا اور افروز تین طلاق، نکاح اور حلالہ جیسے تمام معاملوں میں خواتین کو مشورہ دیتی ہیں۔ لیکن انہیں اس دن کا بے صبری سے انتظار ہے جب کوئی خاتون ان سے پہلا نکاح پڑھوانے آئے گی۔ انڈیا میں مسلم خواتین کی فلاح کی طرف پہل کرتے ہوئے پچھلے برس ممبئی کے ادارے دارالعلوم نے 30 مسلم خواتین کو قاضی بننے کی تربیت دی تھی۔

تربیت کے بعد 18 خواتین نے قاضی کا امتحان پاس کیا اور ان میں سے پندرہ نے پریکٹس کا دور بھی پورا کر لیا۔ ان میں جہاں آرا اور افروز بھی شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے امتحانات میں اول آنے کے باوجود معاشرے نے ان کی قابلیت کو قبول نہیں کیا ہے۔ انڈیا میں روایتی طور پر مرد قاضی ہی نکاح پڑھواتے آئے ہیں۔

انڈیا میں نیشنل ویمین ویلفیئر سوسائٹی کی سربراہ نشاط حسین نے بی بی سی کو بتایا ‘خواتین قاضیوں سے نکاح پڑھوانے کے لیے آج تک ان کے دفتر میں ایک بھی درخواست نہیں آئی ہے۔ یہ صرف جے پور کی بات نہیں ہے۔ انڈیا کے کسی اور علاقے میں بھی اب تک کسی خاتون قاضی کو نکاح پڑھوانے کا بلاوا نہیں آیا ہے۔’ قاضی افروز کہتی ہیں ‘دیکھا جائے تو قرآن میں تو یہ کہا ہی نہیں گیا ہے کہ نکاح عورت پڑھوائے یا مرد۔ لیکن راسخ العقیدہ سوچ والے لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر خواتین یہ کام کرنے لگیں گی تو مردوں کا دبدبہ ختم ہو جائے گا۔’

قاضی جہاں آرا کہتی ہیں ‘حالانکہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ جب ان کے گھر میں کوئی شادی ہوگی تو انہیں بلوائیں گے۔ لیکن سب یہ ہی سوچتے ہیں کہ پہل میں کیوں کروں کوئی اور کرے۔ ‘

دارالعلوم نسواں نے نکاح نامہ کا ایک نمونہ بھی تیار کیا ہے۔ نکاح کروانے سے ایک مہینہ پہلے درخواست دینے کا اصول ہے۔ نشاط کہتی ہیں ‘یہ قاعدہ بہت اچھا ہے لیکن یہی رکاوٹ بھی بن رہا ہے۔ کیوں کہ روایتی قاضی سے نکاح پڑھوانے کے لیے ایسا کوئی نوٹس پیریڈ نہیں ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے قواعد کے مطابق دونوں خاندانوں سے دی گئی معلومات کی تصدیق کے بعد ہی ہم نکاح پڑھوا سکتے ہیں۔’

دارالعلوم نسواں کی بانی ذکیہ ثمن کے مطابق اسلام میں نکاح ایک معاہدہ ہے اور نکاح نامہ ایک بہت ہی اہم دستاویز ہے۔ روایتی طور پر اس میں نام اور دستخظ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر نکاح نامہ کمزور طریقے سے لکھا گیا ہوتا ہے تو طلاق کی صورت میں عورت کو کچھ نہیں ملتا۔ اس لیے ایک قابل تقلید نکاح نامہ تیار کیا گیا ہے۔’

قاضی جہاں آرا نے خود اس درد کو محسوس کیا ہے۔ ان کے شوہر نے چار بچے ہونے کے بعد ایک چھوٹی سی بات پر انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ‘معاشرے میں اس بات کا زبردست دباؤ ہے کہ عورت کو مذہب کے نام پر قاضی بننے کی اجازت نہ دی جائے۔ جب کہ قاضی کے درجہ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’

(آبھا شرما)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp