مودی مخالف بھارتی صحافی گوری لنکیش کا قتل


گوری لنکیش کی ایک صحافی دوست بتاتی ہیں کہ میں ان سے اکثر پوچھتی کہ ‘آج ہم کس مسئلے پر لڑنے جا رہے ہیں؟’ ‘آپ کی دشمنی کیا ہے؟’ پھولی ہوئی سانس اور بلند آواز سے وہ اپنے ایڈیٹر دوست سے پوچھتی تھیں کہ ان کا اخبار ایسے مسئلے پر آواز کیوں نہیں اٹھا رہا جو ان کے دل کے بہت نزدیک ہے۔ ‘اگر آپ بڑے آدمی مضبوط موقف اختیار نہیں کریں گے تو ہم اسے کیسے (حل) کر سکتے ہیں؟’

لنکیش انڈیا کے جنوبی شہر بنگلور سے جہاں وہ رہتی تھیں مقامی زبان کناڈا میں ایک ہفتہ وار جریدہ نکالتی تھیں۔ یہ جریدہ انھیں وراثت میں اپنے والد سے ملا تھا۔ اس بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے جریدے میں کوئی اشتہارات نہیں ہوتے تھے اور یہ صرف سبشکرپشنز یعنی عطیے پر چلتا تھا۔ اس سے ایڈیٹر کے نظریات کا بھی پتہ چلتا تھا۔

لنکیش دائیں بازو کے خیالات کے حامی ہندوؤں کی بھی بڑی نقاد تھیں۔ ان کو یقین تھا کہ مذہبی اور اکثریتی سیاست سے انڈیا کو نقصان پہنچے گا۔

جب دو سال قبل انڈیا کے ایک سرکردہ سکالر اور مشہور قومی مفکر ملیش اپا کالبرگی کو دائیں بازو کے ہندو گروہوں کی دھمکیوں کے بعد بنگلور میں ان کے گھر پر گولی مار دی گئی تو انھوں نے اپنے ایک دوست کو کہا ‘مجھے اس کی فکر نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے، انھیں نے مجھے فاحشہ تک کہا ہے۔ لیکن میں اپنے ملک کے متعلق حقیقی طور پر فکر مند ہوں۔ یہ لوگ اسے توڑ دیں گے۔’

وہ اور مسئلوں پر بھی آواز اٹھاتی تھیں۔ لنکیش کھلے عام ماؤ نواز باغیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتی جو انڈیا کی حکومت کے خلاف کافی عرصے سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے دلتوں کے حقوق کے لیے بھی مہم چلائی۔

لنکیش نے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف بھی اپنی ناپسندیدگی کو کبھی نہیں چھپایا۔ ان کی فیس بک پوسٹس پر بھی اکثر وزیرِ اعظم مخالف میمیز لگی ہوتی تھیں۔

گوری نے طالب علم رہنما کنہیا کمار کو ’گود لیا‘ تھا

اپنی ایک حالیہ پوسٹ میں انھوں نے انڈیا کے سٹینڈ اپ مزاحیہ اداکاروں کو پذیرائی کی ‘جو کامیابی سے مودی کے فرضی قصوں کو دوسروں سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔’ انھوں نے اپنے روایتی انداز میں اپنی حمایت کا یقین دلایا اور کہا ‘ہم سب اکٹھے آپ کے ساتھ ہیں اور ہم اپنے سیکولر انڈیا کو واپس حاصل کریں گے۔’

لنکیش کا جریدہ غیر جانبداری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اکثر خطیبانہ بیان بازی سے بھرا رہتا تھا۔ اکثر اس میں چھپنے والی کہانیوں میں حقائق کو بھی ذرا بدلا جاتا تھا جو ان کے کئی دوستوں کو بہت برا لگتا تھا۔ لیکن اگر سچ کہا جائے تو لنکیش نے اپنی ترجیحات کو کبھی بھی نہیں چھپایا تھا۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر پروفائل میں بھی اپنے آپ کو ‘جرنلسٹ ۔اکٹیوسٹ’ کے حوالے سے متعارف کروایا ہے۔

اسی لیے ان کے جریدے کے خلاف ہتکِ عزت کے کئی مقدمات بھی درج کیے گئے۔ گذشتہ برس بی جے پی کے مقامی رہنماؤں کے خلاف ایک رپورٹ کی وجہ سے ان کو ہتک عزت کا مجرم قرار دیا گیا۔ لیکن یہ بھی انھیں چپ نہیں کرا سکا۔

گوری لنکیش نے دہلی کے ایک جرنلزم سکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی ایک ہم جماعت انھیں سخت، غیر مصالحت پسند اور ریڈیکل بتاتی ہیں۔ لنکیش نے ایک سرکردہ اخبار، ایک جریدے اور ایک انگلش نیوز چینل کے ساتھ کام کیا۔

جب سنہ 2000 میں ان کے والد کی موت ہوئی تو پہلے پہل تو لنکیش نے ان کے بیس سال پرانے اخبار کی ادارت سنبھالنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ کناڈا زبان ان کا مضبوط پوائنٹ نہیں تھا۔ لیکن جب انہوں نے باآخر اسے سنبھالا تو پھر وہ مکمل سیاسی ہو گئیں اور ریڈیکل پوزیشن لینا شروع کر دی۔

دوست لنکیش کو ایک ہی وقت میں ایک لڑاکو اور پیار کرنے والی شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ وہ آسانی سے لڑتی اور مان جاتی تھیں۔ انھوں نے دو طالب علم رہنماؤں کو گود لیا۔ ایک دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دوسرے پر بغاوت کا مقدمہ ہے۔ انھوں نے دونوں کو اپنے گھر مدعو کیا۔

حالیہ مہینوں میں لنکیش نے آزادی صحافت پر بڑھتے ہوئے حملے، مقامی سیاست اور اپنے شہر میں عورتوں کے غیر محفوظ ہونے پر بہت کچھ لکھا۔ انھوں نے جنوری میں لکھا تھا کہ ’بنگلور کی خواتین پہلے کی طرح اپنے حقوق واپس حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہیں؟‘

ایک طرح سے یہ ایک خوفناک اور ڈرا دینے والی پیش گوئی تھی۔ موٹر سائیکل پر آنے والے بندوق بردار جنھوں نے انھیں ان کے گھر کے سامنے پیر کی رات قتل کیا شاید انھیں ان کے کام کی وجہ سے ہی مارا ہے۔

(سوتک بسواس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp