بلوچستان اور سندھ میں سیاسی کارکنوں اور دانش وروں کی جبری گمشدگیاں


آج صبح یہ افسوس ناک خبر ملی کہ کامریڈ نور محمد ترہ کئی کے ناول ”سنگسار“ کے غائب صفحات کے متلاشی ہمارے دوست کامریڈ ننگر چنا کو رات ان کے گھر پردھاوا بول کر باوردی اہلکاروں نے غائب کر دیا ہے۔ اس موقع پر اہلکاروں نے گھر کی خواتین کو وحشیانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ان کی ضعیف اور بیمار والدہ بے ہوش ہو گئیں۔ ان کی چھوٹی بہنوں اور گھر پر موجود چھوٹے بھائی کو بھی شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ رینجرز اہلکار ایک گھنٹے تک ان کی کتابوں کو الٹتے پلٹتے رہے اور کامریڈ ننگر چنا کو لے جاتے ہوئے ان کی متعدد کتابیں بھی ساتھ لے گئے۔

ایک بے ضرر، پُرامن، ممتاز علمی، ادبی شخصیت اورسیاسی و سماجی کارکن کے گھر پر یوں شب خون مار کر انھیں غائب کرنے اور خواتین پر بہیمانہ تشدد کرنے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے۔

کامریڈ ننگر چنا سندھ کی قومی سیاست اور مختلف قوم پرست جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ ایک قومی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی اور انقلابی بنیادوں پر استوار مزدور دوستی اور بشر دوستی کا مضبوط اور معتبر حوالہ رکھتے ہیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل انھوں نے نصیر آباد میں ایک پریس کانفرنس میں سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اب صرف لکھنے پڑھنے کا کام کریں گے۔ لیکن ”سنگسار“ کرنے والوں کے لیے شاید یہ بھی قابلِ قبول عمل نہیں ہے۔

کامریڈ ننگر چنا کے کیے ہوئے ادبی کام کی طویل فہرست میں تیس سے زائد کتابوں کے تراجم اور سندھی زبان میں لکھے گئے دو ناولٹ شامل ہیں۔ وہ سندھ کے ہاریوں کی جدوجہد سے متاثر رہے ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے سندھ ہاری کمیٹی کی طبقاتی جدوجہد کے تناظر میں لکھے گئے گوبند مالی کے سندھی ناول ”شرم بوٹی“ کا اردو ترجمہ کیا ہے جو اشاعت کے مراحل میں ہے۔ انھوں نے شیخ ایاز کے انقلابی دور کی یادگار سندھی افسانوں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ وہ افغان انقلابِ ثور کے قائد اور پشتو زبان کے ممتاز انقلابی ادیب کامریڈ نور محمد ترہ کئی کے مشہور ناول”سپین “ کے ترجمے کے لیے پُرعزم تھے تاکہ اس اہم انقلابی ادبی شہہ پارے سے یہاں کے محنت کار عوام کو روشناس کر سکیں۔

اگر کامریڈ ننگر چنا مجرم ہیں اور ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اس ملک میں متعلقہ ادارے اور عدالتیں موجود ہیں، انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جاتا۔ ان کی ماورائے عدالت گمشدگی اور ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ اختیار کیا جانے والا غیر اخلاقی اور وحشیانہ سلوک، مقتدر ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے والی عدالتوں اور منتخب جمہوری حکومت پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہ وہ سوالیہ نشان ہے جو بلوچستان سے لے کر سندھ اور پختونخوا سے کشمیر و گلگت بلتستان تک سیاسی و سماجی کارکنوں، دانش وروں، علمی وادبی شخصیات، سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے مساعی پسندوں کی جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں، گرفتاریوں کی صورت میں جبر کی اس مشین کے منہ پر کالک کی صورت میں موجود ہے۔

طویل عرصے سے سیاسی، سماجی کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل و جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ طبقاتی اور قومی جبر کے خاتمے اور محنت کش طبقے کو درپیش سماجی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں کے حل کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو جبری طور پر غائب کر دیا جاتا ہے، بیشتر کے مسخ شدہ لاشے اچھالے جاتے ہیں۔

بلوچستان میں یہ صورت حال گھمبیر شکل اختیار کرنے کے بعد اب سندھ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ سندھ میں سیاسی وسماجی کارکنوں اور علمی و ادبی شخصیت کی جبری گمشدگیوں کی حالیہ لہر میں کچھ دنوں قبل معروف سیاسی وسماجی کارکن کامریڈ پنھل ساریو جو جبری طور پر غائب کیے گئے، سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے حوالے سے کیے جانے والے احتجاجات میں بیماری کے باوجود متحرک تھے اور معروف پبلشر انعام عباسی سمیت درجنوں افراد کو جبری طور پر غائب کیا گیا ہے اور وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کامریڈ ننگر چنا سمیت جبری طور پر غائب کیے گئے افراد کو فی الفور بازیاب کیا جائے۔ سندھ اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں سیاسی وسماجی کارکنوں اور علمی وادبی شخصیات کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل عام کا سلسلہ بند کیا جائے۔

(بشکریہ حال احوال، کوئٹہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).