تحریک انصاف کی حکومت کا ایک دلیرانہ فیصلہ


اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا میں وزیراعلی پرویز خٹک نے تمام مساجد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ مساجد میں تعلیم یافتہ سرکاری امام یا اساتذہ تعینات کرنے کے سلسلے کا ایک اقدام ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ صوبائی وزیر مذہبی امور حبیب الرحمان نے بتایا کہ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے کہ تعلیم یافتہ امام کا معیار تعلیم، کوائف اور طریقہ کار کیا ہو گا اور اس پر بات چیت جاری ہے۔ دوسری جانب سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ مساجد سے مراد سرکاری، غیر سرکاری اور تمام مسالک کی مساجد شامل ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ مساجد سے مراد سرکاری، غیر سرکاری اور تمام مسالک کی مساجد شامل ہیں۔

دوسرے مسلم ممالک، جن میں مشرق وسطی کے ممالک بھی شامل ہیں اور آخری خلافت والا ملک ترکی بھی، کی مساجد میں سرکاری آئمہ ہوتے ہیں۔ ترکی میں تو امام اور خطیب کو لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور لائسنس یافتہ شخص ہی یہ کام کر سکتا ہے۔ عام طور پر خطبہ سرکار کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اسلامی روایت بھی یہی ہے کہ منبر پر حاکم وقت کا خطبہ پڑھا جاتا ہے یعنی امام حاکم وقت کے نمائندے کے طور پر کام کرتا ہے۔

بدقسمتی سے برصغیر میں انگریز کا دور آنے کے بعد سے یہ روایت باقی نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی مسجد میں کوئی بھی قابلیت اور مزاج رکھنے والا شخص حاکم ہو گیا۔ مساجد میں سیاست دانوں اور پاک فوج کے خلاف بھی بات کی گئی۔ دوسرے مسالک کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکائی گئی کیونکہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کا ایک اہم طریقہ نفرت کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔ زیادہ مقبولیت کا مطلب ہے کہ مسجد کو زیادہ پیسہ ملے گا جو اس کے سربراہ کی جیب میں جائے گا۔

دوسری طرف یہ بات بھی عام ہے کہ سرکاری یا نجی جگہ پر قبضہ کر کے راتوں رات مسجد بنا دی جاتی ہے اور اسے ختم کرنے کی طاقت پھر حکومت خود میں نہیں پاتی۔ قبضہ کرنے والے کوئی امن پسند شخص تو نہیں ہوتے۔ یوں ان کی بدمعاشی سے زمین کا اصل مالک ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا ہے خواہ وہ مالک حکومت خود ہی کیوں نہ ہو۔

اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نے یہ دلیرانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اسے اس پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ اس پر مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے بے پناہ پریشر آئے گا کیونکہ یہ ان کی روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ امام کی تعلیمی قابلیت سے کیا مراد لی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی سے اب مدارس کی اسناد بھی ایم اے بی اے کے مترادف ہو گئی ہیں خواہ حامل اسناد نے جدید تعلیم کا ایک لفظ بھی نہ پڑھا ہو۔ کیا دباؤ کا شکار ہو کر مدارس کی اسناد کو ہی پیمانہ بنایا جائے گا یا جدید تعلیم کی ڈگری بھی شرط ہو گی؟ اگر حکومت نے جدید تعلیم کو شرط بنایا تو متاثرین عدالت کا رخ کریں گے کہ سرکاری طور پر تو ہماری سند جدید تعلیم کے برابر مانی جاتی ہے، پھر یہ تعصب کیوں؟ حکومت کیا جواب دے گی اور عدالت کیا فیصلہ دے گی؟

وفاقی حکومت اور دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلی کو بھی خیبر پختونخوا کے اس دلیرانہ فیصلے کی پیروی کرنی چاہیے۔ سب سے مناسب تو یہ ہے کہ ترکی کی طرح وزارت مذہبی امور کو درحقیقت مذہبی امور پر مکمل کنٹرول دیا جائے۔ وہی فیصلے کرے اور وہی فتوے جاری کرے اور متصادم فتوے دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ایک اسلامی جمہوریہ میں یہی ہونا چاہیے۔ اب اگر کوئی تاویل پیش کرے کہ حکومت اسلامی نہیں ہے، تو پھر اس سے پوچھ لینا چاہیے کہ کیا وہ ملک کا آئین اور نام بدل کر اسے سیکولر بنانے کے لئے تیار ہے یا پھر اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی رٹ کو مانتا ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar