دربار عالیہ عیدگاہ شریف، دربار سرگودھا شریف اور دربار پیسہ اخبار شریف


لاہور سے ایک پیسہ اخبار نکلتا تھا۔ گوجرانوالہ کے مولوی محبوب عالم نے 1888ء میں شروع کیا تھا۔ یہ اخبار سیاسی اور سماجی خبروں کا احاطہ کرتا تھا۔ مولوی محبوب عالم سیدھے آدمی تھے۔ سیاسی شعور اور سماجی حرکیات سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں تھا۔ 1946ء میں  مسلم لیگ کے جوالا مکھی خطیب انتخابات کی لڑائی جیتنے میدان میں اترے تو اخبار میں اشتہار دیا ۔۔۔۔ مولانا فلاں فلاں ۔۔۔۔ سجادہ نشین پیسہ اخبار شریف۔۔۔۔ مولوی محبوب عالم 1933ء میں مر کھپ چکے تھے۔۔۔ نہ کبھی جناح سے ملے نا کبھی جناح نے ان کا نام سنا۔ ان کے مرقد پر ڈھولک بجاؤ۔

اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کا نام تاریخی طور سیاسی ہنگامہ آرائی میں علی گڑھ کالج کے فوراً بعد آتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور والے ذرا اور طرح کا خمیر تھے۔ کبھی موقع ملے تو عبد الحمید دستی کی یاد داشتیں دیکھ لیجئے گا۔ جلسہ عام کا اشتہار دیتے ہوئے لکھتے تھے کہ گدی نشین دربار صاحب سرگودھا شریف۔۔۔ سرگودھا اچھے نیک انسانوں کا شہر رہا ہے۔ کبھی اس طور شرافت اور پارسائی کا اشتہار نہیں دیا۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا۔

جب اہل پاکستان کو ایک نیک آدمی کی قیادت میسر آئی تو فتنہ پرور عناصر نے شور برپا کر دیا کہ صاحب موصوف کا تو۔۔۔ گویا فلاں فرقے سے تعلق ہے۔ تردید کی گئی۔ کماحقہ تسلی نہیں ہوئی۔ 5000 روپے ماہانہ سے دس ہزار روپلی کے ملازموں کو حکم دیا گیا کہ صاحب بہادر کے عقیدے کا نقارہ بجاؤ۔ سبحان اللہ! کیا زور کا نقارہ بجایا گیا۔ دسمبر 2016 اور جنوری 2017 میں۔۔۔ اس برس 2018 میں پھر بجے گا۔ آفرین کا نعرہ ذرا زور سے لگے۔۔۔ یا ایھا الذین آمنو۔۔۔۔

اب ان خطوط ہی پر راولپنڈی کی بنجر قدیم ناممکن زمیں کی خبر لیجئے۔ 27-28  مئی 2017 کی درمیانی شب موٹروے پر حافظ آباد کے تھانہ کالیکی منڈی کے قریب دو گاڑیوں میں سوار پیر صاحب حسان حسیب الرحمن نے اپنے ڈرائیور اور سات ساتھیوں کے ہمراہ دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔

پیر حسان حسیب الرحمن راولپنڈی کی معروف درگاہ دربار عالیہ محمدیہ عید گاہ شریف کے گدی نشین پیر نقیب الرحمن کے صاحبزادے ہیں۔ حملے کا ہدف بننے والی گاڑی میں جسٹس طارق مسعود صاحب اپنے اہل خانہ سمیت لاہور سے اسلام آباد کی طرف سفر کر رہے تھے۔ جملہ ملزمان نے جج صاحب کی گاڑی کو نقصان پہنچایا اور جج صاحب اور ان کے اہلٍ خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ جج صاحب نے قریبی تھانے میں پہنچ کر وقوعہ کی رپورٹ درج کروائی۔ جس پر پولیس نے ایف آئی آر نمبر 17/136 کا اندراج زیر دفعہ 506، 342، 147، 149 تعزیرات پاکستان اور زیر دفعہ 7 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کیا۔ ملزم پیر حسان حسیب الرحمن کو ساتھیوں سمیت موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ سات ناقابل راضی نامہ ہے۔ یعنی اس جرم میں کسی نوعیت کی معافی یا صلح ممکن نہیں۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی تفتیش دفعہ 19 (1) کے تحت صرف جوانئٹ انوسٹی گیشن ٹیم ہی کر سکتی ہے۔

ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت (گوجرانوالہ) میں پیش کیا گیا جہاں جج خالد بشیر نے ملزمان کو بیس روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس موقع پر عدالت نے استغاثہ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے مقدمے میں اقدام قتل کی دفعہ 324 کا بھی اضافہ کر دیا۔

درگار عالیہ عید گاہ شریف کے گدی نشین پیر محمد نقیب الرحمن کی طرف سے (جمعہ) 2 جون کو ایک قومی روزنامے کے صفحہ اول پر معافی نامے کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا گیا ہے جس کے الفاظ درج ذیل تھے۔

“میں پیر محمد نقیب الرحمن درگاہ عالیہ عید گاہ شریف، جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب میرے بیٹے حسان حسیب الرحمن نے جو واقعہ سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس سردار طارق مسعود صاحب اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا، اس پر شرمندہ ہوں جس کے متعلق ایف آئی آر نمبر 136 بتاریخ 28-05-2017 بمقام تھانہ کالیکی منڈی حافظ آباد میں درج ہوئی ہے اور میرابیٹا اس سلسلے میں حوالات میں بند ہے۔ میں اپنی طرف سے اور اپنے بیٹے حسان حسیب الرحمن کی طرف سے جناب جج صاحب اور ان کی فیملی سے معافی کا خواستگار ہوں اور بطور ہرجانہ میں نے پانچ پانچ لاکھ روپے ایدھی ویلفئیر سینٹر اور فیض الاسلام یتیم خانہ راولپنڈی میں جمع کرا دیے ہیں جن کی رسیدوں کا عکس لف ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کے وکلا کی جو دل آزاری ہوئی ہے اس کے لئے بھی معذرت خواہ ہوں“۔

اس موقع پر سوشل میڈیا اور عام افراد کی طرف سے متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

1۔ کیا اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات عائد ہونے کے بعد صلح نامے یا کسی معافی نامے کی قانونی گنجائش موجود ہے؟

2۔ کسی اخبار میں اشتہار کی صورت میں چھپوائے گئے معافی نامے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

3۔ اخبار میں معافی نامہ ملزم کے باپ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے جو متعلقہ مقدمے میں براہ راست فریق نہیں ہے۔ نیز اس اشتہار میں مسٹر جسٹس طارق مسعود کی جانب سے کسی رابطے، اتفاق یا عدم اتفاق کا کوئی اشارہ موجود نہیں۔

4۔ مذکورہ اخباری اشتہار میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے وکلا سے بھی معذرت کی گئی ہے۔ جب کہ ان وکلا کا اس مقدمے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔


5۔ ملزم کے باپ نے اخبار میں اعلان کیا ہے کہ اس نے دو رفاہی اداروں کو 5 لاکھ روپے فی کس ہرجانے / صدقے کی مد میں ادا کر دیے ہیں۔ کسی عدالتی حکم کی عدم موجوگی میں اس طرح کے کسی ہرجانے / صدقے کی قانونی حثیت صفر ہے۔

6۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر حوالہ پولیس کر چکی ہے۔ ریمانڈ کی مدت مکمل ہونے سے قبل مقدمے میں مزید کسی قانونی پیش رفت کی گنجائش موجود نہیں۔

7۔ قابل تصفیہ قرار دیے گئے جرائم میں بھی تصفیے کی کارروائی چالان پیش ہونے اور فرد جرم عائد ہونے سے قبل ممکن نہیں۔ جب کہ موجودہ مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات موجود ہونے کے باعث تصفیے یا معافی کی کارروائی یکسر ممکن نہیں۔

8۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے باقاعدگی سے جے آئی ٹی کے سامنے متعدد مرتبہ پیش ہو کر اپنی دولت کا حساب دیا ہے۔ عدالت بار بار اعلان کر رہی ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں۔ یہی اعلان دیگر حلقوں سے بھی کیا جا رہا ہے۔  چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملزم حسان حسیب الرحمن کے زیر استعمال کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا حساب کیوں نہ لیا جائے؟

9۔ ملزم کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ ورانہ اہلیت کے مطابق اس کے ذرائع آمدن کی پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

10۔ یہ امر ریکارڈ پر موجود ہے کہ ملزم باقاعدگی سے بیرون ملک دورے کرتا ہے جو کئی ہفتوں پر محیط ہوتے ہیں۔ ملزم کے سفر، قیام اور دیگر اخراجات کے ذرائع معلوم کرنا ضروری ہے۔

11۔ مارچ 2016 میں ملزم حسان حسیب کی شادی اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوئی۔ مناکورہ ہوٹل کے ریکارڈ سے مہمانوں کی تعداد اور طعام پر اٹھنے والی رقم کا تخمینہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔

12۔ یہ سوال بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ ملزم اور اس کے باپ کے ذرائع امدنی کیا ہیں۔ نیز یہ کہ کیا ملزم اور اس کا باپ اپنی آمدنی اور جائیداد پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اور انہوں نے حالیہ برسوں میں کتنا ٹیکس ادا کیا ہے؟

13۔ مارچ 2016 میں اسلام آباد کے ڈی چوک دھرنے میں ملزم ان علما میں شامل تھا جنہوں نے عدالت عظمیٰ، عساکر پاکستان اور منتخب حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی تھیں جن کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔ کیوں نہ ملزم کو توہین عدالت کا عادی مجرم سمجھا جائے۔

14۔ ملزم اور اس کے باپ کے ملک کی اہم سیاسی شخصیات کے روابط موجود ہیں۔ معلوم کرنا چاہیے کہ ان روابط کی نوعیت فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی پر مبنی اور آپریش ردالفساد کے منافی تو نہیں؟

15۔ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ درگاہ عالیہ عید گاہ شریف کی تاریخی حیثیت کیا ہے۔ کیا یہاں کوئی صوفی بزرگ دفن ہیں یا محض عید گاہ پر غیر قانونی قبضہ کر کے اسے درگاہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں محکمہ اوقاف اور وزارت مذہبی امور سے استفسار کیا جانا چاہیے۔

16۔ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی جے آئی ٹی میں پیشی کو اسٹیٹس کو (Status Quo) اور اشرافیہ کے خلاف ایک تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں خانقاہی اور درگاہی اشرافیہ کا وجود تاریخی طور پر نواز شریف فیملی سے زیادہ قدیم ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سیاسی شہزادے حسین نواز کی طرح مذہبی شہزادے حسان حسیب الرحمن کے خلاف بھی شفاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ حسین نواز سے محض سیاسی انتقام نہیں لیا جا رہا۔

(بشکریہ گرد و پیش، ملتان) 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).