بچے جننا بند کر دو ماں! ایک نازائیدہ بچے کی فریاد


ماں! اس جدید دور میں بھی، پرلوک اورسورگ میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں، اسی لیے موجودہ دور کی آتمائیں بھی اپنے پیاروں کو پتر بھیجتی ہیں، پر میں تو اس دنیا میں آیا ہی نہیں ہوں اور دیکھ لو کتنی ترقی ہو گئی ہے۔ اب تو سوچ بھی الفاظ میں ڈھل سکتی ہے اس لیے میں تمہیں e.mail کر رہا ہوں، ماں میں اس دنیا میں آنا نہیں چاہتا میں آکر کیا کروں گا۔ میں دوسروں کے وچاروں پر اپنا قد لمبا نہیں کرنا چاہتا، میں آزادی سے بڑا ہو نا چاہتا ہوں لیکن، مجھے مار دیا جائے گا یا پھر گھٹن مجھے مار ڈالے گی۔ اب بچے جننا بند کر دو ماں !

ماں میں اس دنیا میں جنم نہیں چاہتا اور اس دیش میں تو بالکل نہیں۔ بہت انیائے ہو رہا ہے، ہر کوئی کمزور کو دبا رہا ہے، اگر کمزور طاقتور کو آنکھیں دکھاتا ہے تو اس کی آنکھیں نکال لی جا تی ہیں، اور طاقتور، کمزور کے حق میں اس وقت ہی بولتے ہیں جب وہ ان کے دھرم کا ہو، اور وہ بھی اس لیے کہ کہ ان کے نام کا ڈنکا بجے۔ ماں کمزوروں کا کوئی نہیں اور ماں بھگوان بھی ان کمزوروں پر دیا نہیں کرتے جب کہ یہ کمزور بھگوان کی سب سے زیادہ پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ بچپن میں مہان ہستیوں کی راہ پر چل کر اپنا جیون شدھ کرنے کے وچار دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف جب وہ بڑے ہو کر ان ہستیوں کا چلن اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں دیوانہ کہا جاتا ہے، کہتے ہیں دنیا میں آئے ہو تو دنیا کماﺅ۔ اب دیکھ لو مودی جی چار ویدوں کے گیانی ہیں، طاقتور ہیں، اتنے بڑے ملک کے نیتا ہیں مگر انہوں نے اپنے ہی دیش کے لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت بھڑکا دی، انہوں نے اس ملک کی غربت کو ختم کرنے کے وعدے کو اس طرح نہیں نبھایا، جس طرح انہوں نے اپنے دھرم سے محبت کے وعدے کو نبھایا ان کے وچاری ان کو خوش کرنے کے لیے آزاد سوچ رکھنے والوں کی زندگی تک چھین لیتے ہیں۔

بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب کو اس کے دھرم کی فکر پڑ جاتی ہے۔ سب مل کر اسے دھرم کا نالج دیتے ہیں، اسے مزا نہ آئے یا دھیان نہ دے تو سورگ کا لالچ دیتے ہیں۔ لالچ میں نہ آئے تو پیٹتے ہیں۔ ماں جو پٹ کر دھرم کو مانے گا اور زور زبردستی وید پڑھے گا۔ وہ کتنا جنونی اور خونی ہو جائے گا، یہ تو تم دیکھ ہی رہی ہو ماں۔ دھرم کی پٹی آنکھوں اور کانوں پر اتنی سخت کیوں باندھی جاتی ہے کہ سوائے اپنی بولی کے کسی کی بولی پلّے نہیں پڑتی اور دوسرے دھرم کے پورش کی سچائی اورمحبت نظر نہیں آتی۔ ماں یہ کیا بات ہے جس عمر میں گیان نہیں ہوتا، اس عمر میں ان پوتر کتابوں کے شرلوک اور منتر پڑھائے جا تے ہیں اور جب عقل آتی ہے اور بچے جوان ہو جاتے ہیں تب اس دنیا کی رنگینی میں حصہ ڈالنے کے لیے اسے کھینچا تانی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ماں دنیا میں آنے والے بچے کو ماں باپ اپنی سوچ اور اپنا دھرم کیوں دینا چاہتے ہیں۔ ماں آزاد سوچ رکھنا گناہ بن چکا ہے۔ اب بھگوان کے چیلے جگہ جگہ ایسے دوشیوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ دنیا ان بھگوان کے چیلوں کے لیے چھوڑ دو۔ بچے جننا بند کر دو ماں!

اس دنیا کی خوبصورتی پر پنڈت نے بھگوان کا پہرا بٹھا دیا ہے، سب لوگ اپنی من مانی کرتے ہیں بھگوان کسی کو روکتا ٹوکتا نہیں، بارش ہو، سیلاب ہو، گھر جلے، ادمی آدمی کا گلہ کاٹے، وہ چپ چاپ دیکھتا رہتا ہے۔ کیوں کیا اسے پگار نہیں دی جا تی، ماں یہی ہو سکتا ہے جب انسان کو اس کے کام کی پگار نہ ملے تو وہ کام میں من نہیں لگاتا، مگر پھر بھی بے بس اور غریب انسان بھگوان کی طرف ضرور دیکھتے ہیں، چاہے اس کا دھیان ان کی طرف ہو یا نہ ہو۔ ماں اس دیش میں امیروں کو ہری ہری اور غریبوں کو بھگوان سوجھتا ہے۔ ماں امیر مکار اور ظالم ہیں تو غریب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھگوان کی مرضی سے غریب ہیں۔ اس لیے مطمعین اور خوش ہیں۔ یہ بھگوان کے آسرے پر امیروں سے زیادہ مستیاں کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں ان کے پاس اس دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، جس کے چرنوں میں بیٹھے رہنے سے انہیں شانتی ملتی ہے۔ دکھ، تکلیف اور مصیبت میں یہ اسی کے پاس جاتے ہیں، وہ سنے نا سنے مگر ان کو لگتا ہے ان کی آشا ضرور پوری ہو گی، ماں یہ بھگوان سے بہت پیار کرتے ہیں اتنا کہ اس پر کو ئی الزام نہیں آنے دیتے، ہر اچھے اور شبھ کام کے لیے بھگوان کی کرپا کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور جو بگڑ جائے تو کبھی نہیں کہتے کہ بھگوان کے کارن ہو گیا۔ سب بھگوان کا نام لیتے ہیں، کوئی کسی کے کام بھی آتا ہے تو کہتے ہیں کہ بھگوان نے کارن بنایا۔ اور ماں یہ امیر بڑا کایاں ہے، بھگوان کا نام لے کر اپنی عزّت کرواتا ہے اپنے سارے کام نکلواتا ہے، اپنی حرام کی کمائی کو بھگوان کے نام دان کر کے لوگوں میں مہا پرش بنتا ہے، جب اس کے دھندے میں کمی آتی ہے۔ یہ بھگوان کو چڑھاوے چڑھاتا ہے۔ رات دن منتر پڑھ کر بھگوان کو رجھانے کی کوشش کرتا ہے اور ماں دوسری طرف الٹی سیدھی حرکتوں سے اپنے بگڑے کام بھی کروا لیتا ہے، اور پھر گاتا پھرتا ہے کہ بھگوان کی آشیر واد سے سب کچھ ہوا ہے۔ ماں کیا واقعی یہ دل سے جانتے ہیں کہ بھگوان سب کچھ جانتا ہے؟ بچے جننا بند کر دو ماں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).