بے اولاد عورت اور بے رحم معاشرہ


عورت اولاد اور بے رحم معاشرہ شادی کے فورا بعد ایک جوڑے پر سب سے بڑا جو سوشل پریشر ہوتا ہے وہ ہے بچوں کی پیدائش ہے۔ ہمارے اردگرد لاتعداد ایسے شادی شدہ جوڑے ہوں گے جن کو خدا نے اولاد نہیں دی اور وہ صرف اس نعمت کے نہ ملنے کو دل کا روگ بنا کر تقریباً نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ ان کو یہ لوگ احساس دلا دلا کر نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہمارے پاس خدا کی دی ہوئی اتنی نعمتیں ہیں کہ جن کا شکر ادا کرنے میں لگ جائیں تو ہمیں کچھ اور کرنے اور سوچنے کا وقت ہی نہ ملے۔ لیکن یہ سوچ بار بار یہ احساس کراتی ہے۔ اور ہمارے بے اولاد نوجوان جوڑے اس غم کو دل سے لگا کر اپنی زندگی کابہترین وقت ضائع کر دیتے ہیں۔

مجھے وہ آنٹیاں زہر لگنے لگی ہیں جو یہ پریشر ڈالنے میں پیش پیش ہوتی ہیں اور اگر ان کو زندگی سے دھکے دے کر نکال دیا جائے تو ان جوڑوں کی آدھی سے ذیادہ مشکلیں حل ہو جائیں۔ آنٹی سے میری مراد ہمارے معاشرے کی وہ مقابلے کی فضا بھی ہے جو ایسے بچارے لوگوں کو جینے نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر فلاں کی شادی ہوئی بچے بھی ہو گئے، تمارے کب ہوں گے۔ پہلے شادی نہ کرنے پر بھی ہزار سوال۔ اگر کسی کی پہلی شادی کامیاب نہیں ہوئی اور وہ دوسری نہیں کرنا چاہ رہی اس پہ سوال اور تازہ ترین تجزئے۔ یہ ویلییاں زہر لگتی ہیں۔

کوئی پوچھے کہ تم یہ کہو تمہاری شادی ہوئی ہے، گھومو پھرو، اپنے وقت کو انجوائے کرو۔ یا دل دکھانے والی باتیں نہ کریں۔ بچوں کا نہ ہونا ایک بہت بڑی کمی ہے، لیکن آپ خود سوچیں کہ اگر اس وقت کو پریشانی اور ٹینشن میں گزارنے کی بجائے کسی مثبت جگہ گزارہ جائے تو نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا کتنا بھلا ہو سکتا ہے۔ دونوں میاں بیوی مل کر ایک دوسرے کی جاب میں مدد کر سکتے ہیں۔ کوئی نیا بزنس سٹارٹ کر کے غریب لوگوں کے لئے نوکری کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں یا کم از کم اپنا لائف سٹینڈرڈ بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر دونوں کما رہے ہیں تو کوئی اچھی انوسٹمنٹ کر سکتے ہیں ایک دوسرے کا بہتر خیال رکھ سکتے ہیں۔ 90 % بندوں کا دماغ یہ خراب کرتےہیں پھر ہر بات کا الزام عورتوں پے ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ الگ ٹارچر ہے اسے بانجھ۔ منحوس اور انتہائی برے الفاظ سے نوازتے ہیں۔

پھر پیروں درباروں کا بتایا جاتا ہےجو حال پھر پیروں فقیروں کے پاس جا کے ہوتا ہےوہ الگ جہالت ہے اور سیکسوئل اسالٹ ہے۔ مگر اولاد نرینہ ضرور مل جاتی ہے پیر صاحب کے در سے۔ پھر اپنا لال نظر نہیں آتا جو سب سب کے ساتھ مل کے اولاد نہ ہونے کے طعنے دے رہا ہوتا ہے۔ ایک اور قسم ان آنٹیوں کی ہے جو سارا حال احوال کرنے بعد کہتی ہیں بس ایک ہی بیٹی ہے اوہ۔ خود ہی نہیں کیے یا ہوئے نہیں۔ یعنی زخم پے زخم، بیٹا مجھے تو یہ فکر ہے کہ ایک ہی ہے کل کواپنے گھر چلی جائے گی تو تمہارا کیا کیا بنے گا، یا بیٹوں نے تو اس گھر کا منہ ہی کرلیا ہے کوئی صدقہ خیرات کرواؤ۔ سدا تووں ہی ویلیاں۔ پر جی سب توں قابل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).