کچھ باتیں سرکار دولت مآب سے


جب بھی سڑک کے پار جانا ہو میں آگے پیچھے ہاتھ ہلا ہلا کر آنے والی ٹریفک کی رفتار آہستہ کرواتی ہوں۔ کیا ہے کہ ایک حادثے کے بعد اب سڑک پار کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔حادثات تو زندگی کا حصہ ہیں۔ پھر میرے لیے تو یہ زندگی ہی ایک حادثہ ٹھہری۔ مہذب قومیں اپنے قوانین کی نہ صرف پاسداری کرتی ہیں بلکہ وہ مہذب قوم کہلاتی ہی اس لئے ہیں کہ وہاں قوانین ان کی فلاح و بہبود کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہمارے قوانین بھی کسی طور برے نہیں۔ ٹریفک پولیس ہر طور کوشش کرتی ہے کہ شہری ٹریفک قوانین پر عمل کرے اور اپنی جان کے محفوظ ہونے کی ضمانت تھے اور مہذب شہری کہلائے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک تو شعور کی کمی، پھرغربت، پھر جہالت اور یہاں جہالت سے میری مراد شعور ہوتے ہوئے بھی اس کا عملی مظاہرہ نہ کرنا۔ کسی زمانے میں شہروں میں آٹو رکشہ کی سہولت تھی پھر اللہ بھلا کرے چِمچی/ چنگ چی آئی ۔ پھر ہر دوسرے بندے نے ہمپٹی ڈمپٹی سکوٹر لیا۔ ویسپا کمپنی کے نیلے اسکوٹر یعنی موٹر سائیکل تک تو سب سکون تھا ، لیکن نوجوانوں کا خون گرم، جوش چڑھانے کے واسطے ہیرو ہونڈا، یونائیٹد، یاماہا، اور پاکستان آٹو انڈسٹریز کی ہیوی بائیکس ….توبہ ہے ان چھچھورے لڑکوں پر۔ ایک تو اتنی تیز سپیڈ ہوتی پھر ان سے کنٹرول بھی نہیں ہوتے۔ اچانک بریک لگانی پڑ جائے تو حادثہ یقینی ہے۔ بھلا اتنی تیز بائیک چلا کر کونسا ضروری کام سر انجام دینا ہے؟ اور اتنی ہی جلدی ہے تو سپیڈ بوٹ استعمال کر لو بھائیو۔ اب عوام کو شعور دینا بھلا کس کی ذمہ داری ہے؟ زرا ہمیں بھی بتلائیے۔

ایک نیا سیاپا تو یہ ٹھہرا کہ شہر جہلم ہو، گوجرانوالہ ہو یا لاہور، مجال جو کہیں بھی زیبرا کراسنگ دکھائی پڑیں؟ اب تو ویسے بھی زیبرا کراسنگ کی سہولت خود سرکار کی جانب سے ختم کر دی گئی ہے۔ اور اس کے متبادل پل بنا دیے گئے ہیں۔ لیکن سکار معظم، ازراہ کرم، اتنا عرض کرنے دیجئے کہ معذور آدمی کیسے پل کا استعمال کر کے سڑک کے پار جا سکتا ہے؟ پھر حضور معذورآدمی اگر وھیل چئیر پر ہے تو پھر تو بھول ہی جائے۔

حضور رحم فرمائیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اور یہاں معذور افراد کی خاصی بڑی تعداد بستی ہے۔ اور غلطی سے کوئی خاتون وہیل چئیر پر ہو تو سرکار اپ کے عوام مدد کرنے کو تو دوڑتے آتے ہیں مگر وہ کس نیت سے آتے ہیں، آپ یہ بات اچھے سے جانتے ہیں۔ آپ خود بھی آئیں تو نیت وہی ہو گی۔ بے شک نیتوں کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔ پھر یہ سڑکیں، یہ انفرا اسٹرکچر سائیکل چلانے والے کے لئے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ہر بارش کے بعد سڑکوں کی کیا حالت ہوتی ہے اس پر غور کرنے کو آپ کے پاس وقت کہاں۔ کئی سڑکیں، برس ہونے کو آیا، تا حال مرمت کی طلب گار ہیں۔ اور حضور میں تو صرف لاہور شہر کی بابت آپ سے عرض کر رہی۔ میرے کہے پر یقین نہ آئے تو حضور ایک سفر بغیر حفاظتی سپاہ کر کے دیکھ لیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسا کہ کسی زمانے میں امیر المومنین کیا کرتے تھے۔ میں نے ایسا اپنے سلیبس کی کتابوں میں پڑھ رکھا ہے۔ آپ عوام کے خادم ہیں زرا ایک نظر عوام کی حالت زار پر ہی سہی۔

حضور جو بجٹ آپ انفرا اسکٹرکچر کے لئے عنایت فرماتے ہیں، وہ کہنے کو پانچ گز سڑک کے لئے تو ڈھائی کروڑ ہوتا ہے مگر لگتا ڈھائی لاکھ بھی نہیں۔ میں ایسا کہہ سکتی ہوں کیونکہ حالیہ سرکاری ادارے کی کنسٹرکشن، اس کے بلز اور کام کی صورت حال میرے سامنے ہوئی ہے۔ ہاں لیکن آپ کی صاف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے واسطے کنٹریکٹر حضرات آپ کو بقایہ واپس بھی کئے دیتے ہیں۔ یوں آپ خاموش۔ جانے کیسی مروت ہے جو آپ کو عوام سے لیے گئے اور عوام پر لگے پیسوں پر خاموش کر دیتی ہے۔ زرا ایک نظر آپ کے نئی، جاندار اور تبدیل شدہ وردی پوشوں پر بھی ہونی چاہیے۔ حضور خدا میرے ہاتھ سلامت رکھے۔ اور میں کچھ نہ کچھ کام کرتی رہوں۔ لیکن کوتاہیاں تو انسان سے ہی سرزد ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوتاہی ایک ہم سے بھی ہوئی۔ گورنمنٹ کے ادارے پر اعتماد پھر اس پر طرہ یہ کہ آپ کی پنجاب پولیس پر بھی اعتماد کر لیا۔ اپنی محنت سے کمائے اور اس پر باقاعدہ ٹیکس دے کر خریدی گئی سائیکل چوری ہو گئی۔ بات سائیکل کی نہیں ہے۔ بات تو یہ بھی نہیں کہ میری کسی چیز کے ساتھ کتنی یادیں جڑی ہیں اور کتنا خون پسینا ایک کیا ہے۔ بات تو یہ ہے کہ سائیکل عین اس وقت چوری ہوئی جب پولیس آفیسر آن ڈیوٹی راؤنڈ پر تھے۔ اور متعلقہ جگہ کے آس پاس ہی تھے۔ یہ بات خود ان افسران کے الفاظ کے مطابق درج کی جا رہی ہے۔ خیر تحقیقات کا سلسلہ کہاں تک پہنچا اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سائیکل چوری ہوئے مہینہ ہو چکا ہے۔ اور کوئی رپورٹ نہیں۔ محض ایک سائیکل ہی تو ہے، جو کہ رجسٹرڈ وہیکل نہیں ہے۔ ایف آئی آر تو خواب دیکھنے جیسا ہے۔

سرکار آپ کی عوام میں امیروں کی کمی نہیں ہے مگر غریب بھی کم نہیں۔ اور غریبی امیری کے بیچ لٹکی مڈل کلاس بس مڈل کلاس ہی ہے۔ ایک نظر یہیں کر لیجیے۔ لیپ ٹاپ اللہ کو پیارا ہوا تھا۔ سوچا! نیا لے لیتے ہیں۔ مگر ایسی قسمت کہاں۔ گورنمنٹ کی آرٹ گیلریز میں صرف ایک ہفتے کی بکنگ کے لئے 7 لاکھ روپے دینا ضروری ہیں۔ ورنہ آپ ہیں کون؟ حضور اس سے بڑھ کر ہم غریب لوگوں پر اور کیا ستم ہو گا۔ یقین نہ آئے تو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی پالیسیز اُٹھا کر دیکھ لیں۔ عمران قریشی اور عائشہ اسکندر جیسے بڑے آرٹسٹ تو اپنا کام آسانی سے ڈسپلے کر سکتے ہیں۔ مگر ہم غریب تو مارے گئے نا۔ بھائی جان سات لاکھ ہوں تو اپنی آرٹ گیلری نہ بنا ڈالیں۔ گورنمنٹ کے کسی ادارے کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت ہی کاہے کو پیش آئے؟

مدعا سمجھ نہیں آیا ہو گا۔ سرکار ہمارے مائی باپ آپ پر قربان ہو چکے، ہم نئی پیڑھی ہیں، غلطی یہ ہوئی کہ فنون لطیفہ کے طالب علم ہیں۔ پھر آپ کے ہی ایک سرکاری ادارے میں بطور آرٹسٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ بھی معاوضے کا انتظار کرتے ہوئے۔ سرکار آخری بات یہ کہ آپ کو سرکار چاہیے۔ اور ووٹ کے ذریعے عوام آپ کو چنتے ہیں۔ عوام ظاہر ہے کہ آپ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ عوام کا بھروسہ ٹوٹنے مت دیجئے۔ آپ کی پستی بھی عوام کے ہاتھ میں ہے اور بلندی بھی۔ عوام بےوقوف بنتے ہوں کے آپ کی چکنی چپڑی باتوں سے۔ اور بنتے بھی بھی رہیں گے۔ لیکن یہ فی صد تعداد کم ہوتے ہوتے کب معدوم ہو جائے، کچھ علم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).