چوہدری نثار علی خان کے مشورے


سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تصادم سے گریز کرنے اور فوج اور عدلیہ کو اعتماد میں لے کر حکومت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی اکثریت اداروں سے تصادم کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن اقلیتی گروہ نے میاں نواز شریف کو گمراہ کیا ہے جو تصادم اور ضد کی حکمت عملی کا سبب بنے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی باتوں کو ملک کے سیاسی حلقوں میں غور سے سنا جائے گا اور مسلم لیگ (ن) میں بھی اس بیان کی گونج سنائی دے گی۔ تاہم اس بیان کا موازنہ اگر حقیقی صورتحال سے کیا جا سکے تب ہی ملک کے مستقبل کے لئے واضح حکمت عملی تیار ہو سکے گی۔ اصولی طور پر سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے اہم لیڈر کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے کہ اداروں میں تصادم کی بجائے ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ خاص طور سے پاکستان اس وقت سفارتی تنہائی بلکہ کسی حد تک ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے ساتھ تنازعہ اور تصادم کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اس لئے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں تو یہی ہے کہ وہ اعلیٰ سیاسی دماغ ہوں، بیورو کریسی کے ٹیکنو کریٹ یا ماہرین ہوں یا فوج کے تجربہ کار جرنیل ہوں، اپنی تمام تر صلاحیتیں ان مسائل پر غور کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے پر صرف کریں جو اس وقت پاکستان کے لئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کو اندرونی طور پر جس انتشار، بے چینی، خلفشار، صوبائی سطح پر پریشانی اور طبقاتی کشمکش کی جس صورتحال کا سامنا ہے، اس پر بھی غور کرنے کے بعد مل جل کر ایسے حل تلاش کئے جائیں جو سب کے لئے قابل قبول بھی ہوں اور جن سے بعض گروہوں، طبقات یا علاقوں کی حق تلفی کا گمان بھی نہ ہو۔

ملک کے آئین میں پارلیمانی جمہوری انتظام پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ملک میں عام طور سے اس اصول پر اتفاق رائے موجود ہے کہ 1973 کا آئین ایک بہترین دستاویز ہے اور اس کی بنیاد پر ہی ملک کا نظام چلانے سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ اتفاق رائے اس قسم کے بیان دینے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ سیاستدان اور دانشور یکساں طور سے اتفاق کے بعد اختلاف کے امکانات پیدا کرنے میں مسلسل سرگرم عمل رہے ہیں۔ اس کا اندازہ محض اس بات سے ہی کیا جا سکتا ہے خود اس سیاسی رہنما کے خلاف اس کے مقرر کردہ آرمی چیف نے بغاوت کی جو اس آئین پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا سبب تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف یہ اہتمام کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی جائے بلکہ ان کی قیادت میں ملک میں ایسے نظریات کو فروغ دیا گیا جو بتدریج معاشرے میں شروع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی بنیاد بنے ہیں۔ اب آپ 1973 کے آئین کی بالا دستی پر یقین کرتے ہوئے اگر جنرل ضیاء الحق کی آئین شکنی اور بدعہدی کی بات کریں گے تو اتفاق رائے کرنے والی اسی قوم کے مفکرین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد آپ کا راستہ روکنے کے لئے تیار ہوگی۔

آج بھی پاک فوج ضیاء الحق کے دور میں اختیار کی گئی بعض پالیسیوں پر عمل کر رہی ہے۔ یہ ایک غیر آئینی حکمران کے غیر قانونی فیصلے تھے لیکن کوئی ادارہ حتیٰ کہ شخص بھی ان پر انگلی اٹھانے کا یارا نہیں رکھتا ۔ جو مٹھی بھر لوگ یہ حوصلہ کرتے ہیں، وہ غدار وطن کا طعنہ سننے کا خطرہ مول لے کر احتیاط سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ ملک میں ضیائی مزاج اس حد تک راسخ ہو چکا ہے کہ بعض انتہائی صورتوں میں رائے کا اختلاف کرنے والوں کو توہین مذہب و رسالت کا مرتکب قرار دے کر متعلقہ شخص کو ملک سے فرار ہونے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا وہ احتجاج کرنے والوں کی تیغ ستم اور غیظ و غضب کا نشانہ بھی بن سکتا ہے۔ یہ سب کام ان قانونی شقات کے تحت ہوتے ہیں جو 1973 کے آئین کو پہلی بار معطل کرنے والے جنرل ضیاء الحق نے اس قوم کو تحفہ طور پر دی تھیں۔ اور جن کے خلاف بات کرنے پر قتل تک کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

متفقہ آئین پر دوسرا حملہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے کیا۔ اکتوبر 1999 میں انہوں نے نہ صرف نواز شریف کی حکومت کو برطرف اور شریف خاندان کو جلا وطن کیا بلکہ ملک کو دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ میں ملوث کیا کہ اب اس جنگ کا تعلق براہ راست پاکستان سے جوڑا جاتا ہے۔ امریکہ نہایت ڈھٹائی سے پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیتا ہے اور ملک کے سیاستدان اس نئی صورتحال سے نمٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ فوج اس حوالے سے خاص نقطہ نظر کی حامی ہے اور اسی کو قومی پالیسی کے طور پر اختیار کرنے کی ضد کرتی ہے۔ برکس کے پلیٹ فارم سے روس اور چین جیسے بظاہر حلیف ملکوں کی طرف سے بھی بھارتی موقف کی تائید کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے، اس پر بیان بازی سے زیادہ کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ یعنی پالیسی میں تبدیلی ممکن نہیں۔ دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی بہترین قومی مفاد میں ہے۔ ماضی کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ اس طرح از خود امکانات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ امکانات پیدا ہونے کی یہ تفہیم غلط ہے لیکن اس پر اصرار اور عمل جاری ہے۔

ملک کی سیاسی حکومت اور پارلیمنٹ کی صلاحیت اور کارکردگی پر ضرور سوال اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن یہ سوال اس وقت ہی مناسب معلوم ہوں گے جب ان اداروں کو آزادی اور آئینی اختیار کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ چوہدری نثار علی خان نے جس تصادم سے بچنے کی بات کی ہے، وہ یہی بنیادی اصولی معاملہ ہے کہ فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہو یا یہ اختیار فوج کے قبضے میں ہوگا اور حکومت جی ایچ کیو سے موصول ہونے والے اشاروں پر اقدام کرنے میں دیر نہیں کرے گی۔ چوہدری نثار البتہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس صورتحال کو کس طرح آئینی تقاضوں کے مطابق طے کیا جائے گا اور فوج کی خوشنودی کے لئے پارلیمنٹ کو بے اختیار کرنا ملک میں جمہوری انتظام کو مستحکم کرنے میں کس حد تک معاون ہو سکتا ہے۔

چوہدری نثار علی خان جیسے سیاستدانوں نے ہی اس ملک کو حقیقی بحران اور مسائل سے دوچار کیا ہے۔ وہ بظاہر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایک سیاسی پلیٹ فارم سے برسر اقتدار آتے ہیں لیکن ان کی اصل طاقت جی ایچ کیو کے ساتھ تعلقات اور رابطے ہیں۔ وہ چونکہ ملک کے طاقتور اداروں کے چہیتے ہوتے ہیں، اس لئے سیاسی پارٹیوں میں ایسے کرداروں کو غیر موثر کرنے کے لئے کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی کیونکہ ’’پیا کی آنکھ کا تارا‘‘ ہونے کے سبب ہر پارٹی ان کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ اکثر صورتوں میں تو قیادت خود بھی وہی ’’سٹیٹس‘‘ حاصل کرنے کی خواہش مند رہتی ہے جو چوہدری نثار علی خان جیسے لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ بصورت دیگر دیکھا جائے تو گجرات کے چوہدری خاندان سے لے کر نثار علی خان جیسے عناصر کی سیاسی حقیقت کیا ہے۔ سیاستدان عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہتے ہیں، مانتے نہیں ہیں۔ وہ اقتدار تک پہنچنے کو ہی سیاست اور جمہوریت سمجھتے ہیں۔ اسی لئے ہر دور میں سیاستدانوں کی بڑی تعداد نے فوجی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بننا ضروری سمجھا ہے۔ یوں تو ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا نواز شریف ان کی سیاسی پرداخت اور تربیت میں فوج اور اس کی حکومتوں کا ہی کردار رہا ہے۔ اس کے برعکس خالص سیاسی عمل سے سامنے آنے والے لیڈروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور وہ عام طور سے اقتدار سے کوسوں دور رہے ہیں۔

اس حوالے سے عدالتوں کا کردار ملکی تاریخ میں کچھ ایسا روشن نہیں رہا۔ بحالی عدلیہ تحریک کے بعد سے ملک کی عدالتوں نے جو خود مختاری حاصل کی ہے، اس سے تصادم اور انتشار کی فصل ہی کاشت کی گئی ہے۔ اس میں ایک مثال پاناما کیس کی بھی ہے۔ اس کے علاوہ وکیلوں نے اس تحریک کے بعد خود کو جس طرح سماج سدھار کا علمبردار قرار دیا ہے، اس کے مظاہرے ضلعی سطح پر ججوں کو ہراساں کرنے کی صورت میں تو عام تھے، اب ہائی کورٹ کے جج بھی ا ن سے محفوظ نہیں ہیں۔ اعلیٰ ترین عدالتوں کے ججوں نے ریمارکس دینے اور ان کی شہ سرخیاں بنوانے میں جو لذت تلاش کی ہے، اس کی مثال دنیا کے کسی بھی عدالتی نظام میں تلاش کرنا ممکن نہیں۔ ایسی عدالتیں تاریخ ساز فیصلے دینے یا اپنے سے زیادہ طاقتور اداروں کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ نہیں کر سکتیں۔ ورنہ گرفت کرنے کے لئے منتخب وزیراعظم کے منصب سے پہلے امتحان کے دیگر بہت سے مقامات بھی آتے ہیں۔

عدلیہ کی خود مختاری اور انتظامی ڈھانچے کی خود سری کا ایک مظاہرہ سندھ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں ایک انسپکٹر جنرل پولیس کی تقرری، تبادلہ اور اختیار کے سوال پر صوبائی حکومت کی ناک زمین سے رگڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ منتخب کابینہ آئی جی سے تبادلہ کا اختیار واپس لیتی ہے تو ہائی کورٹ اسے بحال کر دیتی ہے۔ انسپکٹر جنرل اس فیصلہ کے بعد صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے ساتھ مل کر کوئی درمیانی اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے، صوبائی وزیر داخلہ کی طرف سے کئے گئے سارے تبادلے منسوخ کرکے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ یہ صورت حال صرف یہ واضح کرتی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اور عہدیدار خود کو عقل کل ہی نہیں سمجھتا بلکہ دوسرے کو بے ایمان اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والا قرار دینا بھی ضروری سمجھتا ہے۔

ایسی صورتحال میں سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی جیسے جمہوریت پسند نے بھی سیاستدانوں، فوج اور عدلیہ کے درمیان مواصلت اور مفاہمت کی بات کی تھی۔ حالانکہ اگر اس ملک میں موجودہ آئینی انتظام کو ہی کامیاب کروانا ہے تو آئین کے تقاضوں کے مطابق ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنے کا سبق ازبر کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر چوہدری نثار علی خان جیسے مصلح احوال بدستور رہنمائی کے منصب پر فائز رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali