نواز شریف ریویو پیٹیشن: سارا دن عدالت میں تین پانچ ہوتی رہی


سپریم کورٹ میں پانامہ فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے گزشتہ روز کا تین رکنی بنچ آج تیرہ ستمبر کو پانچ ججوں پر مشتمل تھا۔ مگر بحث پھر بھی ختم نہ ہوسکی کہ فیصلہ تین ججوں کا تھا یا پانچ ججوں نے متفقہ رائے دی تھی۔ اسی طرح یہ بات بھی باربار موضوع بحث بنی کہ نظرثانی کتنے جج سنیں گے۔ تین گھنٹے کی سماعت میں پہلے دوگھنٹے کے دوران بحث اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی۔

صبح ساڑھے نو بجے جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پانچ جج کمرہ عدالت نمبر دو میں داخل ہوئے تو سب لوگ مودب ہوکر کھڑے ہوگئے۔ مقدمے کا نام اور نمبر پکارا گیا تو سب سے پہلے جسٹس کھوسہ نے پوچھا کہ ہمارے سامنے کئی نظرثانی درخواستیں ہیں، پہلے کون سی پر دلائل دیے جائیں گے اس کی وضاحت کردیں تاکہ آسانی رہے۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف الگ اور پانچ ججوں کے فیصلے کے خلاف الگ نظرثانی درخواستیں دائر کی ہیں، اسی طرح نوازشریف کے بچوں کی بھی الگ الگ درخواستیں اور اسحاق ڈار کے وکیل بھی موجود ہیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ شیخ رشید کی بھی ایک متفرق درخواست ہے وہ کس لیے ہے؟ ۔ شیخ رشید اپنی نشست سے اٹھ کر بولے کہ نیب کی جانب سے حدیبیہ کیس کھولنے کا وعدہ کرنے کے باوجود ایسا نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی چاہتا ہوں، استدعا ہے کہ عدالت نیب کو حدیبیہ پیپرز ریفرنس کھولنے کیلئے اپیل دائر کرنے کاحکم دے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل خواجہ حارث سے کہاکہ ہمیں فارمولیشن بتائیں کہ کس ترتیب سے دلائل دیں گے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ میرے دلائل تین حصوں پرمشتمل ہوں گے۔پہلا حصہ یہ ہے کہ اٹھائیس جولائی کا فیصلہ دینے والے پانچ ر کنی بنچ کی تشکیل قانونی نہیں تھی، اس بنچ کے دو جج پہلے ہی فیصلہ دے کر حتمی فیصلے کے وقت بیٹھنے کے اہل نہیں تھے۔ دلائل کا دوسرا حصہ نااہلی کے خلاف دلائل پر مشتمل ہوگا، جس میں ایف زیڈ ای کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر فیصلے سے قبل موقف نہ سننے پر دلائل کے علاوہ بیس اپریل اور اٹھائیس جولائی کے فیصلے میں فرق کو بھی واضح کروں گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ بیس اپریل کے دو ججوں کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیااس کا مطلب ہے کہ وہ قبول کرلیاگیاتھا۔ وکیل نے جواب دیاکہ اقلیتی ججوں کی رائے فیصلہ نہیں ہوتی اس لیے چیلنج نہیں کیا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ دلائل کے تیسرے حصے میں سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے پر قانونی بحث کروں گا، یہ سوال ہے کہ کیا عدالت عظمی ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے، نگران جج مقرر کرنا بھی پہلا فیصلہ ہے اس سے قبل کسی مقدمے میں ایسا نہیں کیا گیا، جب اس عدالت کا جج نگرانی کرے گا تو اپیل میں بھی آخرکار مقدمہ یہاں ہی آئے گا، یہ بھی سوال ہے کہ نگران جج کی موجودگی میں احتساب عدالت کا جج کیا آزادانہ فیصلہ کرسکتاہے؟۔اسی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے میں تفتیش کاروں کی بھی تعریف کی گئی ہے تو یہ بھی غیرمعمولی بات ہے اور اس کا بھی ٹرائل پر اثر پڑے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ تعریف تو ہم آپ کی وکالت کی بھی کرتے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہاکہ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے رینٹل پاور مقدمے کے فیصلے میں آبزرویشن دی تو استغاثہ اور ٹرائل کورٹ نے بھی اسی فیصلے کے حصوں کو کارروائی میں شامل کرلیا۔

جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ احتساب عدالت کے سامنے آپ کے پاس موقع ہوگاکہ جے آئی ٹی کے ارکان پر جرح کرسکیں، تفتیش کاروں نے شواہد میں کوئی غلطی کی ہے تو ٹرائل کورٹ میں سامنے آجائے گی۔ وکیل نے کہاکہ بیس اپریل کو جن دو ججوں نے حتمی رائے دی تھی اٹھائیس جولائی کو انہوں نے ایک مختلف فیصلے پر بھی دستخط کردیے۔اس کے بعد خواجہ حارث نے جسٹس آصف کھوسہ کا بیس اپریل کا اختلافی نوٹ پڑھا اور پھر جسٹس گلزار احمد کے فیصلے کا حصہ پڑھا جس میں یہی لکھا گیا تھاکہ وہ بھی جسٹس کھوسہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔وکیل نے کہاکہ ان دونوں فیصلوں کو پڑھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب اپنی حتمی رائے دیدی تو یہ جج دوبارہ مقدمے سننے یا فیصلہ دینے کے اہل نہیں تھے۔بیس اپریل کے فیصلے کے نتیجے میں عمل درآمد بنچ بنا، فیصلے میں لکھا گیاکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنچ کے سامنے رکھی جائے گی یہ نہیں لکھا تھاکہ اسی تین رکنی بنچ کے سامنے آئی گی جس نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ جسٹس عظمت سعید بولے کہ فیصلے میں یہ بھی نہیں لکھاکہ یہ بنچ نہیں ہوگا۔ جسٹس کھوسہ بولے کہ اگلے پیراگراف میں لکھاہے کہ یہ بنچ ہوگا۔ وکیل نے کہاکہ فیصلے میں پانچ رکنی بنچ کا نہیں لکھاگیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ تین ججوں نے جے آئی ٹی بنائی اسی نے رپورٹ کو دیکھ کر فیصلہ دیا۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ بیس اپریل کا فیصلہ یہ نہیں کہتاکہ رپورٹ مختلف بنچ دیکھے گا۔ جسٹس کھوسہ نے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ اس وقت آپ یہ کررہے ہیں کہ لکھنے والوں کو یہ بتارہے ہیں کہ جو آپ نے لکھا آپ کا یہ مطلب نہیں تھا، اور ہمارے لکھے الفاظ بھی آپ کی تائید نہیں کرتے۔(اس بات پر عدالت میں قہقہے گونجے تو وکیل خواجہ حارث معمول سے زیادہ اونچی آواز میں بولے) مائی لارڈ، ایسا نہیں ہے، یہ وکیل کا حق ہے کہ فیصلے کی تشریح کرے، آپ کے لکھے الفاظ ہی پڑھ کر بات کررہاہوں، اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش میں ہوں تاکہ قانون کے مطابق درست نتیجے پر پہنچا جاسکے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ بیس اپریل کے فیصلے میں خصوصی بنچ کی تشکیل کا لکھا مگر یہ بنچ نہ بنایا گیا، یہ ممکن ہی نہ تھاکہ جن ججوں نے تحقیقاتی ٹیم بنائی، تفتیش کی نگرانی کی ،وہی جج اپنی ٹیم کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قراردیدیں، اس طرح شفاف ٹرائل کا ہمارا حق متاثر ہوا۔جسٹس عظمت سعید نے ہنستے ہوئے کہاکہ امید ہے کہ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ سپریم کورٹ کے جج ، جج کی طرح کام نہیں کرسکتے۔وکیل نے کہاکہ حتمی فیصلہ کرنے والے جج کسی طور بھی اٹھائیس جولائی کو بنچ میں بیٹھ کر فیصلہ سنانے کے مجاز نہ تھے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ اس کو دوسرے رخ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، بیس اپریل کے فیصلے میں تین ججوں نے یہ نہیں لکھاکہ وہ دو ججوں کی رائے سے متفق نہیں، ہم دوججوں نے اٹھائیس جولائی کے حتمی فیصلے میں ایک لفظ کا بھی اضافہ نہیں کیا، بطور بنچ کے رکن فیصلے پر دستخط کیے۔ اٹھائیس جولائی کو کھلی عدالت میں فیصلہ سناتے ہوئے کہاتھاکہ یہ تین ججوں کی رائے ہے۔ اس کے بعد جسٹس کھوسہ نے مختلف مقدمات کے فیصلوں کے حوالے دیے جن میں اختلافی نوٹ لکھنے والے ججوں نے بھی حتمی فیصلے پر دستخط کیے تھے۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ قواعد کے مطابق بنچ میں بیٹھنے والے جج کو آرڈر آف دی کورٹ پردستخط کرنا ہوتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ بیس اپریل کے فیصلے پر پانچ ججوں نے دستخط کیے اور خصوصی بنچ بنانے کا لکھا جو جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لیتا، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ تین ججوں نے مختلف وجوہات کی بناءپر نوازشریف کو نااہل کیا جبکہ دو ججوںکی نااہلی کی رائے کی وجہ کچھ اور ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہمارا اختلاف صرف جے آئی ٹی بنانے پر تھا۔ وکیل نے کہاکہ دو ججوں کا اختلاف صرف جے آئی ٹی نہیں بلکہ چھ مختلف امور پر تھا، جج حتمی فیصلہ دیدے تو پھر مقدمے کی سماعت کیسے کرسکتاہے؟۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کیس پانچ ججوں کے پاس آیاتھا اور بیس اپریل کو مقدمہ ختم نہیں ہوا، اس لیے اٹھائیس جولائی کو حتمی فیصلے پر بھی دستخط کیے۔ وکیل نے کہاکہ بیس اپریل کے فیصلے میں یہ بات لکھی جانا ضروری تھی جو نہیں لکھی گئی۔

اس کے بعد جسٹس کھوسہ نے ساتھ بیٹھے جسٹس اعجاز افضل کی طرف جھک کر کچھ دیر مشاورت کی ، اس کے بعدجسٹس اعجازافضل نے کہاکہ پانچ یا تین ججوں کے بیٹھنے کا معاملہ اب اکیڈمک بحث ہے، نظرثانی میں اس پر دلائل سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اصل فیصلہ تین رکنی بنچ کا ہے اس پر دلائل دیں، اگر تین رکنی بنچ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرکے تبدیل کرتا ہے تب ہی فیصلہ میں تبدیلی آئے گی۔ وکیل نے کہاکہ دو جج حتمی رائے دے چکے تو پھر کیسے بیٹھ گئے ۔

جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ کی دلیل میرے لیے ماننا مشکل ہے، کیا تین جج باقی دو کو بنچ سے نکال سکتے تھے، یا اٹھا کر باہر کرسکتے تھے؟۔ وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ حتمی رائے دے کر آپ خود ہی نکل گئے تھے۔ جسٹس کھوسہ بولے کہ میری بات مکمل ہونے دیں، پھر آپ بول لیں۔ وکیل نے کہاکہ آپ اپنی بات ضرورمکمل کریں مگر جب میں بات کروں تو مجھے بھی سن لیا کریں، میرے بولنے کی باری آتی ہے تو آپ بات مکمل کرنے نہیں دیتے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے مسکراتے ہوئے مداخلت کی اور کہاکہ ہم آپ کو سکون سے سن رہے ہیں۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ کیا ہماری رائے کو ڈسٹ بن میں ڈالنے کا لکھا گیا تھا۔ وکیل نے کہاکہ میں نے یہ بات نہیں کی، اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ایسا لکھا گیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ درست طریقہ کاراختیار نہ کیے جانے کی بات کررہاہوں کیونکہ بیس اپریل کے بعد وہ دو جج کیس سے نکل گئے جنہوں نے حتمی رائے دیدی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فیصلوں میں تسلسل نہیں ہے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر تین میں سے ایک جج بھی نااہل کردیتا تو نااہلی نہ ہوتی؟۔ وکیل نے کہاکہ بالکل نہ ہوتی کیونکہ دو ججوں کی رائے فیصلے میں آچکی تھی اور اب یہ تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر الگ سے فیصلہ کرنا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تین رکنی بنچ میں سے ایک بھی جج نااہلی کا فیصلہ کرتا تب بھی نااہل ہوجاتی کیونکہ مقدمے میں تسلسل تھا۔وکیل نے کہاکہ دوبارہ کہتاہوں کہ بیس اپریل کے بعد دو جج اس کیس میں بیٹھنے کے اہل نہ تھے، انہوں نے اٹھائیس جولائی کو اپنی رائے سے مختلف فیصلے پر دستخط کیے۔ اس طرح انہوں نے دو مختلف فیصلوں پر دستخط کیے۔ اس موقع پر سماعت میں وقفہ ہونے کا وقت ہواتو جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ وقفے کے بعد آپ دو اور تین ججوں کے اس نکتے سے آگے بڑھ کر دلائل دیں۔

ساڑھے گیارہ بجے سماعت شروع ہوئی تو وکیل نے کہاکہ حتمی فیصلے میں یہ واضح نہیں کہ فیصلہ دو بمقابلہ تین ججوں کاہے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ دو ججوں کا فیصلہ الگ اور تین کا مختلف ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے بظاہر تنگ آ کر کہا کہ فیصلہ متفقہ ہے اور نااہلی سے لے کر نگران جج کے تقرر تک سب متفقہ رائے ہے۔ وکیل نے کہاکہ قانونی سوال ہے کہ نااہلی مختلف وجوہات کی بنیاد پر ہوئی، تین ججوں نے کچھ لکھا جبکہ دو ججوں نے مختلف وجوہات کے تحت نااہلی کا فیصلہ دیا، دو ججوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ دیکھی ہی نہیں۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ کیا آپ اس سے خوش ہوں گے کہ یہ کہاجائے کہ دو بمقابلہ تین کا فیصلہ ہے، ہم نے حتمی فیصلے میں لکھاہے کہ تین ججو ں کی رائے پر دستخط کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ باربار کہہ رہے ہیں کہ پانچ ججوں پر اعتراض اکیڈمک بحث ہے۔ آپ کیوں اس نکتے پر زور دے رہے ہیں جو بالکل واضح ہے، حتمی فیصلہ تین ججوں کی ہی رائے ہے۔ خواجہ حارث بولے کہ عدالت یہ بتائے کہ فیصلہ تین ججوں کا ہے یا پانچ ججوں کا؟۔ میری سمجھ یہ ہے کہ پانچ ججوں کاہے تو پانچ جج نظرثانی سنیں، عدالت سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ بتادے، جن مقدمات کے فیصلوں کے حوالے دیے گئے وہ پورے کیس تمام ججوں نے سنے تھے اس مقدمے میں دوججوں نے آدھی معاملے کی سماعت ہی نہیں کی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ پانچ ججوں کا ہی کیس تھا، آپ نے بھی پانچ رکنی بنچ کی استدعا کی تھی۔ وکیل نے کہاکہ یہاں آبزرویشن ہی دے کر آپ نے فیصلہ بھی دیدیا ہے۔ جن دوججوں نے کیس سنا ہی نہیں ان کے سامنے نظرثانی درخواستوں پر کیا دلائل دوں؟ اس پر جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ یہی بات ہم نے گزشتہ روز کی تھی مگر آپ نے پانچ رکنی بنچ کے سامنے دلائل دینے کیلئے اصرار کیا تھا، ہم نے پوچھا تھاکہ دو جج کیا بت بنے بیٹھے رہیں گے۔وکیل نے کہا کہ اگر ددو جج یہ نہیں کہتے کہ وہ متفق نہیں تھے تو اس نکتے سے آگے بڑھتاہوں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ ہم نے مقدمے کا کچھ حصہ نہیں سنا، اب آپ آگے بڑھیں اور تین ججوں کو مطمئن کریں۔وکیل نے کہاکہ یہ معاملہ واضح ہونا چاہیے کہ کیس تین ججوں نے سنا تو پانچ رکنی بنچ کیسے بن گیا؟۔

اس کے بعد خواجہ حارث نے جسٹس اعجازافضل کے بیس اپریل کے فیصلے میں سے ایک حصہ پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ صدیوں سے بنائے گئے نظام انصاف کے اصولوں سے انحراف نہیں کرسکتے۔ وکیل نے کہاکہ جسٹس عظمت نے بھی قانونی اصولوں کے مطابق شفاف ٹرائل کے بعد ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھنے کا فیصلہ دیاتھا، یہی اصول اثاثوں کے ساتھ ملازمت پر بھی لاگو ہوگاجس میں کیپٹل ایف زیڈ ای کی تنخواہ کا معاملہ بھی آتاہے۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ اب باسٹھ ون ایف پر دلائل دیں۔ وکیل نے کہاکہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی انتہائی سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس کے اطلاق سے نااہلی تاحیات ہوجاتی ہے، عدالتیں عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت نااہلی کا فیصلہ دیتی ہیں۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ کیا عدالت نے کسی فیصلے میں قراردیاہے کہ باسٹھ ون ایف کی نااہلی تاحیات ہے؟ ایک طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسی عدالت نے افتخار چیمہ کیس میں نااہلی کی اور پھر انہوں نے اگلا الیکشن لڑا کیونکہ وہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اہلیت نہیں رکھتے تھے، دوسری جانب باسٹھ ون ایف آئین میں بعد میں شامل ہواہے جس کے نتائج سنگین ہیں۔وکیل نے کہاکہ عوامی نمائندگی کے قانون کو دیکھا جائے تو نااہلی کرکے الیکشن کالعدم کیا جاتاہے اور ڈی سیٹ کے بعد الیکشن ہوتاہے جبکہ باسٹھ ون ایف عام طور پر لاگو نہیں کیا جاتا۔جسٹس کھوسہ نے کہاکہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کہ اگر تمام متعلقہ فورم پر بھی فیصلہ نہ کرسکیں اور سپریم کورٹ میں اپیل آجائے تو بھی یہ پہلا فیصلہ تصور ہوگا؟۔ وکیل نے کہاکہ بہت افسوس، بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہتاہوں کہ سپریم کورٹ نے تمام فورم ختم کرکے فیصلہ دیا، عدالت نے ایک پورے طریقہ کار کو روند حتمی نتائج اخذ کیے، طریقہ کار اختیار کیے بغیر کسی کے صادق وامین نہ ہونے کاکہہ دینا درست نہیں۔یہ عوامی مفاد کے مقدمے میں دیا گیا فیصلہ ہے جس کے خلاف اپیل کا کوئی فورم ہی نہیں۔باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کیلئے ضروری ہے کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کی نیت بھی معلوم ہو، عدالت کے سامنے آجائے کہ جان بوجھ کر معاملہ چھپایا گیا، جب عوامی مفاد کے قانون کے تحت معاملے کو دیکھا جاسکتاہو تو صادق وامین کا فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے، یہ تو تنخواہ کا معمولی معاملہ تھاجو وصول ہی نہیں کی گئی اور غیرارادی طورپر ظاہرنہیں کی گئی۔

جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہو سکتا کہ ارب پتی شخص کیلئے دس ہزار درہم معمولی رقم ہومگر کیا یہی اصول دس ہزار چرانے والے کسی عام آدمی کیلئے بھی ہوگا کہ اسے جیل نہ بھیجا جائے ؟۔ ان ریمارکس نے وکیل اور ججوں کو بدمزہ کیا تو خواجہ حارث بولے کہ یہ پیسے چرانے کا مقدمہ نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے بھی معاملے پر اپنی خفگی ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ رقم چرانے کا کیس بالکل بھی نہیںہے جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ چلیں اس کو اثاثے ظاہر نہ کرنا کہہ دیتے ہیں۔وکیل نے کہاکہ جے آئی ٹی نے ایسے کوئی شواہد نہیں لائے کہ تنخواہ اکاﺅنٹ میں آئی تھی۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ طریقہ کار کے مطابق کسی ملازم کی تنخواہ اس کی ہتھیلی پر نہیں رکھی جاتی بلکہ اکاونٹ میں آتی ہے۔ وکیل بولے کہ کیااس حوالے سے جے آئی ٹی کوئی ایک بھی دستاویز ریکارڈ پر لائی، کہیں بھی تنخواہ وصول کرنے کا ثبوت نہیں ہے۔جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ تحریری جواب میں تھاکہ تنخواہ وصول نہیں کی مگر جے آئی ٹی دستاویز لائی کہ کمپنی میں ملازمت کامعاہدہ تھا، اکاونٹ سے نہ نکالی جانے والی تنخواہ بھی اثاثہ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ اگر تنخواہ دی ہی نہیں گئی تھی تو پھر اقامہ کیوں معطل نہیں ہوا ، ایسی صورت میں اقامہ معطل ہوجاتاہے۔وکیل نے کہاکہ کیا تنخواہ نہ نکالنے اور پھر اسے غیرارادی طور پر ظاہر نہ کرنے پر بھی باسٹھ ون ایف لگ سکتاہے؟۔اسی طرح ڈکشنری میں اثاثے میں بہت سی تشریحات تھیں عدالت نے صرف ایک مخصوص تشریح ہی کیوں لی؟حالانکہ عدالتیں اس معاملے میں بہت محتاط رہ کر عام استعمال کی تشریح کو مانتی ہیں۔ جسٹس اعجا زالاحسن نے کہاکہ ہم نے بہت محتاط ہوکر فیصلہ لکھا، صرف چٹان کی چوٹی دیکھ کر نتائج اخذ کیے، ایسی بات نہ کریں کہ ہم پوری چٹان سامنے لے آئیں اور آپ کو شکایت ہو۔ (جج نے ٹپ آف دی آئس برگ کا محاورہ استعمال کیا) ۔ ان ریمارکس کو عدالت میں بیٹھے افراد نے جج کے جارحانہ انداز کی وجہ سے ایک دھمکی کے طور پر محسوس کیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ کیس ہمارے پاس عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت اپیل میں نہیں آیاتھا بلکہ عوامی مفاد کے آرٹیکل کے تحت آیاتھا اس لیے صادق وامین کا فیصلہ دیا۔ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ درخواست گزاروں پاس کوئی اور فورم بھی دستیاب تھا۔ اسی دوران وکیل خواجہ حارث بھی بول پڑے تو جسٹس عظمت نے کہاکہ مجھے بات مکمل کرنے دیں، جس پر وکیل نے دوبار سوری کہا۔ جسٹس عظمت نے کہاکہ ہم چالیس برس سے ایک دوسرے کو سن رہے ہیں اس لیے اب ہمیں ایک دوسرے سے سوری نہیں کرنا چاہیے۔وکیل نے کہاکہ درخواست گزار ایف زیڈ ای کمپنی کا معاملہ لے کر ہی نہیں آیاتھا۔ جس پر جسٹس عظمت نے کہاکہ بیس اپریل کے فیصلے میں جسٹس اعجازالاحسن نے اس کی طرف تفصیل سے اشارہ کرکے جے آئی ٹی کو تحقیقات کیلئے کہاتھا۔ وکیل نے کہاکہ عوامی نمائندگی کے قانونی کی شق چھہتر اے کی بجائے باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کیسے کی گئی جبکہ اس معاملے پر شواہد ہی ریکارڈ نہیں ہوئے تھے۔ وقت ختم ہونے پر جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل خواجہ حارث کی تعریف کی کہ وہ نظرثانی کی حدود سے باہر نہیں گئے اور اپنے دلائل کو اسی دائرے میں رکھا، بہت کم وکیل ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

مقدمے کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).