نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا


(اس زمانے کی کہانی جب وزیراعظم میاں نواز شریف بھیس بدلے بغیر ہی عوام میں گھوم پھر کر گاجر مٹر کا بھاؤ اور عوام کا حال معلوم کیا کرتے تھے: مدیر)

دو روز پہلے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں دو مارکیٹوں کا اچانک دورہ کرکے پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ معلوم کیے اور انھیں یہ جان کے مسرت ہوئی کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں آلو، پیاز، گاجر اور کیلے وغیرہ کی قیمت میں خاصی کمی ہوگئی ہے۔

یہ دورہ اتنا اچانک تھا کہ اس سے پہلے علاقے کی سڑک ازخود صاف ہوگئی اور پہلے سے موجود باوردی پولیسں، سادہ محافظوں، چند صحافیوں اور میڈیائی فوٹو گرافروں کے سوا کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔ دکان دار اور گاہک خوش گوار حیرت سے دوچار ہوئے اور وزیرِ اعظم جس بھی پھل اور سبزی فروش کے پاس گئے اس نے یہی بتایا کہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں نیچے آنے کا سبب پٹرول کی قیمت میں کمی ہے۔ حالانکہ سبزیاں اور پھل پٹرول کے بجائے پانی سے اگائے جاتے ہیں، پھر بھی ان کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن ٹرانسپورٹ جو پانی کے بجائے پٹرول سے چلتی ہے اس کے کرایوں میں کمی ہونا ابھی باقی ہے۔ یا بوالعجبی تیرا ہی آسرا۔

بچپن میں ہم سب سنا کرتے تھے کہ پرانے زمانے میں بادشاہ اور گورنر لوگ رعایا کا حال معلوم کرنے کے لیے فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہلِ کرم دیکھتے تھے۔ کسی سرائے یا چائے خانے میں بیٹھ کے لوگوں کی باتیں سنا کرتے۔ یا گھوڑے پر بیٹھ کے کہیں نکل جاتے۔ کہیں سے کوئی چھوٹی موٹی شے خرید لیتے اور یہ یوں اصلی باتصویر آگہی حاصل کرتے۔

جہاں جہاں یہ بادشاہ اور گورنر لوگ خود نہیں پہنچ سکتے تھے وہاں وہاں ان کے خصوصی خفیہ وثیقہ نویس مقامی انتظام اور روزمرہ زندگی کی رپورٹیں بنا کر براہِ راست بادشاہ یا گورنر کو بھیجتے۔ اس لیے سب انتظام الف کی طرح سیدھا رہتا تھا۔ مگر یہ تب کی بات ہے جب اخبار، کیمرہ اور صحافی ایجاد نہیں ہوا تھا اور مورخ بادشاہ کا وظیفہ خوار تھا اور انصاف ایسا خوار نہ تھا۔ ایک معمولی دراروغہ بھی بادشاہ کا نمایندہ سمجھا جاتا تھا اور قانون توڑنا بادشاہ سے بغاوت کے برابر تھا اور بغاوت کی سزا بادشاہ کی صوابدید پر تھی۔

اب حالات وہ نہیں رہے۔ بادشاہ کو عوام کے حالات معلوم کرنے کی خاطر ان کے درمیان گھومنے کے لیے اس لیے بھیس بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ آج بادشاہ کے بجائے نظام بھیس بدلتا ہے۔ کبھی آمریت کی چادر تو کبھی فسطائیت کی ٹوپی تو کبھی نظریاتی فرغل تو کبھی نیم جمہوری شیروانی تو کبھی بور ژوا جمہوریت کا مکھوٹا تو کبھی عوامی راج کا جبہ۔ مارکیٹ میں ایک ہی نظام کے اس قدر ایک اور دو نمبر سستے، مہنگے بھیس دستیاب ہیں کہ اصل درمیان میں کہیں کھو گیا ہے اور عام لوگ ان حالات میں اس قدر بھیرا گئے ہیں کہ بھیس اور بھینس میں فرق سے بھی گئے۔

ویسے بھی ٹوٹ پھوٹ اور ابتری کے دور میں بادشاہ یا نظام بھیس بدلے بھی تو کیا نہ بھی بدلے تو کیا۔ نظام جو بھی تھا جب تک سلامت تھا تب تک ٹرین وقت پر چلوانا زیادہ سے زیادہ ڈویژنل سپریٹنڈنٹ ریلوے کے دفتر کی ذمے داری تھی۔ اب وزیرِ ریلوے کو کریڈٹ لینا پڑتا ہے کہ میں نے ٹرین وقت پر چلوا دی۔ ایف آئی آر کٹوانے کے لیے محرر تک رسائی کافی تھی، اب اس کے لیے بھی کم ازکم وزیرِ اعلی درکار ہے۔ کسی گھر یا اراضی کا قبضہ چھڑوانے کے لیے علاقے کے تحصیلدار یا اسسٹنٹ کمشنر لینڈز کے دفتر کے ایک دو چکر لگانا بہت تھا۔ اب تو گورنر محمد سرور بھی لینڈ مافیا کے سامنے بے بس ہو کر استعفیٰ دے دیتا ہے۔

پہلے تفتیش کا کام پولیس کے سپرد تھا اور کانسٹیبل کی رپورٹ کا سپریم کورٹ تک حوالہ جاتا تھا۔ اب تفتیشی کام دیگر ادارے کرتے ہیں اور پولیس زیادہ تر ان اداروں کے ڈاک خانے کا کام کرتی ہے۔ اسپتال میں داخلے کے لیے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے دفتر سے ملنے والی سلپ کام کروا دیتی تھی، اب سیکریٹری ہیلتھ کو فون کرکے ایم ایس سے کہنا پڑتا ہے ’’ یار مہربانی کرو، اس بندے کو وارڈ میں داخل کرلو’’۔ پہلے کسی کو داخلہ دینا نہ دینا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کا اختیار تھا۔

اب کسی اچھے اسکول میں داخلے کے لیے وزیرِ تعلیم کو سائل کے ہمراہ بندہ بھیجنا پڑتا ہے۔ روزمرہ اشیا ء کے نرخ اوقات میں رکھنے کے لیے بلدیہ کے پرائس کنٹرول انسپکٹر کا بازار سے گزر جانا بہت ہوتا تھا۔ اب دودھ فروش اور قصابوں کی ایسوسی ایشن حکومت سے برابری کی بنیاد پر مشروط مذاکرات کرتی ہے اور وزیرِ اعظم کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرنے کے لیے بازار کا اچانک دورہ کرنا پڑتا ہے۔

جب اس قدر ادھم ہو کہ یہی سجھائی نہ دے کہ کس اہلکار کے پاس کیا اختیار اور کتنی بے اختیاری ہے۔ کون سے ادارے کی سرحد کہاں سے شروع ہو کے کہاں ختم ہوتی ہے۔ جہاں ٹیلی فونی زبانی احکامات تحریری احکامات سے زیادہ اہم قرار پائیں۔ جہاں کوئی اہل کار اوپر سے پوچھے بغیر تبادلے اور سرزنش کے ڈر سے سیدھا سیدھا، اصولی، قانونی اور درست معمولی سا فیصلہ کرنے پر بھی تیار نہ ہو۔ جہاں ایک عام سے وکیل کی اوپر تک رسائی سے کسی عام عدالت کا جج پریشان ہوجائے اور ایک معمولی سب انسپکٹر کی غیر معمولی پہنچ سے آئی جی بھی گھبرائے۔ تو پھر کونسا حسنِ انتظام، کیسی جواب دہی، کس کا احتساب، کون سے قانون کی عمل داری، کہاں کا میرٹ اور کس قدر عوام دوستی؟ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں۔ تم انشا جی کا نام نہ لو کیا انشا جی سودائی ہیں۔

مگر ایسا نہیں کہ جو ریاستی مشینری کے کرنے کے اہم اور بنیادی اور بڑے کام ہیں وہ نہیں ہورہے۔ کوئی تو کررہا ہے۔ تب ہی تو ریاست رواں ہے۔ مگرہاں! محتسب کا ادارہ بھی قائم ہے لیکن اس کا کام احکامات جاری کرنا ہے، عمل کروانا نہیں۔ محکمہ خارجہ کا وجود ہے لیکن ضروری تو نہیں کہ خارجہ پالیسی بھی وہی بنائے۔ ایک وزارتِ داخلہ بھی ہے مگر یہ تو کہیں نہیں لکھا کہ اس وزارت کے ٹھپے کے ساتھ ہونے والے سب احکامات و اقدامات کا ذمے دار وزیرِ داخلہ ہی ہے۔

ہاں ایک سرکاری خزانہ بھی ہے مگر اس خزانے کی چابی وزیرِ خزانہ کی ہی جیب میں رہے، یہ ضروری تو نہیں۔ ہاں ایک عدد اسٹیٹ بینک اور اس کا ایک گورنر بھی ہونا چاہیے مگر یہ کہاں درج ہے کہ ریاستی مالیات کو ٹریک پے رکھنے اور اوور ڈرافٹ کے نلکے کی نگرانی کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک ایک آمر کی طرح با اختیار ہو اور سرکار کو کھلائے سونے کا نوالہ مگر دیکھے شیر کی نگاہ۔ قانون سازی کے لیے ایک عدد پارلیمنٹ بھی ہے لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ آرڈر پر مال تیار نہیں کرسکتی۔ ہاں ایک عدد وزیرِ دفاع بھی لازمی ہے۔ مگر یہ کس جگہ درج ہے کہ وہ ہر اجلاس اور فیصلے میں شریک ہوتا پھرے۔ کیا اسے اور کوئی کام نہیں۔

ہاں ریاستی اتحاد کی علامت کے طور پے ایک عدد صدرِ مملکت بھی لازمی ہے۔ تو کیا اب وہ اپنی مرضی سے یہ بھی نہ سوچے کہ میں اس عظیم الشان چار دیواری میں آخر کر کیا رہا ہوں؟ ہاں ایک با اختیار وزیرِ اعظم بھی حکومتی ریل کھینچنے کے لیے ازبس ضروری ہے۔ تو کیا وہ ہروقت بڑے بڑے مسائل اور دورس فیصلوں کے گرداب میں ہی اتنا الجھا رہے کہ اسے گاجر مٹر کے بھاؤ معلوم کرنے کا بھی خیال نہ آئے۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا مگر جیسا ہو رہا ہے ویسا بھی نہیں ہوسکتا۔
قوم ملک سلطنت پایندہ تابندہ باد، شاد باد منزلِ مراد۔
منگل 10 فروری 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).