کچی عمر کا حسن


جہاں جہاں جمہوریت کا پودا درخت بن چکا ہے وہاں وہاں پولنگ کے بعد ہارنے والا نہ صرف جیتنے والے کو مبارک باد دیتا ہے بلکہ نتائج کو خوشدلی سے تسلیم کر کے خود احتسابی کے عمل سے گزرتا ہے تاکہ اگلی بار بہتر کارکردگی دکھا سکے۔
لیکن اپنے پاکستان میں آج تک کوئی ایسا سیاسی نظام نافذ نہ ہو سکا جس پر سب کا بنیادی اتفاق ہو کہ اب اسے ہی چلتے رہنا چاہیے۔ 70 برس میں کوئی ایسا الیکشن نہیں ہو سکا کہ جس کے بارے میں سب نے کہا ہو کہ شفاف ہے۔

سنا ہے 1970 میں ہونے والے پہلے عام انتخابات نہایت منظم انداز میں منعقد ہوئے اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو خوش دلی سے تسلیم کر لیا مگر حکومتِ وقت نے خود ہی منعقد کیے گئے انتخابات کے نتائج کو شفاف نہیں سمجھا، چنانچہ اس ’دھاندلی‘ کے نتیجے میں ملک ہی دو ٹکڑے ہو گیا۔

اس کے بعد سے اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے انہیں حکومت یا جیتنے والے کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا اور کیا بھی تو یہ کہہ کر دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں کہ ہم صرف اس لیے نتائج مان رہے ہیں تاکہ جمہوریت آگے بڑھ سکے، ہمیں معلوم ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے پھر بھی ہم قومی مفاہمت کی خاطر صبر کریں گے۔ وقت آنے پر بتائیں گے کہ انتخابات کے نتائج کس نے اور کیسے چوری کیے گئے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر نئے انتخابات سر پر آجاتے ہیں مگر ریں ریں وہی پرانی رہتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کتنا کمزور ہے مگر اسے با اختیار بنانے کے بجائے گالیاں دینا سب کو اچھا لگتا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ فوج کا مفاد کمزور جمہوریت میں ہے مگر میں نے آج تک کسی برسرِاقتدار جماعت یا حزبِ اختلاف کو یہ کہتے نہیں سنا کہ امن و امان کی نگرانی پولیس کی ذمہ داری ہے لہذا انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے بھی پولیس ہی کافی ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے۔ ہر حکومت پولیس کو اردلی سمجھتی ہے اور اپوزیشن بھی برسراقتدار آنے کے بعد اسے ایک فعال، ایمان دار اور پیشہ ورانہ با اختیار ادارے میں ڈھالنے کے بجائے اردلی ہی بنائے رکھتی ہے۔

ہر سویلین دور میں فوجی آمریت کے ادوار کی مرثیہ خوانی بھی جاری رہتی ہے اور مردم شماری سے لے کر سرسری انصاف کی فراہمی اور شفاف پولنگ یقینی بنانے تک ہر حکومت، جماعت اور فرد ہر بار محکمہ شماریات، عدلیہ یا الیکشن کمیشن پر اعتماد کرنے کے بجائے فوج کی طرف ہی دیکھتا ہے۔

من پسند انتظامات پر اتفاق کے باوجود ہارنے والا نتائج تسلیم نہیں کرتا۔ اب آپ دیکھیں گے کہ لاہور کے حلقہ این اے 120 میں ہر امیدوار کی جانب سے انتخابی ضابطہِ اخلاق کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود جب مکمل انتخابی نتائج سامنے آئیں گے تو کیا کیا تبصرے نہیں ہوں گے۔

نواز شریف کا پانچواں سال

تحریکِ انصاف جیتی تو دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار کہے گا کہ اسٹیبلشمنٹ چونکہ شریف خاندان کو جمہوریت کے نقشے سے مٹانا چاہتی ہے لہذا یہ تو ہونا ہی تھا۔

اگر مسلم لیگ ن گذشتہ انتخابی نتائج کے برعکس ووٹوں کے کم فرق سے جیتتی ہے تو جیتنے والا کہے گا کہ شریف خاندان کے خلاف سازش عوام نے مسترد کر دی اور ہارنے والا کہے گا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے پاناما کیس کے فیصلے نے شریف خاندان کے انتخابی قلعے میں شگاف ڈال دیا۔

اگر مسلم لیگ ن پچھلے انتخاب کے مقابلے میں اس بار زیادہ لیڈ لیتی ہے تو ہارنے والا کہے گا کہ جب تمام سرکاری وسائل انتخابی مہم میں جھونک دیے جائیں گے تو حزبِ اختلاف بھلا کیسے جیت سکتی ہے اور جیتنے والا کہے گا کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔

جیتنے والا کہے گا کہ پاکستان کی عوامی عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا ہارنے والا کہے گا کہ ایک ضمنی انتخاب کی ہار جیت قومی انتخابی رحجان کی نمائندہ تھوڑا ہوتی ہے۔

حلقہ این اے 120 میں کل ملا کر 42 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا۔ آپ شرط لگا لیں کہ ان میں سے 41 انتخابی نتائج سے غیر مطمئن ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی بری طرح قائل ہے کہ اگر انتخاب منصفانہ ہوتا تو وہی جیتتا۔
اسے کہتے ہیں کچی عمر کی جمہوریت کا حسن۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).