چاند نکلا تو کئی چہرے نظر سے گزرے۔۔۔


“یہ جو تم تصویر بنا رہی ہو نا قیامت والے دن اس میں جان بھی ڈالنی پڑے گی” برسوں پہلے آرٹس کلاس میں ایک لڑکی کا بولا ہوا یہ جملہ آج مجھے بہت یاد آیا جب سامنے آرٹس کالج کی لڑکیاں کینوس سامنے رکھے اپنے کام میں مگن تھیں اور پاس سے گزرتی ایک خاتون نے اس سے ملتا جلتا تبصرہ فرمایا۔ ہمیں تب بھی عجیب لگا کہ آخر ایک تصویر بنانے پہ اتنا بھی کیا جذباتی ہونا کہ جان ہی ڈالنی پڑے لیکن خیر وہ وقت بھی گزر گیا۔ جب سائنس پڑھنے لگے تو ایک اور مشکل مرحلہ درپیش تھا کہ کتاب کے پہلے چار صفحوں میں یہی لکھا تھا کہ زندگی کیسے شروع ہوئی اور پھر بےتحاشا مذہبی بیانات۔ چلیں ہم یہاں سے بھی گزر لئے لیکن یہی کتاب پڑھنے والے جب میڈیکل کالج پہنچے تو ایک نام نہاد مسلمان نے ڈارون کی تھیوری کا پرچار شروع کر دیا، کہاں زندگی کا ایک فلسفہ بچپن سے پڑھاتے رہے اور کہاں آج ڈارون کی تھیوری، کچھ نے مداری کہا، کچھ نے سستی شہرت کا طلبگار کہا، لیکن وہ سب بہرحال اس بات پر متفق تھے کہ ہم نے جو اتنا کچھ پڑھ رکھا ہے وہ کیا غلط ہے؟ آخر ہمارے ان انسانوں نے اس ڈارون کے شیدائی کا ایسا جینا حرام کیا کہ اسے یقین ہو گیا ڈارون جزوی طور ہر غلط تھا نیز یہ کہ کچھ انسان آج بھی بندر ہی ہیں۔

میڈیکل کالج میں ویسے بھی داخلہ ہو تو گھر والے ڈاکٹر ایسے کہتے ہیں جیسے پہلے روز ہی ہم کوئی توپ چیز بن گئے۔ پہلے روز کے بھی کیا کہنے کہ توپ چیزوں کا جب مردے سے سامنا ہوا تو چلیں صنفِ نازک کا بےہوش ہونا، خوفزدہ ہونا شاید سمجھ میں آتا تھا۔ سامنے کھڑے لڑکوں میں سے کچھ کے اندر کا شاہین بچہ جاگا اور وہاں جو لوگ چھری چاقو تیز کئے کھڑے تھے انہیں لتاڑا گیا کہ یہ آپ لاش کی بےحرمتی کر رہیے ہیں۔ خیر پھر تمام مردان حر کو سمجھایا گیا کہ یہ آپ کی پڑھائی کا حصہ ہے اسے آپ تعلیم سمجھیں، چیڑ پھاڑ یا خدمت، یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن بہرحال یہ ایک ایسا موضوع تھا جو بہت عرصہ زیرِبحث رہا، حمایت کرنے والوں کے پاس بحث کا وقت نہیں تھا کہ وہ چیڑپھاڑ میں لگے تھے اور مخالفت کرنے والوں کا جتھا روز کسی نہ کسی روایت کو اٹھا لاتا اور ہمیں گناہ گار ثابت کرتا ۔

پانچ سال کی ایسی پانچ سو کہانیاں ہیں جو یاد کراتی ہیں کہ پہلے سال میں ہم ہڈیاں پڑھنے کی کوشش کرتے تھے تو پھر ہزار بار ہاتھ دھوتے تھے اور عبرت کی کہانیاں سنتے تھے، دوسرے سال کے آخر تک ہم ایک ہاتھ میں کھوپڑی تھامے اسی ہاتھ سے منہ میں چپس ٹھونس رہے تھے اور عبرت ساری فائنل کے نتیجے کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی تھی۔

گناہ گار وہاں سے نکلے اور تیسرے سال میں وارڈ پہنچے، مریضوں سے ملاقات ہوئی، ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اٹھایا کہ جائیں باہر راہداری میں بیٹھیں اور مریض سے تفصیلات معلوم کریں کیا مسئلہ ہے؟ کیا بیماری ہے؟ کب سے ہے؟ ہم نے سلام کیا اپنا تعارف کرایا تو انکل جی نے سلام کا جواب دینے سے پہلے ہمیں پندرہ منٹ یہ سمجھایا کہ ایک عورت کے تعلیم حاصل کرنے کے کیا نقصانات ہیں، اور اگر ڈاکٹر بنے بغیر رہا نہیں جاتا تو مردوں کا علاج کہاں سے آ گیا؟ اس کی آپ کو اجازت نہیں۔ اس عزت افزائی پہ ہم باہر نکلے اور شکر ادا کیا کہ یہ عزت باقی لوگوں کے سامنے نہیں ہوئی، غصے میں کیفے پہنچے تو ایک مردِ مومن جو پہلے سال لاش کی بےحرمتی پہ ہمارے لتے لے رہے تھے آج ہمارے در پہ سوالی بنے کھڑے تھے کہ ایک حسینہ کا نمبر مل سکتا ہے، ہم نے انہیں سمجھایا کہ لاش کی بےحرمتی کرنے والے زندہ لوگوں کی بےحرمتی نہیں کرتے اور وہاں سے نکل لئے۔ لیکن اس واقعے سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ اچھے خاصے باذوق ہو گئے ہیں۔

دین و دنیا کے تضادات میں پھنسے ایک مرحلہ ایسا آیا کہ ہم نے سوچا سارے کپڑوں کو آگ لگا دیں، بس سفید رنگ کا لباس پہنیں۔ ایک صاحب نے محترمہ کے ساتھ بدتہذیبی کی، خاتون شکایت لئے پرنسپل کے دفتر پہنچی، شکایت سنی گئی اور پھر عدالت خود چل کے ہمارے در یعنی کلاس روم پہنچی اور ساری لڑکیوں کو بتایا گیا کہ فساد کی جڑ یہ شوخ رنگ کی قمیضیں ہیں جو آپ سب ان لڑکوں اپنی جانب راغب کرنے کی خاطر زیبِ تن فرماتی ہیں۔ ان صاحب کی فراست پہ پہلے بھی کوئی شک و شبہ نہیں تھا لیکن اس بات کے بعد تو ہم قائل ہو گئے کسی بھی مسئلے کا سادہ ترین حل درکار ہوا تو ہم بھی اسی در پہ جائیں گے۔ پھر یوں ہوا کہ عشاق بتوں سے فیض پانے کی جستجو میں بھی مگن رہے اور گستاخوں کے خلاف یوم منانے میں بھی آگے آگے رہے۔ اس روز کیفے میں جہاں سب لوگ نعرے لکھ رہے تھے، کچھ بےحیا بھاگتے پھرتے کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں ایک دوسرے پہ انڈیل رہے تھے۔ بتایا گیا کہ عشاق کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ بہتر ہو گا ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے نیچے پہنچیں۔ تب کیونکہ ہمارا شمار بھی انہی سبھوں میں ہوتا تھا جس لشکر کو جان پیاری تھی تو ہم اس ہجوم کا حصہ بنے۔ کڑکتی دھوپ میں نعرے لگانے والوں میں وہ سب شامل تھے جو احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس روز ہمیں احساس ہوا کہ ہم منافقت کے پہلے درجے پہ بھی نہیں پہنچے اور لوگ چوتھے درجے سے بھی آگے ہیں۔ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے میں فلاح مکمل طور پہ عیاں ہے۔

ایسی ہزاروں کہانیوں کے بیچ ایک الیاسی مسجد کی پہاڑی ہے اور ایک ہرنوئی ہے، کینٹ بازار کی گلیاں ہیں اور جدون پلازہ کی روشنیاں ہیں جہاں ان تضادات سے بھرپور روز و شب نے ہمیں دنیا دیکھنے، دھوکے کھانے، آزادی سے قہقہے لگانے اور کونوں کھدروں میں چھپ کے رونے کی وہ سب سوغاتیں بخشیں جو یادوں کی پوٹلی میں محفوظ ہیں۔ ندیم فاروق پراچہ کی کتاب اینڈ آف دی پاسٹ ایبٹ آباد میں گزرا ہر وہ لمحہ یاد کرا گئی جو کہیں دھندلا چکا تھا۔ میں یہ کتاب پڑھ رہی تھی یا آٹھ سال پہلے سے ایک کہانی شروع ہوئی تھی۔ ابھی میں خود بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنے سال پیچھے جانا اور خود کو ہر گزرتے سال کے ساتھ تبدیل ہوتے دیکھنا دلچسپ تو تھا لیکن ساتھ ہی نفع و نقصان کا ایک حساب کتاب شروع ہو گیا جس میں ہر چیز کی قیمت چکانی پڑی۔ خیر یہ گزری کہ کہیں سے بھی گزرتے ہوئے، ہر موڑ پر، ہر دوراہے پر اپنے آپ سے نظر ملی تو خوشگوار سا احساس ہوا کہ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments