مجاہدین فیس بک


\"rashid-ahmad-2w\"عجیب وغریب تضادات کا شکار ایک بھری پری نسل ہے جو فیس بک پر پروان چڑھی ہے۔نفسیاتی کیفیت ایسی کہ ماہرین نفسیات کو نئی اصطلاحات تراشنے کی ضرورت پڑے۔’علم‘ پر ایسی دسترس کہ افلاطون بھی ان کے سامنے پانی بھرے۔’دعوی‘ اتنی شدت کا کہ  اگر نہ مانو تو اگلی پوسٹ میں جہنم کا پروانہ بس آیا ہی سمجھیں۔اپنی بات منوانے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جائیں گے خواہ جھوٹ یا سفید،سبزوپرپل جھوٹ ہی  کیوں نہ گھڑنا پڑے۔’کفرواسلام‘ کی جنگ میں دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لئے ان کی بے نیام تلواریں ہر وقت تیار رہتی ہیں،جونہی کارزار گرم ہوتا ہے یہ عواقب سے بے پرواہ ہوکر اس میدان میں کودتی ہیں  اور اس وقت تک داد شجاعت دیتی ہیں جب تک ’’مخالفین‘‘ کے دانت  کھٹے نہ کردیں۔زعم تقوی ایسا کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے غسل کریں اور رعب ایسا کہ ’کفار‘ کی ایجادات پر انہیں ہی رات دن للکارتے رہتے ہیں کہ اگر حق پر ہو تو سامنے کیوں نہیں آتے۔آئے دن مارک زکربرگ کے لتے لیتے رہتے ہیں اور ’عاجزی‘ ایسی کہ چند لائکس کے لئے لوگوں کو ترلے کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور اللہ اور رسولﷺ کا واسطہ دے کرلوگوں کو لائک اور شیئر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور بعض متششدد مجاہدین تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی ’مسلمان‘ ان کی پوسٹ شیئر نہ کرے تو وہ ان کے بنائے گئے’ دائرہ ایمان واسلام‘ سے خارج ہوجاتا ہے۔یہ اپنی طرف سے جو مرضی لکھیں مگر اسے شیئر اسلام کے نام پر کروائیں گے،اور ان کے ’ملنگ‘ بھی وہی ہیں جو ایسی لایعنی باتوں پر کان دھرتے ہیں اور اسے دھڑا دھڑ شیئر کرکے اپنی مسلمانی کا ثبوت دیتے ہیں کیونکہ پوسٹ میں درج مسلمان کی تعریف کے مطابق وہی مسلمان ہے جو اس پوسٹ کو شیئر کرے۔معروف مزاح نگار ’’گل نوخیزاختر‘‘ کے بقول :’’میرا ایک دوست بتا رہا تھا کہ اُس نے ایک دفعہ شرارتاً گوگل سے کسی لڑکی کی تصویر لگا کر نیچے لکھ دیا کہ جب پاکستان کا ایٹم بم بن رہا تھا تو اس لڑکی نے اپنا جہیز بیچ کر ڈاکٹر قدیر خان کو ڈیڑھ لاکھ عطیہ کیا تھا۔جونہی یہ تصویر اپ لوڈ ہوئی‘ دھڑا دھڑ اِس قسم کے کمنٹس آنے لگے ۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔بہت خوب۔۔۔ یہ لڑکی قوم کا فخر ہے۔۔۔ جیتی رہو تم نے ہمیں عزت سے رہنا سکھایا۔۔۔حکمرانوں کو اس لڑکی کو دیکھ کر شرم کرنی چاہیے۔۔۔لٹیرو! اس لڑکی کو بھی یاد رکھو یہ پاکستان کی شان ہے۔۔۔ہم تمہاری عظمت کو سلام کرتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ!‘

ان مجاہدین میں سے اکثریت ان کی ہے جن کو بقول کسے گھر میں دوسری دفعہ سالن بھی نہیں ملتا لیکن فیس بک پر نیوز چینلز کی طرح ہفتے کے ساتوں دن اور دن کے چوبیس گھنٹے ’معرکہ‘ بپا رکھتے ہیں۔کبھی مغرب کی ’سازشوں‘ پر انتہائی وقیع تحقیقی مقالے تحریر کرتے ہیں تو کبھی ’ملالہ اصل میں کون ہے ‘ جیسے موضوعات پر ’فرزندان توحید‘ کا لہو گرماتے ہیں۔را،موساد اور سی آئے اے کے متعلق یوں رائے دیتے ہیں کہ ان کی پالیساں یہی تو ترتیب دیتے ہیں۔سازشی نظریات ان کا خصوصی مضمون ہے اور شرق وغرب میں اسلام اور پاکستان کے خلاف جہاں بھی کوئی سازش کرے ،یہ فوراً بھانپ کر امت مسلمہ کو خبردار کرنا اپنا فرض منصبی جانتے ہیں اور اس عمل میں ذرا بھی کوتاہی نہیں ہو نے دیتے۔

ہندوستان  انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا اور ہندوستان سے مذاکرات اور اچھے تعلقات کو بھی یہ ’ٹوپی ڈرامہ‘ قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک سرکش ہندوستان کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ’الجہاد الجہاد‘۔ان کی  ناتمام حسرتوں میں سے یکےاز یہ ہے کہ انہیں کسی ایٹمی میزائل پر باندھ کرجانب ہندوستان روانہ کردیا جائے تاکہ ان کا کلیجہ کچھ ٹھنڈا ہو۔فیس بک پر ہندوستانیوں سے دو دو ہاتھ کرنا ان کی پسندیدہ ہابی ہے۔

’برادر اسلامی ملک‘ کی اصطلاح انہیں ازحد عزیز ہے اوریہ بھی ان کا مرغوب موضوع ہے۔اس عنوان پر یہ گھنٹوں بلا تکان لکھ سکتے ہیں اور آئے دن حکومت کی سرزنش کرتے رہنا کہ وہ برادر اسلامی ممالک کے نقش قدم پر نہیں چل رہی ،اپنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔’نہ سمجھو گے پاکستان والو تو مٹ جاو گے‘کی تشریح کرتے ہوئے قوم کو آئے دن ہلاکت سے خبردار کرنا بھی  ان کا کام ہے اور قدرتی آفات کی ایمانی کمزوری والی وجوہات بھی ان کو ازبر ہیں۔

شرمین اور ملالہ کو ملنے والے ایوارڈز کو ’صیہونی سازش‘ قرار دیتے ہیں  اور اس بارے میں کوئی دلیل بھی سننا اپنے ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور اسے رہا نہ کروانے پر دن رات حکومت وقت کو کوسنے دیتے ہیں۔عورت کو گھرکی ’رونق‘ سمجھتے ہیں اور اس کے باہر نکلنے پر نہ صرف پابندی کے خواہاں ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً عورت کو جہنم کی آگ سے بھی خبردار کرتے رہتے ہیں،لیکن کترینہ وکرینہ والے پیجز بھی لائک کئے ہوئے ہیں اور اسے قطعاً تضاد نہیں سمجھتے کہ وہ تو ہیں ہی کافرائیں اور جب تشریح پوچھیں تو کہتے ہیں :ہماری مراد ’’کافرہ حسن‘‘ ہے۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad

8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments