جنس کی تبدیلی کیوں ہوتی ہے؟


بہت سے لوگوں نے ٹرانس جینڈر کا لفظ تو سنا ہے لیکن وہ اس مسئلے سے پوری طرح واقف نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کوئی مرد عورت کیسے بن جاتا ہے اور کوئی عورت مرد کیسے بن جاتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے ​سمجھنے میں مجھے بھی کئی سال لگے۔ میں اس کالم میں آپ کو اپنی اور اپنے مریضوں کی کہانی سناتی ہوں۔

میں نے 2008سے2010 کے دوران یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں‌ اینڈوکرنالوجی کی فیلوشپ کرتے ہوئے وی اے ہسپتال میں‌ کام کیا جہاں‌ ہم لوگ ہفتے میں‌ دو کلینک کرتے تھے ایک ذیابیطس کا اور دوسرا جنرل اینڈوکرنالوجی کا۔ ایک دن میں‌ مریض دیکھ رہی تھی اور ایک خاتون آئیں۔ وہ بوڑھی تھیں، نہایت شائستہ، اچھے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، بال سلیقے سے بنے ہوئے اور بغل میں‌ پرس دبایا ہوا تھا۔ جب میں‌ نے ان کا چارٹ کمپیوٹر میں‌ کھول کر دیکھا تو مجھے یہ پڑھ کر ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ ہمیشہ سے ایک خاتون نہیں‌ تھیں‌ بلکہ انہوں‌ نے بہت سالوں پہلے 18 سال کی عمر میں‌ اپنی جنس مرد سے خاتون کروا لی تھی اور اپنی تمام زندگی ایک خاتون کی طرح گزاری تھی۔ میں نے اگر ان کو سڑک پر دیکھا ہوتا تو ان کے بارے میں‌ یہ بات ہرگز نہیں‌ جان پاتی۔ میں نے اپنی حیرت کو ان پر ظاہر ہونے نہیں‌ دیا اور پروفیشنل طریقے سے ہی ان کی ہسٹری لی، معائنہ کیا اور دوا لکھ دی۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے‌ کسی ٹرانس جینڈر انسان کو کتابوں سے باہر اپنے کلینک میں دیکھا  تھا۔

آج تک جتنے بھی مریض‌ دیکھے اور جتنی بھی حیرت انگیز بیماریوں‌ کے بارے میں‌ سیکھا ان میں‌سے سب سے زیادہ مشکل، پیچیدہ اور نہ سمجھ آنے والا مسئلہ ٹرانس جینڈر کا علاج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو کوئی خون کا ٹیسٹ ہے جس سے اس بیماری کو ثابت کیا جاسکے اور نہ ہی کوئی ایسا ماحولیاتی اثر ابھی تک ڈھونڈا گیا ہے جس کو لے کر ہم یہ کہہ سکیں‌ کہ اس وجہ سے ان مریضوں کو یہ مسئلہ ہے۔

مجھے بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے کا جنون تھا۔ میں نے عمران سیریز، انسپکٹر جمشید، ابن صفی، محی الدین نواب کی سسپنس میں‌ سیریز دیوتا، لمبے ناول جیسے کہ آدھا چہرہ اور ناگ عنبر ماریا اور کیٹی کی 300 سے زیادہ قسطیں میڈیکل کالچ جانے سے کافی پہلے ہی پڑھ لی تھیں۔ ایسی کہانیاں پڑھنا آج بھی یاد ہے جن میں‌ ٹرانس جینڈر افراد کا ذکر تھا۔ ایک کہانی میں‌ فیملی پلان بناتی ہے کہ اس فیمیل ٹو میل ٹرانس جینڈر لڑکے کا ریپ کروائیں تو وہ خود کو لڑکی سمجھنے لگے گا۔ یہ سننے میں‌ پاگل پن لگ رہا ہو گا لیکن یہ بات عامر خان کے پروگرام کی ٹرانس جینڈر ڈاکیومینٹری میں‌ بھی سنی تو معلوم ہوا کہ لوگ اس طرح‌ کے فضول اور بے فائدہ خیالات اور عقائد رکھتے ہیں۔ ایسی حرکت کرنے سے کسی انسان کو شدید صدمہ پہنچانے اور خود کو ہمیشہ کے لئے مجرم بنانے کے علاوہ اور کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اسی وجہ سے اب لوگوں کے با شعور ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نہایت عام مسئلہ ہے کہ لوگ اپنا وقتی فائدہ دیکھتے ہوئے یہ نہیں سمجھتے کہ چور، ڈاکو، قاتل یا ریپسٹ ہونا آپ کے ضمیر پر ہمیشہ کے لئے بوجھ بنا رہے گا اور آپ کبھی ایک نارمل زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ پھر ہماری قوم تعویذ اور وظائف کے ذریعے ان گناہوں‌ کو معاف کرانے کی کوشش میں‌ لگی رہتی ہے۔ حالانکہ ان کو اپنے گناہوں‌ کے خود سے اعتراف کی، ان کے تدارک کی اور پھر ایک سائکوتھیراپسٹ کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ایسا نہیں  ہورہا ہے اسی لیے بہت سے لوگ دائرے میں‌ سفر کررہے ہیں۔

کچھ لوگ کہیں گے کہ ایسی دماغی بیماریاں‌ محض مغرب میں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ میرے اپنے کئی مریض‌ ایسے ہیں‌ جو دوسرے ملکوں‌ کے ہیں‌، ایرانی، برازیلی، امریکی، انگریز، کالے گورے، ہسپانوی سب۔ یعنی یہ مسئلہ ایک انٹرنیشنل مسئلہ ہے صرف مغربی نہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں‌ کہ مغرب میں‌ لوگوں‌ کو دہری زندگی گذارنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ یہاں شخصی آزادی ہے لیکن ہر ملک میں ‌ایسا نہیں‌ ہے۔ ان جگہوں‌ پر لوگ نقلی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل بے چینی، ڈپریشن، گھریلو تشدد اور خود کشی کی صورت میں‌ ظاہر ہوتے ہیں۔

دو سال کی فیلوشپ کے دوران صرف دو ٹرانس جینڈر مریض دیکھے۔ ایک دن ایک ینگ نرس آئی جس کے تھائرائڈ میں‌ پرابلم تھی۔ جب میں‌ نے اس کو بلایا تو اس کی شکل دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اپنی ہنسی روک نہیں‌ پارہی تھی۔ وہ ویٹنگ ایریا میں‌ ایک ایسی صاحبہ کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جو میل ٹو فیمیل ٹرانس جینڈر تھیں۔ کہنے لگی کہ مجھے اس سے زیادہ تہذیب یافتہ ہونا چاہیے لیکن میں‌ اس لمبے چوڑے آدمی کو خواتین کے کپڑے پہنے دیکھ کر اپنی ہنسی نہیں روک پا رہی ہوں۔ ان صاحبہ کو کلینک میں‌ سبھی جانتے تھے، انہوں‌ نے جنگیں‌ لڑی تھیں، کئی ناکام شادیاں‌ بھی کیں، بچے بھی پیدا کئیے، ہر وہ کام کیا جس سے وہ اپنے آپ کو نارمل آدمی محسوس کرسکیں لیکن ادھیڑ عمر ہونے کے بعد، کئی طلاقوں اور خود کشی کی کوشش کے بعد انہوں‌ نے اس بات کو ذہنی اور معاشرتی طور پر مکمل طور پر قبول کرلیا تھا کہ وہ اصل میں ‌ایک خاتون ہیں۔ اور وہ اب ایسے ہی رہتی تھیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم سب دنیا کے زیادہ تر لوگ جہاں‌ بھی جائیں یہی چاہتے ہیں‌ کہ ہماری طرف کسی کی توجہ نہ ہو، ہم جتنا ہوسکے کسی بھی ماحول میں‌ رہیں‌ تو ویسے ہی نارمل دکھائی دیں۔ ہر کوئی فٹ ہونا چاہتا ہے۔ میں‌ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ آخر ان ٹرانس جینڈر لوگوں‌ کا کیا پرابلم ہے؟ سارا جسم نارمل ہے پھر دماغ میں‌کیا خلل ہے؟ پچھلے 8 سالوں‌ میں‌ اس موضوع پر کافی پڑھا بھی اور کام بھی کیا۔ پڑھنے سے زیادہ مریضوں سے سیکھا۔ پڑھنے کے لیے کچھ زیادہ تاریخی مواد نہیں‌ ہے کیونکہ اس دائرے میں‌ لوگوں‌ کی معلومات بہت کم ہیں اور ان کو بڑھنے میں ابھی ٹائم لگے گا۔

ریکارڈ کی ہوئی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد ہمیشہ سے انسانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ انیسویں صدی میں ٹرانس جینڈر افراد اور ان کے مسائل کے بارے میں‌ عوامی شعور بیدار ہونا شروع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوائیں ایجاد ہو گئیں۔ اب ان مریضوں کی سرجری کے علاوہ ہارمون سے علاج بھی ممکن ہوگیا ہے۔

اوکلاہوما میں‌ بوڑھے اینڈوکرنالوجسٹ ریٹائر ہونا شروع ہوئے تو ایسے مریض جو ان کو کافی سالوں سے دیکھ رہے تھے  نئے ڈاکٹر تلاش کرنے لگے۔ جب آفس میں‌ کالیں آنا شروع ہوئیں تو ہم لوگوں نے میٹنگ بلائی کہ اب کیا کیا جائے؟ مسئلہ یہ تھا کہ دو مریض دیکھ کر کوئی بھی ڈاکٹر کسی شعبے میں‌ ماہر نہیں‌ کہا جاسکتا۔ ٹرانس جینڈر کا اینڈوکرائن علاج ایک سپیشلٹی کے اندر ایک سب اسپیشلٹی ہے جس میں‌ ابھی تمام ڈاکٹرز کی ٹریننگ بھی نہیں‌ ہوسکی ہے۔ میرا اپنا تجربہ زیادہ نہیں تھا اور میرے پارٹنر کا بھی نہیں۔ لیکن ہم سیکھنے میں‌ دلچسپی رکھتے تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ان مریضوں کا علاج کرنے کی حامی بھری۔ جس دن پہلی ٹرانس جینڈر خاتون کلینک میں‌ آئیں تو نہ مجھے معلوم تھا کہ ان سے کیا اور کیسے پوچھنا ہے اور نہ ان کو معلوم تھا کہ کیا بتانا ہے۔ اس عجیب سچؤئیشن سے نبٹنے کے لئے اینڈوکرائن سوسائٹی کی ٹرانس جینڈر کے علاج کی گائیڈ لائن کھولی اور ایک ایک لائن پڑھ کر اس دن یہ فیصلے کیے کہ کیا دوا لکھنی ہے اور کون سے خون کے ٹیسٹ کرانے ہیں۔ ان مریضوں کو کیسے پکارا جائے، ان سے کیسے بات کی جائے، ان کی کیسے مدد کی جائے وہ آہستہ آہستہ سیکھا۔

ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ کپڑے سینا ہو، پودے اگانا یا عمارت تعمیر کرنا، ہر چیز کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ اسی طرح‌ ہر مریض کی ہر بیماری کے لئے مختلف سوال ہوتے ہیں، ان کی مختلف علامات ہوتی ہیں، مختلف ٹیسٹ اور پھر تشخیص کے بعد علاج تجویز کرتے ہیں۔ جیسے گال بلیڈر کے مریض زیادہ تر چالیس سال کے پیٹے میں خواتین ہوتی ہیں جن کے کئی بچے ہوتے ہیں اور وہ پیٹ کے اوپر سیدھے ہاتھ کی طرف تکلیف کی شکایت کرتی ہیں جو چکنا کھانے سے بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح‌ ہم اس بیماری کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہماری انویسٹی گیشن اس ڈائریکشن میں‌ ہوتی ہے۔ ٹرانس جینڈر مریضوں‌ کو دیکھنے کے بعد اور ان کی کہانیاں سننے کے بعد ایک پیٹرن ابھرنا شروع ہوا۔ بالکل مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف نسلوں کے مریض جن کی عمریں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ایک ہی کہانی دہراتے دکھائی دیے۔ آہستہ آہستہ میں‌ نے یہ بھی سیکھ لیا کہ کیا پوچھنا ہے اور کس طرح‌ ان سے بات کرنی ہے کہ وہ خود کو محفوظ ماحول میں‌ محسوس کریں‌ جہاں‌ ان کو جج نہیں کیا جارہا اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس طرح‌ قطرہ قطرہ سمندر بناتا ہے اسی طرح‌ افراد ایک معاشرہ بناتے ہیں اور ہر ایک انسان کو صحت مند بنانا اور زندہ رکھنا ان تمام انسانوں‌ کے لئے فائدے مند ہوتا ہے جو ان سے جڑے ہوں۔

شاید ساؤتھ ایشیا میں‌ آبادی اتنی زیادہ ہے کہ شاید لوگ سوچتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اگر ایک دو بچے مر گئے یا مار دیے یا کسی کو تھما دیے گئے تو زیادہ فرق نہیں‌ پڑے گا۔ شاید انسانوں‌ کی تعداد اتنی ہوگئی ہے کہ ان کی قدر کم ہوگئی ہے اور ”سرواؤل آف دا فٹسٹ“ والا معاملہ چل رہا ہے۔ میں اس بات کے بارے میں‌ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ میرا ایک بچہ ایسا ہو اور میں‌ اس کو اجنبیوں‌ کو تھما دوں۔ اگر ہمارا ایسا بچہ ہوتا تو ہم اس کو باقی دو کی طرح‌ ہی محبت سے پالتے اور اس کو دنیا کی ہر وہ سہولت فراہم کرتے جو باقی دو کو کی۔ نہ کبھی تعلیم، ذمہ داری یا وراثت میں‌ لڑکے اور لڑکی کا فرق رکھا اور نہ ہی تیسری جنس کا رکھنا تھا۔ یہ کام ہماری انسانی اقدار اور اخلاقیات سے باہر ہیں۔

ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں میں‌ جنس تبدیل کروا لینے کے بعد خود کشی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ آج تک جتنے بھی ٹرانس جینڈر مریض دیکھے ہیں‌ ان میں‌ سے کسی نے بھی آگے چل کر یہ افسوس ظاہر نہیں‌ کیا کہ ان کا جنس تبدیل کرلینے کا فیصلہ غلط تھا۔

پہلے زمانے میں‌ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خود کو غلط جسم میں‌ سمجھنا یا ہم جنس پسند ہونا دماغی مسائل ہیں‌۔ پرانے زمانے کے ماہرین نفسیات یہ کوشش کرتے تھے کہ لوگوں‌ کو اس بات پر رضامند کرلیں کہ وہ بھی دنیا کی اکثریت کی طرح‌ نارمل بن جائیں۔ کافی سارے چرچ یہ سروس فرہم کرتے ہیں‌ کہ جنت دوزخ کی باتیں‌ بتا کر لوگوں‌ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ نارمل اقلیت سے نارمل اکثریت کا حصہ بن جائیں۔ لیکن تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسا کرنے سے محض تمام لوگوں کا وقت برباد ہوتا ہے۔ یہ دماغی بیماریاں ہیں‌ ہی نہیں بلکہ اقلیتی نارمل رویے ہیں اور ان کو ایسے ہی دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ تمام انسان برابر ہیں۔ اگر ہم دوسرے انسانوں کے مسائل سمجھ نہیں‌ سکتے ہیں‌ تو کوئی بات نہیں‌ لیکن ان کے مسائل میں‌ اضافہ ہرگز نہیں‌ کرنا چاہیے۔ کیا ضرورت ہے کہ بلاوجہ ان ٹرانس جینڈر افراد پر آپ ہنسیں، ان پر تشدد کریں، بلاوجہ ان کو ستائیں۔ اگر کسی کا بچہ آکر بولے کہ میں‌ غلط جسم میں‌ ہوں‌ تو ان کے دماغ کا علاج کرنے کے بجائے اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دہری اور نقلی زندگی گزارنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ ناخوش لوگ مل کر ایک خوش معاشرہ کبھی بھی نہیں‌ بنا سکتے ہیں۔ وہ دنیا میں‌ کبھی آگے نہیں‌ بڑھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).